مثالیں تو بنتی ہی ہیں

January 30, 2023

رابطہ ۔۔۔۔۔ مریم فیصل
ٹوری پارٹی اور حالیہ حکمراں جماعت کنزرویٹو کے ندیم ضحاوی کے ٹیکس ایشو پر اب ایک اور نیا اسکینڈل سامنا آگیا ہے، مطلب کچھ یوں ہوا کہ یک نہ شد تین شد بلکہ بہت سارے شد جن کا تذکرہ کئی بار کیا جاچکا ہے اور جن کا سلسلہ شروع ہوتا ہے سابق وزیر اعظم بورس جانسن کے اسکینڈلز سے اور تاحال اسکینڈلز کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ ندیم ضحاوی جنہوں نے دیر سے ٹیکس کی ادائیگی پر پینلٹی بھری ہے، اب اسی غلطی پر انہیں اپنے عہدے سے بر طرفی کی پینلٹی بھی بھگتنی پڑ رہی ہے اور ان کی اس غلطی کی سزا ٹوری پارٹی کو بھی بھگتنی پڑ سکتی ہے ،اپوزیشن کی ناراضگی کی شکل میں بھی اور عوام کے سوالات جو سامنے آئیں گے وہ الگ کہ یہ کیسے حکمراں ہیں جو ہمارے ٹیکس جیسے اہم معاملے پر لا پروائی کا مظاہرہ کر رہے ہیں کیونکہ یہ ٹیکس تو ایسا معاملہ ہے جس کو بھرنے میں برطانوی عوام کا خون پسینہ خشک ہوتا رہتا ہے، اس پر اتنے اہم عہدے پر بیٹھا ہمارا لیڈر ایسی سستی کا مظاہرہ کیسے کر سکتا ہے کہ ملٹی ملین پونڈز کا ٹیکس ادا کرنا ہو اور ٹال مٹول کر کے بھرنے میں تاخیر کی اور پھر ایچ ایم آر سی سے اس معاملے پر سیٹل منٹ بھی کی۔ اس روئیے کا مطلب کیا ہے، کیا یہاں بھی بڑوں کیلئے ریلیف ہے اور عام عوام کیلئے تمام اصول و ضوابط ہیں، ہمیں تو برطانیہ میں رہتے ہوئے یہی سمجھ آیا ہے کہ ایک عام برطانوی شہری کو اپنے ٹیکس کے معاملے پر کسی قسم کی رعایت کی امید کر نا ہی فضول ہے تو کیا ملک کی حکمراں جماعت کے پارٹی چیئرکیلئے قانون میں کمی بیشی یا تبدیلی کی جاسکتی ہے یا انھیں یہ رعایت دی جاسکتی ہے کہ وہ ٹیکس کا کاغذ ہاتھ میں لے کر یہ سوچے کہ بعد میں دیکھیں گے ابھی کیا جلدی ہے، ٹیکس بھرنے کی اور ٹیکس کی رقم بھی لاکھوں میں ہواور جب اسی ٹیکس کو بھرنے کی تاریخ پر تاریخ نکلتی جائے تب وہ متعلقہ ادارے سے بات چیت کرکے اس معاملے کو سیٹل بھی کر لیں اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو، ایسا سوچنے میں بہت عجیب لگ رہا ہے لیکن اسی طرح کا معاملہ ندیم ضحاوی کے ساتھ ہوا ہے جس کی پاداش میں اب انھیں برطانوی پارلیمنٹ میں بیک بینچرز کے ساتھ بیٹھنا ہو گا،کیونکہ وزیر اعظم رشی سوناک نے تو ان کی اس غلطی کے ثابت ہونے پر فورا ایکشن لیتے ہوئے انہیں برطرف کر دیا ہے لیکن اپوزیشن تو شور مچارہی ہے کہ وزیر اعظم نے ایکشن لینے میں دیر کی ہے جب کہ رشی سوناک کہہ رہے ہیں کہ مکمل تحقیقات کے بعد ہی کوئی ایکشن لیا جاسکتا ہے، بات یہ نہیں ہے کہ دیر سویر ہوئی ہے بات تو یہ ہے کہ ہمیشہ برطانیہ میں بات یہاں پر ہی آکر رک جاتی ہے کہ غلطی جب بھی سامنے آتی ہے اس پر مکمل تحقیقات بھی ہوتی ہے اور غلطی کرنے والوں کو غلطی کے مطابق سزا بھی ملتی ہے ، یہاں ہمیشہ مثالیں بنتی ہیں اور پرانی غلطیوں سے سیکھا جاتا ہے ۔ بس یہی بات ہے سمجھنے کی جو شاید کبھی مادر وطن میں کوئی سمجھ جائے تو معاملات بگڑنے کے بجائے سدھر جائیں۔