الیکشن کی تاریخ کا معاملہ

February 03, 2023

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے یہ مسئلہ ابھرتا محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے انعقاد کی تاریخوں کا تعین کون کرے گا۔ حال ہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دونوں صوبوں کے گورنروں کو متعلقہ صوبوں میں انتخابات کے حوالے سے تاریخ کے تعین کے بارے میں جو خط لکھا اس کا جواب دیتے ہوئے دونوں گورنروں نے علیحدہ علیحدہ مراسلوں میں کہا ہے کہ ملک کی سیکورٹی ومعاشی صورتحال مدنظر رکھتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے الیکشن کمیشن خود ہی تاریخوں کا تعین کرے۔ خیبرپختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی نے مشورہ دیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ان تاریخوں کے اعلان سے قبل سیاسی پارٹیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اعتماد میں لے۔ واضح رہے کہ گورنر خیبرپختونخوا نے وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی توڑنے کی سمری پر دستخط کئے تھے۔ اس طرح آئینی طور پر وہ پابند ہیں کہ 90روز میں الیکشن کرانے کے لئے تاریخ کا اعلان کریں۔ انہوں نے سیکرٹری الیکشن کمیشن کے 29جنوری کے خط کے جواب میں صوبے میں امن و امان کی صورت حال کی تشویشناک کیفیت کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ کچھ دنوں سے تواتر سے دہشت گردوں کے حملے ہورہے ہیں۔ اُدھر گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے سیکرٹری الیکشن کمیشن، اسپیکر پنجاب اسمبلی اور سابق پارلیمانی لیڈر تحریک انصاف سردار عثمان بزدار کے خطوط کے جواب میں واضح کیا ہے کہ چونکہ پنجاب اسمبلی گورنر کے آرڈر سے تحلیل نہیں ہوئی (بلکہ وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کے 48گھنٹے گزرنے پر ازخود تحلیل ہوئی) اسلئے اس صورتحال پر آئین کے آرٹیکل 105کی شق 3کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس کی بجائے اب انتخابی عمل آرٹیکل 218کی شق کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل 224اور الیکشن کمیشن ایکٹ 2017ء کی قابل اطلاق شقیں سامنے رکھی جاتی ہیں۔ گورنر پنجاب نے بھی اس امر پر زور دیا ہے کہ ملک کی موجودہ سیکورٹی اور معاشی صورتحال مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے اور آئین کے مطابق آگے کی ضروری کارروائی کرے۔ گورنرپنجاب کے سوشل میڈیا پر وائرل الیکشن کمیشن کے نام خط میں بھی یہی باتیں کہی گئی ہیں۔ الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کے معاملے میں آئین اور الیکشن ایکٹ 217نے واضح طور پر دو فریق مقرر کئے ہیں۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل ( 3)105میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ گورنر اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90دن کے اندر اسمبلی انتخابات کی تاریخ مقرر کرے گا۔ جبکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے آرٹیکل 57(1) میں غیر مبہم طور پر لکھا گیا کہ صدر الیکشن کمیشن کی مشاورت سے عام انتخابات کی تاریخ اور فیصلہ کرے گا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پہلے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دور میں ہوتے تھے اس لئے صدر مملکت عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرتے رہے۔ ملکی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس نوع کی صورت حال ہوئی ہے الیکشن کمیشن نے پنجاب میں 9تا13اپریل اور کے پی صوبائی انتخابات کیلئے 14سے17اپریل کی تاریخ مقرر کرنے کا چوائس گورنروں کو دیا ہے۔ جہاں تک بعض امور میں الجھائو کا تعلق ہے ہمارے پاس دستور پاکستان اور متعلقہ قوانین موجود ہیں۔ جو بھی معاملات طے کرنے ہیں وہ آئین اور قانون کے فریم ورک میں رہ کر ہی کئے جانے چاہئیں۔ جہاں تک وفاق میں برسراقتدار حکومتی اتحاد کی مشکل کیفیت مبصرین کی جانب سے محسوس کئے جانے کا تعلق ہے اس کا حل آئین اور قانون کے اندر ہی ڈھونڈا جانا چاہئے۔ جبکہ اسٹیک ہولڈرز خصوصاً سیاسی حلقوں کا موجودہ حالات میں یکجا ہونا اور معاملات پر اتفاق رائے حاصل کیا جانا وقت کی ضرورت ہے۔