دولت راج کا بے قابو کھلواڑ

February 04, 2023

پاکستانی سیاسی تاریخ کی متنازعہ ترین سیاسی اور آئینی ہونے کی دعویدار جمہوریت سے بیزار اور الیکشن کے نام سے بدکتی موجود ہ حکومت اپنی اتحادی مہم جوئی سے (محاورتاً نہیں) حقیقتاً کمر توڑ مہنگائی کا تو باعث بنی ہی ہے لیکن اب اس کا بدترین سیاسی کھلواڑ بھی مہنگائی کی طرح بے قابو ہو رہا ہے۔ چولہا ٹھپ اقدامات کے لئے تو شہباز حکومت آئی ایم ایف کی آڑ لے رہی ہے لیکن اسمبلی سے باہر گئی حقیقی اپوزیشن سے نپٹنےکے لئے ابتدا سے ہی فسطائی رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ ڈھائی عشرے قبل ترک ہوئی اسٹیٹس کو کی بڑی پہچان ہارس ٹریڈنگ کو بحال کرکے ’’اتحادی‘‘ حکومت نے جس طرح اپنے گرے ایریاز کے ساتھ بھی اچھی بھلی چلتی چلاتی عمران حکومت کو اکھاڑا تھا، اسی کھلواڑ کو وسعت دیتے ہوئے وفاق کی طرح پنجاب میں بھی پسرانہ حکومت بذریعہ ہارس ٹریڈنگ تھوپنے کی ناکام کوشش ہوئی۔ تھوپ تو دی تھی چلی نہیں۔ یہاں سیاسی استحکام کو کسی درجے پر رہنےکیلئے رُک جانا چاہئے تھا، لیکن ایسا نہ ہوا ،مہم جوئی مختلف اہداف کے ساتھ جاری رہی۔ واضح رہے کہ سرکاری خزانے سے تنخواہ دار وفاقی وزیر بے محکمہ کھل کھلا کر ٹی وی ٹاک شو میں اعتراف کر چکے ہیں کہ ’’عمرانی فتنہ حکومت‘‘ کو ختم کرنےکے لئے ہارس ٹریڈنگ کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں رہا تھا۔ سو اب یہ تجزیہ، رائے یا الزام کی بات نہیں کہ وفاقی حکومت کیسے ختم ہوئی تھی اور پنجاب میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، اس میں دولت کا استعمال تادم جاری ہے۔ ابھی اولاگار کی پالیٹکس (دولت راج) کے پاکستانی آرکیٹیکٹ پنجاب حکومت گرانے اور اپنی لانےکے لئے لاہور میں ڈیرہ داری کرکے ناکام لوٹے ہیں۔ پی ٹی آئی پر ان کا وار خالی تو نہیں گیا، ایک ووٹ سے صوبے کی پرویزالٰہی حکومت مشکل سے بچ پائی تھی۔

معاملہ ’’چمک‘‘سے حکومتیں گرانے اور بنانے تک ہی محدود نہیں رہا۔ ناچیز نے موجود’’اتحادی‘‘ حکومت پر فسطائی جیسے بھاری لفظ کا جو الزام دھرا ہے، وہ اس کے واضح غیر سیاسی رویے ، دھمکی آمیز اور سخت غیر ذمے دارانہ سیاسی ابلاغ اور اس کے نتیجے میں جمہوری ماحول خصوصاً معاشی ماحول اور معمول کے بزنس کو مسلسل پڑنے والے جھٹکوں کے پیش نظر ہی نہیں عائد نہیں کیا۔ دولت راج (اولاگارکی) کی اصطلاح اس لئے استعمال کی گئی کہ اسلام آباد میں سیاسی گھوڑوں کے لگے بازار کو کس نے ہارس ٹریڈنگ نہیں مانا،اسی سے تو ایسے نایاب اسمبلی ارکان دستیاب ہوئے کہ جب انہیں حکومت سے اٹھا کر اپوزیشن کی طرف بٹھا دیا گیا تو یہ اپوزیشن بن گئے۔ ایسے نایاب عوامی نمائندے الیکشن سے تو نہیں ملتے۔ سو معاملہ چمک اور ہاپئر کمیونیکیشن کا رہا۔ یہ جو میں نے اوپر الزام دھرا ہے کہ موجود دولت راج کا آغاز ہی کھلواڑ سے ہوا ہے، یہ ذرا محتاط رہتے ہی تکلف کیا کہ میں اپنے کالم کا آغاز ہی کیوں ’’فسطائیت‘‘ کے ذکر سے کروں، امر واقعہ یہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کے اسلام آباد اور لاہور آپریشن کے بعد سیاسی کھلواڑ کی جو دوسری شکل بد سامنے آئی اس میں وفاقی وزارت داخلہ سے ایک ماہ تک شروع ہونے والا وہ لسانی تشدد تھا جس میں تحریک انصاف کےاحتجاج کے حق کو روکنےکے لئےاس پر تشدد کیا گیا ۔ معاملہ یہاں تک نہیں رہا جب 20 مئی کے اعلان شدہ شیڈول کے مطابق پنجاب سے لانگ مارچ کے احتجاجی جلوس نکلنے لگے، انہیں پہلے تو روکنےکیلئے حمزہ حکومت نے کوچہ کوچہ گرفتاریاں کرکے، گھروں پر غیر قانونی دھاوا بولتے اہل خانہ پر تشدد اور انہیں سخت ہراساں کیا، پھر جب وہ صبح اپنے آئینی حق کے مطابق اسلام آبادکے لئے نکلے تو شہروں سے نکلنے سے پہلے ان پرشدید تشدد کیا گیا۔ لیڈروں کی کاریں توڑی گئیں اور خواتین کارکنوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ ان پر یہ تشدد احتجاج کی حدود کے تعین کے فیصلے سے گھنٹوں پہلے ریڈ زون سے سینکڑوں کلومیٹر دور لاہور اور دوسرے شہروں میںکیا گیا۔ یوں تو ’’اتحادی‘‘ حکومت کے فسطائی رنگ میں رنگے بے قابو ہوتے سیاسی کھلواڑ کی کرونولوجی بہت مفصل ہو چکی ہے لیکن اوپر اسمبلیاں اور حکومتیں توڑنےکے لئے چمک کے استعمال اور ہارس ٹریڈنگ کی بحالی، پرتشدد سیاسی زبان، غیر قانونی مقدمات کی بھرمار کے علاوہ بہت کچھ ہوا لیکن اب اپوزیشن لیڈروں خصوصاً تحریک انصاف کے رہنمائوں سینیٹر اعظم سواتی، شہباز گل،فواد چوہدری اور سینیٹر شاندانہ گلزار جیسی محترمہ اور شیخ رشید جیسے عوامی رہنمائوں پر باغی ابلاغ کے مقدمات قائم کرکے انہیں ہتھکڑیاں لگا کر اور دہشت گردوں کی طرح منہ پر کپڑا ڈال کر عدالتوں میں لے جایا جا رہا ہے، یہ فسطائیت نہیں تو اور کیاہے، اور سب سے بڑھ کر جس طرح عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا اس کیلئے جس طرح وزیر بے محکمہ نے ہی سرکاری ٹی وی پر پریس کانفرنس کرکے عمران خان کے خلاف جس طرح بھڑکیلے ابلاغ سے عوام کو اکسایا ، اس کے منہ پرکپڑا نہ ڈالتے زبان پر ہی کوئی پہرہ لگا دیتے۔ الیکشن سے مسلسل فرار کے ساتھ ساتھ یہ جو بدترین سیاسی کھلواڑ کے ساتھ مل بیٹھ کر معاشی حل نکالنے کا ڈرامہ کیا جار ہا ہے اس مکاری، منافقت اور پرخطر ابلاغ سے جمہوری عمل اور معیشت کتنی بچائی جا رہی ہے؟ جو کوئی قوم کو سمجھا دے یا کھلواڑ مچانے والوں کو قابو کرسکے؟ جو پھول دولت راج والے اپنے سیاسی ابلاغ سے نچھاور کرتے رہے اور کر رہے ہیں اس کی بھی کوئی پکڑ گرفت ہو، ملک کو دانستہ کہاں سے کہاںلےجایا جار ہا ہے یا قوم کی روٹی تنگ کر کے 80رکنی کابینہ پرخطر معاشی بحران میں پارلیمانی نظام کو مکمل بلڈوز کرنے پر ہی تلی رہے گی؟ اور اگر ایسا ہے تو قوم فیصلہ کرے کہ یہ قبول ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)