پاکستانی سیاست کا بدلتا منظرنامہ؟

February 04, 2023

آج حالات اس بدنصیب ملک کو اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں ہم سب کو سنجیدگی کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے اپنی غلط اور جنونی پالیسیوں کے ساتھ اپنے عوام کا حال و مستقبل یونہی برباد کرتے چلے جانا ہے یا اپنی قدامت پرستانہ نظریاتی و تصوراتی پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے ان کی تشکیل جدید کرنی ہے یا نہیں؟پون صدی تو ہم نے اپنے لوگوں کو خوابوں یا سرابوں کے پیچھے لگا کر نظریۂ جبر کے تحت آزادی اظہار پر بندشیں لگاتے ہوئے جیسے تیسے گزار دی۔ اب ٹیکنا لوجی کی جدید ترقی اس جبری گھٹن کو توڑ رہی ہے جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ہماری نئی نسل نالج اور انفارمیشن کے پھیلاؤ میں ایسے سوالات اٹھارہی ہے جنہیں پہلے شدید بندشوں کے باعث شجر ممنوعہ خیال کیا جاتا تھا۔

درویش کا خود پاکستان کے تمام اہل دانش کی خدمت میں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ایک آئینی و جمہوری ریاست نہیں ہے؟ اس نکتے پر اگرہم ایکا رکھتے ہیں تو پھر قومی و نظری کنفیوژن کو کچی لسی کی طرح بڑھاتے چلے جانے کی بجائے ہمیں رہنمائی بھی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے لینا ہوگی مانا کہ ہمارے آئین میں ایک سو ایک قباحتیں موجود ہوسکتی ہیں، جنہیں دور کرنے کا حل بھی خود آئین کے اندر ہی درج ہے حکومت و اپوزیشن جب چاہیں مل بیٹھ کراٹھارویں ترمیم کی طرح انہیں دور کرسکتی ہیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہماری سوچوں کی تنگناؤں میں اتنی وسعت اور برداشت آسکتی ہے کہ ہم باہم مخالف نظریات و شخصیات کو اتنا احترام دے سکیں جو عوامی و آئیڈیل جمہوریت کا تقاضا ہے؟ بس یہی وہ سوال ہے جس کا جواب مشکل ہے اور یہی مسائل کا نیو کلیس ہے، اسی حوالے سے ایک سیاسی کانفرنس بھی ہونے جا رہی ہے۔

ہماری موجودہ سیاسی صورتحال قطعی تسلی بخش نہیں ہے آج یہاں ”پانچ کے ٹولے“ کاذکر کیا جارہا ہے اور کسی مبہم ”قومی حکومت“کی سوچ بھی اندر خانے چل رہی ہے جس میں موجودہ تمام سیاسی پارٹیوں کے بھگوڑے شامل ہوں گے اور طاقتور اپنی مرضی کا نیا سیٹ اپ ان کی معاونت سے قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔اس کے لیے بہ ظاہر دورکی کوڑیاں لاتے ہوئے بڑی دلیلیں دی جائیں گی یہ کہ آپ انہیں بھگوڑے یا موقع پرست نہ کہیے یہ تو باضمیر لوگ ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی کے جبر اور نظریۂ موروثیت سے بغاوت کرتے ہوئے سچے جمہوری ہونے کا ثبوت دیا ہے یہ بڑی کوالٹی کے لوگ ہیں اگر یہ سب شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں یکجا ہوجائیں تو ملک کو مستقبل میں صاف ستھرا متبادل سیٹ اَپ دے سکتے ہیں۔

دوسری طرف ہم جائزہ لیں تو اس وقت پی ٹی آئی اپنے جناح ثالث کی عوامی مقبولیت کے نشے میں گویا ہواکے گھوڑے پر سوار کامیابی کے آسمانوں کی جانب رواں دواں ہے کہ جونہی الیکشن کا ڈول ڈالا جائے گا تو دو تہائی اکثریت کی طاقت ہمارے عظیم لیڈر کے قدموں میں ہوگی او ر وہ اپنی ساڑھے تین سالہ کوتاہیوں کے علی الرغم اب کے اس ملک کی کایا پلٹ دے گا۔

اس کے ساتھ ہی پی پی قیادت اور جیالوں کے خواب ملاحظہ فرمائیں تو وہ اس داؤ پر ہیں کہ وزارت ِ خارجہ کا قلمدان پکڑے بلاول بھٹو نے طاقتوروں کو پوری طرح رام کر لیاہے کھلاڑی تورسواہوکر نکالا جاچکا اور جو کچھ وہ پیہم بول رہاہے ناممکن ہے کہ طاقتور اس کو اب اسی سنگھاسن پر دوبارہ آنے دیں گے۔

دوسری جانب اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ نواز شریف کی حیثیت ان دنوں اپنی لیگ میں ایسے ہے جیسے کسی زمانے میں مہاتما گاندھی کی گانگریس میں تھی جنہیں اپنے خوابوں کی تعمیر کیلئے پنڈت نہرو جیسا ذہین جانشین مل گیا تھا مگر اس شریف آدمی کی مشکل یہ ہے کہ اس کے پاس ویسی منظم پارٹی ہے اور نہ ویسا شاگرد یا جانشین۔رہ گئی ہونہار بیٹی بلاشبہ وہ بیٹوں سے کروڑ درجے بہتر ہے بلکہ پارٹی کے اندر عوامی کشش کی حامل واحد شخصیت ہے جسے سوچے سمجھے بغیر بولنے کا فن بھی آتا ہے اوروہ ن لیگ کی کامیابی کے لیے بڑا اثاثہ ثابت ہوسکتی ہے، اس کی یہ دلیل بھی وزن رکھتی ہے کہ پہاڑ سے اگر بھاری پتھر بھی گرتاہے تو روئی کے گالے جیسا کم وزن ہو کر رہ جاتاہے لیکن افسوس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس بی بی یا بچی میں سیاسی وزڈم نام کی ویسی کوئی چیز نہیں نظر آتی جس کی جھلکیاں ہم ہمیشہ محترمہ بینظیر میں ملاحظہ کیا کرتے تھے ۔باپ میں ذہانت و زیرکی تھی یا نہیں اس کی محبت بھری مسکراہٹ،حلیمی و عاجزی دوسروں کو احترام دینے کی خوبی و صلاحیت بہت سی کوتاہیوں کو ڈھانپ لیتی تھی اور پھر خوشگوار ہمسائیگی اور قومی تعمیر و ترقی کے لیے اس کا واضح و غیر مبہم ایجنڈا اس کی کامیابی و مقبولیت کا ضامن بنا رہا جب کہ بیٹی صاحبہ کی خود پسندی اور غرور و تکبر تو شاید پرویز صاحب جیساایک منکسر المزاج، مرنجاں مرنج اور قابل انسان ان کے سیاسی اتالیق کی حیثیت سے بھی نہ توڑ سکا۔بہرحال آج مریم بی بی کے لیے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ نواز شریف کا سیاسی بیانیہ کیسے چلاتی ہیں ،کھلاڑی کی غلطیوں کو نمایاں کرتے ہوئے اس کی گو شمالی کیسے کرتی ہیں اور طاقتوروں سے اچھے تعلقات رکھتے ہوئے خود کی اسٹیبلشمنٹ مخالف پہچان میں پانچ کے ٹولے کا کردار کیسے نمایاں کرتی ہیں؟ سو باتوں کی ایک بات کہ اپنی پارٹی قیادت اور کنبے میں بڑھتی ہوئی بداعتمادی، دراڑوں اور لکیروں کو کیسے پاٹتی ہیں جب کہ خود نواز شریف کے لئے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی راہ میں بچھے کانٹوں کے باوجود جلد وطن واپس کب آتے ہیں اور قوم کو نئی امیدکیا دلاتے ہیں بالخصوص اپنے بھائی کی بری کارکردگی سمیت مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے سنجیدہ سوال کا سامنا کیسے کرتے ہیں؟