افراط زر: ریکارڈ بلند سطح!

February 03, 2023

کورونا وبا کے بعد گذشتہ برس سے جاری روس یوکرین جنگ کے باعث اس وقت پوری دنیا کساد بازاری اور شدید ترین مہنگائی سے دوچار ہے ،یورپ کے بعض ملکوں میں ہنگاموں کی بھی اطلاعات ہیں جس کے پاکستان جیسی ترقی پذیر معیشتوں پر سنگین اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ۔ غیر ملکی قرضوں کے حجم میں اضافے اور اقساط کی ادائیگیوں کے باعث اسٹیٹ بنک کے پاس زر مبادلہ کے محفوظ ذخائر چار ارب ڈالر کی سطح سے بھی نیچے آگئے ہیں ۔ وفاقی ادارہ شماریات نے افراط زر کی شرح گذشتہ پانچ دہائیوں کی بلند ترین سطح تک پہنچ جانے کی تصدیق کی ہے۔ ادارے کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق جنوری 2023میں افراط زر کی سطح 27.6فیصد تک پہنچ گئی۔ اس سے قبل مئی 1975ءمیں یہ 27.8فیصد تھی جبکہ جنوری 2022 میں 13، اگست 27.25اور دسمبر میں 24.5 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ مجموعی طور پر جولائی تا جنوری اوسط افراط زر 40.25فیصد رہی۔ وفاقی ادارہ شماریات کےمطابق گذشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں اوسط افراط زر 10.26فیصد تھی۔ اقتصادی ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ اگر حکومت نے مؤثر پالیسی اختیار نہ کی تو معیشت مزید خطرات سے دوچار ہوسکتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس سے نہ صرف ادائیگیوں کا توازن مزید بگڑے گا بلکہ سرمایہ کاروں کے رویوں میں بھی سخت گیری آئیگی۔ اس وقت روس سمیت کئی دیگر ممالک پاکستان کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کرنے پر آمادہ ہیں جس سے ڈالر کے موجودہ ذخائر کو محفوظ بنانے کے ساتھ سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر کے عمل کی مکمل بحالی صورتحال کو سنبھالا دینے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ حکومت کو ان سمیت مزید پہلوؤں پر مناسب توجہ دینی چاہئے۔