پہلے ہمارے پیسے واپس کریں!

February 02, 2023

ڈزنی اسٹودیو کی ایک اینی میٹڈ فلم ہے دی لائن کنگ، فلم کا ایک سین ہے جس میں لائن کنگ موفاسا اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہا ہے، موفاسا چٹان سے لٹکا ہوا ہے، اس کے اگلے دو پنجے چٹان پر ہیں اور باقی جسم ہوا میں معلق ہے، اور نیچے مہیب کھائی ہے، ایسے میں چوٹی پر موجود موفاسا کا بھائی ’سکار ‘ آگے بڑھتا ہے اور موفاسا کے اگلے پنجے تھام لیتا ہے، اب موفاسا ہوا میں جھول رہا ہے، اورپھر سکار اپنے بھائی کے ’ہاتھ‘ چھوڑ دیتا ہے، اور موفاسا چٹانوں سے ٹکراتا ہوا کھائی میں گرتا چلا جاتا ہے۔ یہ بہت اداس کر دینے والا سین تھا۔ ( میری بیٹی تعبیرنے بچپن میں یہ سین درجنوں بار دیکھا اور ہرہر دفعہ وہ رونے لگتی تھی)

یہ سین مجھے اسحاق ڈار صاحب کی بہ دولت یاد آیا ہے، بالکل وہی منظر ہے، پسے ہوئے عوام خطِ غربت سے اوپر رہنے کے لئےہزار جتن کر رہے تھے، چٹان سے لٹکے ہوئے کروڑوں لوگ، پھر ان معلق، بے دست و پا لوگوں کی دست گیری کے لئے ’سکار‘ کی طرح ایک برادرِ بزرگ آگے بڑھے، اور کروڑوں لوگوں کو گمان گزرا کہ ’ہمارا بھائی‘ ہمیں بچا لے گا، مگر پھر یوں ہوا کہ کروڑوں لوگوں کا ہاتھ چھوڑ دیا گیا، اور اب ایک دل دوز منظر کا سامنا ہے، لا تعداد لوگ غول در غول، بھوک اور بیماری کی چٹانوں سے ٹکراتے ہوئے، افلاس کی کھائی میں گر رہے ہیں۔یہ کروڑوں لوگ بھی موفاسا کی طرح خود کو بادشاہ سمجھتے تھے، کیوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں یہی لکھا ہے، یعنی ’’دھوکے دیے کیا کیا ہمیں بادِ سحری نے۔‘‘

سچ تو یہ ہے کہ اس ملک کے کروڑوں عوام کے لئے زندگی وبال بنا دی گئی ہے، دو وقت کی روٹی تعیش قرار پائی ہے، پیٹ بھر کر سبزی کھانا بھی محال ہو چکا ہے، گوشت پکانا تو خیر ایک واقعہ ہے، پھل اور ڈرائی فروٹ ’شرفا‘ کی دسترس سے بہت دور جا چکے ہیں، اور بجلی کا بل تو معاشی ’دہشت گردی‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ کیا اس ابتری کےذمہ دار اسحاق ڈار ہیں؟ یا شوکت ترین؟ آئی ایم ایف سے معاہدہ موجودہ حکومت نے کیا یا پچھلی حکومت نے؟ عمران خان اپنے دورِ اقتدار میں قیمتوں کا مقابلہ موجودہ دور سے کرتے ہیں، جواباً نواز شریف اپنے 2013-18 کے دورِ حکومت کا موازنہ عمران خان کے دور سے کرتے ہیں، خان صاحب کہتے ہیں میرے زمانے میں تو ملک اچھا بھلا چل رہا تھا، میاں صاحب کہتے ہیں کہ موجودہ تباہی کا ذمہ دار وہ ٹولہ ہے جس نے میری حکومت ختم کر کے ایک لایعنی ہائی برڈ نظام کی بنیاد رکھی جس کے بعد ملک آج تک سنبھل نہیں پایا۔ پھر عوام اپنی اپنی سیاسی وابستگی کی بنا پر اپنے لیڈر کی بات تسلیم کر لیتے ہیں، ایک دوسرے کے لیڈر کو مطعون کرتے ہیں، یونہی کھیل چلتا رہتا ہے۔ در اصل یہ خلطِ مبحث ہے۔اگر ہم اس مسئلے کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سیاسی وابستگیوں سے اوپر اُٹھ کر یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ ایک دو حکومتوں کا مسئلہ نہیں ہے، ہم دو چاربرسوں میں اس ابتری کا شکار نہیں ہوئے، یہ داستانِ عبرت کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔

طویل منصوبے اورادق معاشی بحثیں بر طرف، ہمارے معاشی مسئلے کا حل بہت سادہ ہے۔بات یہ ہے کہ ریاستِ پاکستان کی اشرافیہ سالانہ 17 ارب ڈالر کی مراعات لے رہی ہے، اور کسی صورت اس سے دست کش ہونے کے لئے تیار نہیں ہے، سیاست دان، جج، جرنیل اور بیوروکریٹ سبھی اس بہتی گنگا میں اجتماعی اشنان فرما رہے ہیں، اشرافیہ کے اس گروہ نے اس ابلیسی نظام کے دوام کے لئے ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھے ہیں، جب کہ عوام کو سیاست کی کلہاڑی سے کاٹ کرایک دوسرے سے الجھا دیا گیا ہے، ایک طرف وسائل پر قابض منظم اور طاقت ور اشرافیہ ہے، اور دوسری طرف بکھرے ہوئے، کم زور،گراں باریِ ایام تلے پسے ہوئے عوام ہیں، اس بے جوڑ لڑائی کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے، پچھتر سال سے طاقت ور کمزور کے سینے پر بیٹھا ہوا ہے، اور اب تو طاقت ور اتنا لحیم شحیم ہو چکا ہے کہ اس کے وزن تلے نحیف عوام کا دم رکنے لگا ہے، ’’کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے۔‘ ‘عام آدمی نڈھال ہو چکا ہے، عوام کی زندگی جرم بن چکی ہے۔ یہ ریاست اشرافیہ کے بوجھ تلے چٹخ چکی ہے، یہ ملک انارکی کی سمت بڑھ رہا ہے۔مگر اشرافیہ کی کوتاہ نظری دیکھئے کہ وہ اب بھی باز نہیں آ رہے، عوام کی ٹوٹی ہوئی کمر پر مزید بوجھ لادا جا رہا ہے، اشرافیہ کی بے حسی ملاحظہ فرمایے کہ وہ اب بھی عوام کے وسائل بھنبھوڑ رہے ہیں، اور عوام کو ’قربانی‘ کا سبق پڑھا رہے ہیں، کیا شہباز کابینہ کا حجم فحاشی نہیں ہے، کیا بنی گالہ سے وزیرِ اعظم آفس آنے جانے پر عوام کا ایک ارب روپے لٹانا ڈاکا نہیںہے، آخر کتنے پلاٹوں سے پیٹ بھرے گا، ریٹائرمنٹ والے دن بھی ایک پلاٹ ہضم کر لیتے ہیں، جج حضرات ایک پلاٹ اپنے نام پر لیتے ہیں اور ایک بیوی کے نام پر، اور اصرار ہے کہ ہمیں ’معزز‘ جج کہا جائے، 1040 کنال پر محیط جم خانہ کلب پانچ ہزار روپے سالانہ ٹیکس دیتا ہے، ہوس کا اژدھا پھنکار رہا ہے اور اس ملک کے وسائل ہڑپ کرتا چلا جا رہا ہے، اور دوسری طرف بھوکے ننگے عوام آٹا، گھی، ٹماٹر، پیاز کے تعاقب میں صبح سے شام تک خجل ہو رہے ہیں۔

بس، بہت ہو گئی، یہ فیصلے کی گھڑی ہے، پہلے ہمارے پیسے واپس کریں پھر اگلی بات کریں گے، اور تب تک ہم کسی کے لئےزندہ باد کا نعرہ نہیں لگائیں گے، نہ کسی سیاسی جماعت کے لئے، نہ کسی ادارے کے لئے، That's it ۔