میثاق ِمعیشت سے انکار کیوں؟

February 08, 2023

مشرف کا اقتدار طاقت میں بدمست تھا اور ہم جیسے قلم کے سپاہی اسکی مخالفت میں الفاظ پرو رہے تھے انہی ایام میں کیپٹن صفدر سے بات ہوئی جو سعودی عرب میں جلاوطنی پر مجبور اپنی والدہ سے دور تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ سخت علیل ہیں اور مامتا اپنے بیٹے کی دید کوترس رہی ہے مگر مشرف سرکار اقتدار کے نشے میں چور ہے ۔انہی دنوں پرویز مشرف کا ان کی والدہ کے ہمراہ فیملی انٹرویو نشر ہوا تھا اور اسی کو بنیاد بنا کر میں نے تحریر کیا تھا کہ پرویز مشرف کا اپنی والدہ کے سامنے مودب ہونا بہت بھایا، اس وقت وہ ایک ایسی واحد سویلین شخصیت تھیں کہ جن کے سامنے وہ باادب تھے مگر کیپٹن صفدر کی والدہ بھی اپنے بیٹے کے لئے ایک ایسی ہی ہستی ہیں، بیٹا ماں کے لئے اور ماں بیٹے کے لئے ترس رہی ہے مگر اس معاملے میں سوائے بے حسی کے اور کسی صفت کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہاتھا ۔ یہ سب اسلئے یاد آیا کہ ان حالات سے ملک کی سیاسی قیادت نے بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو میثاق جمہوریت تک پہنچ گئے تھے کہ ماضی کی تلخ سیاست کا دوبارہ اعادہ نہیں کیا جائے گا ۔میاں نواز شریف کو فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ تو سننا پڑا مگر سیاست میں گرفتاریوں کا باب بند ہوگیا اور دھیرے دھیرے سیاست میں ٹھہراؤ بھی آنے لگا۔ دوسری طرف سے فیض یاب ہونے کا عمل شروع ہوگیا، ایسا عمل کہ جس کی بنیاد سوائے نفرت اور دشنام طرازی کے اور کچھ نہ تھی۔ عوام علم رکھتے تھے یا لا علم تھے مگر اربابِ اختیار اچھی طرح سے آگاہ تھے کہ بیگم کلثوم نواز بستر مرگ پر ہیں مگر شریر لوگوں کو شرارت میں لگایا گیا کہ وہ اسپتال میں داخل ہونے کی کوشش کریں، بیماری کا مذاق بنائیں، اسی پر اکتفا نہ کیا گیا بلکہ اس صورت حال کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی غرض سے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے خلاف عدالت سے فیصلہ تک کرا دیا گیا ۔ کتنا کرب لاحق ہوا ہوگا انہیں جب یہ دونوں بیگم کلثوم نواز سے وداع ہو رہے ہوں گے اور وہ بھی کتنے الم ناک لمحات ہوں گے جن کا ذکر میرے مرحوم دوست ارشد وحید چوہدری نے اپنے کالم’’ بائیس منٹ‘‘میں کیا تھا کہ نواز شریف بیگم کلثوم نواز کی بیماری کے سبب تڑپ رہے تھے انہیں جیل میں ہی اپنی بیگم کلثوم نواز کی رُحلت کی خبر سننے کو ملی ۔ کوئی اب بھی اگراٹھ کر مقدمات کی ٹیپ سنانے لگے تو یاد رکھئے کہ ان مقدمات کی بس اتنی حقیقت ہے کہ جج ارشد ملک مرحوم کے اعترافی بیان سے شروع ہو جائیے اور احسن اقبال پر لگایا جانے والا الزام سامنے رکھ لیں ایک طویل فہرست ، ان حالات میں سب کے اہل خانہ کانٹوں کے بستر پر ہی دراز رہے ۔ سوال یہ ہے کہ انتقامی سیاست کا یہ رجحان سیاست میں دوبارہ کیوں نظر آیا، صرف اس لئے کہ اندھی مخالفت، جھوٹ اور دشنام طرازی اقتدار کے لئےسیڑھی بن گئی ۔اگر ایسا ہی چلتا رہا تو سیاست ماسوائے کشیدگی کےاور کسی چیز کا نام نہیں ہوگی جس کی قیمت سب سے زیادہ وطن عزیز کو ادا کرنا ہوگی ۔

اس لئے ضروری ہے کہ سیاسی قوتیں یکجا ہو کر اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے طریقۂ کار طے کریں کیوں کہ مصنوعی سیاسی قوت تو سانحہ پشاور کے بعد بھی اپیکس کمیٹی کے اجلاس تک میں نہیں آئی تو اور کسی بات پر ان سے کسی معاملہ فہمی کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے ؟پاکستان کو اس وقت سیاسی استحکام کی ضرورت ہے کیونکہ سیاسی استحکام ہی موجودہ معاشی گرداب سے قوم کو نکالنے کا وسیلہ بنے گا ۔ معاشی حوالے سے جہاں مسائل ہیںوہیں پر مثبت خبریں بھی آ رہی ہیں۔ اٹلی کی ترقیاتی تعاون کی تنظیم کے سربراہ نے اطالوی سفیر کے ہمراہ پاکستان میں ملاقاتیں کی ہیں اور وہ پاکستان اٹلی کے اقتصادی تعلقات کے فروغ کے لئےکوئی متفقہ حکمتِ عملی تیار کرنے کی کاوش کر رہے ہیں ۔ یورپ میں اٹلی ویسے بھی ایک ایسا ملک ہے جو بہت سے امور پر یورپی یونین میں بھی پاکستانی خیالات سے متفق ہے ۔جی ایس پی پلس اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل اراکین کی تعداد نہ بڑھانے کے پاکستانی موقف کے حق میں ایک توانا آواز ہے ۔ اسلئے امید ہے کہ جیسے ہی دونوں ممالک مزید اقتصادی تعاون کے لئے فریم ورک تیار کریں گے تو اس سے پاکستانی معیشت کو سنبھالا ملے گا۔ دنیا میں انتہائی دلخراش واقعہ قرآن مجید کی گستاخی کی صورت میں پیش آیا ہے مگر اہل مغرب اپنی طاقت کے نشے میں اس بات کو سمجھنے کیلئے سرےسے تیار ہی نہیں کہ مسلمانوں کیلئے یہ زندگی موت کا مسئلہ ہے اور جب ترکیہ نے ملت اسلامیہ کے جذبات کی ترجمانی کی تو استنبول میں 9ممالک نے اپنے سفارتی مشن معطل کردئیے اور ٹریول وارننگ بھی جاری کردی تاکہ ترکیہ کی سیاحتی صنعت کو نقصان پہنچایاجاسکے ۔ حالانکہ جب ترکیہ نے پوچھا کہ آپ کو کیسے علم ہوا کہ یہاں پر آپ کے شہریوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں تو کوئی معلومات مہیا ہی نہیں کی گئیں۔ اس طرح کے اقدامات سے عالمی امن اور بھائی چارے کی فضا قائم نہیں ہوگی اور حقیقت زمینی طاقتوں کو یہ سمجھ لینی چاہئے۔