پرویز مشرف کی ہنگامہ خیز زندگی ایک نظر میں

February 05, 2023

جنرل (ر) پرویز مشرف - فوٹو: فائل

اکتوبر 1998 میں آرمی کی کمان سنبھالنے سے 2008 میں بطور صدر مستعفی ہونے تک پرویز مشرف کا دور تنازعات اور اہم واقعات سے بھرپور رہا۔

پرویز مشرف کو خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2019ء کو سنگین غداری کا مرتکب ٹہراتے ہوئے سزائے موت سنائی۔

نواز شریف کے دور حکومت میں آئین شکنی کا مقدمہ دائر ہونے کے بعد 20 نومبر 2013 کو خصوصی عدالت قائم کی گئی۔

سنگین غداری کیس خصوصی عدالت میں 6 سال تک چلتا رہا، 125 سماعتیں ہوئیں، 31 مارچ 2016 کو فرد جرم عائد ہونے کے موقع پر پرویز مشرف عدالت میں موجود تھے۔

سابق صدر بعد میں بیماری کی وجہ سے ملک سے باہر چلے گئے اور پھر کبھی واپس نہ آئے۔

عدالت نے کئی بار پرویز مشرف کو پیش ہونے کا موقع فراہم کیا، خصوصی عدالت نے 19 جون 2016 کو پرویز مشرف کو مفرور قرار دے دیا تھا۔

اس سے قبل پرویز مشرف نے طیارہ ہائی جیکنگ اسکینڈل میں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا اور ریفرنڈم کے ذریعے باوردی صدر بن گئے۔

سابق آرمی چیف نے اپنے اقتدار کو لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) سے دوام دیا۔

پرویز مشرف نے آئین شکنی کی، ایمرجنسی کا نفاذ کیا، ججوں کی معزولی اور نظربندی کا عمل ہوا۔

بھارت سے کرگل کی جنگ کر کے اقتدار میں آنے والے پرویز مشرف نے نائن الیون حملوں کے بعد افغان جنگ میں بطور اتحادی شمولیت اختیار کی۔

مبصرین کہتے ہیں پاکستان آج تک ان فیصلوں کے اثرات سے نہیں نکل سکا۔

11 اگست 1943 کو دہلی میں پیدا ہونے والے پرویز مشرف کراچی کے سینٹ پیٹرک ہائی اسکول میں پڑھے، بعد میں ایف سی کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔

پرویز مشرف نے 1961 میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور اسپیشل سروسز گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی حصہ لیا۔

کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ سے گریجویشن کی اور رائل کالج اور ڈیفنس اسٹڈیز برطانیہ سے بھی کورسز کیے۔