جوبائیڈن، شی جن پنگ بیٹھک: عالمی امن و استحکام کیلئے کتنی اہم ... ؟؟

December 03, 2023

امریکا اور چین کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے پس منظر میں گزشتہ دنوں صدر جو بائیڈن اور صدر شی جن پنگ کے درمیان ہونے والی ملاقات کو دنیا بَھر میں بڑی اہمیت دی گئی اور ہر مُلک اپنے اپنے انداز سے اس کا تجزیہ کر رہا ہے۔ 16نومبر کو ہونے والی اس ملاقات کو خوش گوار کہا گیا۔صدر شی جن پنگ، ایشیا پیسیفک اکنامک تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا گئے تھے۔ یہ11 مہینوں میں اُن کی صدر بائیڈن سے دوسری ملاقات تھی۔دونوں عالمی رہنمائوں کی جن چار شعبوں پر خصوصی توجّہ رہی، اُن میں دوطرفہ فوجی رابطوں کی بحالی، فینٹائل ڈرگ اسمگلنگ کی روک تھام، باہمی تجارت اور آنے والے امریکی صدارتی انتخابات میں چین کی مداخلت سے متعلق امریکی تحفّظات شامل تھے۔

نیز، عالمی امن کو درپیش دوسرے معاملات بھی ان مذاکرات کا حصّہ تھے۔حالاں کہ کسی بھی تجزیہ کار کے لیے یہ بات خاصی قابلِ غور ہے کہ اِس وقت دنیا کے کئی علاقوں میں خون ریزی ہو رہی ہے، لیکن اس کے باوجود دونوں عالمی طاقتوں کے سربراہان نے اپنا فوکس زیادہ تر دوطرفہ تعلقات ہی پر رکھا۔صدر شی جن پنگ کی ایک ڈنر پر امریکی تاجروں سے بھی بات چیت ہوئی، جنہوں نے اُنہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔صدر شی جن پنگ نے کہا کہ’’ دنیا میں بہت جگہ ہے اور دونوں مُلک وہاں ترقّی کرسکتے ہیں، کیوں کہ ایک مُلک کی ترقّی، دوسرے مُلک کی ترقّی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔‘‘

امریکی اور چینی صدور کی ملاقات سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک دنیا کا اہم ترین خطّہ ایشیا پیسیفک ہے اور دونوں ممالک کی بنیادی پالیسی یہی ہے کہ اس خطّے کو جنگ سے دُور رکھا جائے اور کسی قسم کا تصادم نہ ہونے پائے۔وہ یقین رکھتے ہیں کہ ایشیا پیسیفک کا خطّہ دنیا کی معیشت کو آگے بڑھانے میں ڈرائیونگ فورس کا کام کر رہا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ بھارت سے لے کر ویت نام تک، ہر جگہ معیشت ترقّی کر رہی ہے، عوام کا معیارِ زندگی بلند ہو رہا ہے، جب کہ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ کورونا وبا، عالمی مالیاتی بحران اور یوکرین جنگ کے باوجود یہ تسلسل ٹوٹنے نہیں پایا۔

صدر جو بائیڈن اور چینی صدر کی ملاقات کا محور دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان اعتماد کی بحالی رہا، کیوں کہ گزشتہ دو سالوں میں، خاص طور پر یوکرین کی جنگ اور تائیوان میں رُونما ہونے والے واقعات نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا۔نیٹو اجلاس کے آخری اعلامیے پر نظر ڈالی جائے، تو واضح ہوتا ہے کہ یہ تنظیم روس کو دشمن نمبر ایک سمجھتی ہے، جب کہ چین کو مدّمقابل قوّت قرار دیا گیا تھا۔دونوں صدور نے جن چار شعبوں پر اپنی توجّہ مرکوز رکھی، اُن سب کا تعلق دوطرفہ تعلقات سے ہے۔امریکا اور چین کے درمیان فوجی رابطوں کی بحالی کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی۔

صدر بائیڈن نے بات چیت کے آغاز ہی میں کہا کہ’’ دونوں ممالک کے درمیان مقابلہ، کسی صُورت لڑائی میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ صدر شی جن پنگ نے جواباً کہا’’ ایک دوسرے سے منہ موڑ لینا کوئی راستہ نہیں۔کرّۂ ارض میں اِتنی جگہ ہے کہ دونوں مُلک کام یاب ہوسکتے ہیں۔ایک مُلک کی کام یابی، دوسرے مُلک کے لیے مواقع پیدا کرتی ہے، جب کہ لڑائی کے نتائج فریقین کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتے ہیں۔‘‘

فوجی سطح پر رابطے بحال ہونے سے جنوبی اور مشرقی بحیرۂ چین میں تائیوان ایشو پر جنگ کا خطرہ کم ہو جائے گا، جہاں امریکی اور چینی فوجوں کا خطرناک حد تک باقاعدگی سے آمنا سامنا ہوتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے، اس پیش رفت کا تائیوان میں خیر مقدم کیا گیا، کیوں کہ اصل کشیدگی کی وجہ وہی ہے۔ تائیوان، چین کا حصّہ ہے، جب کہ امریکا’’ وَن اسٹیٹ، ٹو سسٹم‘‘ فارمولے کے تحت چین کی حاکمیت تو مانتا ہے، مگر تائیوان کا اہم فوجی اور معاشی حلیف ہونے کے سبب یہ بھی چاہتا ہے کہ اُس کا سیاسی نظام برقرار رہے۔

چین کا ہمیشہ سے ایشیا پیسیفک اور چینی سمندر پر فوکس رہا ہے، کیوں کہ یہی وہ علاقہ ہے، جو اُسے بیرونی دنیا سے تجارتی راہ داری فراہم کرتا ہے۔یہاں پر کسی طاقت کا بلاشرکتِ غیرے تسلّط اُس کے لیے ناقابلِ قبول ہوگا کہ اس سے اُس کی نقل وحمل کی صلاحیت گھٹ جائے گی۔اِسی لیے اس کی فوجی طاقت کا زیادہ حصّہ اسی طرف ہے۔امریکا نے جب سے یہ اعلان کیا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا سے پیسیفک کی طرف، جسے وہ’’ انڈو چائنا‘‘ کہتا ہے، جارہا ہے، اُس وقت سے چین کے لیے خطّے میں چیلنجز بڑھ گئے۔پیسیفک علاقہ چین اور امریکا دونوں کا زون آف انفلوینس ہے۔اِسی لیے امریکی شفٹ کے بعد ایڈجسٹمنٹ کے مسائل پیدا ہوئے۔

اِس معاملے پر چین نے آکس اور کواڈ فورم پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ یوکرین جنگ کے بعد صدر پیوٹن نے چین کا سہارا لیا، جس نے اُس کا زیادہ تر تیل خریدا۔پیوٹن، جنگ کے بعد تین مرتبہ صدر شی جن پنگ سے ملاقات کرچُکے ہیں۔چین، روس دوستی کو لامحدود دوستی بھی کہا گیا، لیکن اس سب کے باوجود چین کا یہی موقف رہا ہے کہ وہ یوکرین کی جنگ میں غیر جانب دار ہے اور چاہتا ہے کہ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔امریکا واضح طور پر یوکرین کے ساتھ کھڑا ہے۔ چین نہیں چاہتا کہ وہ اس تنازعے میں فریق بنے،جس کی دو وجوہ ہیں۔

اوّل تو اس کی تجارت کے اہم مراکز امریکا اور یورپ ہیں اور وہ اپنی بنیادی قومی پالیسی کے تحت اُنہیں کسی صُورت کھونا نہیں چاہتا۔یاد رہے، پہلی افغان جنگ میں جب سوویت یونین، افغانستان پر حملہ آور ہوا، تو چین نے سوویت یونین کا ساتھ نہیں دیا، حالاں کہ نظریاتی طور پر دونوں کمیونسٹ مُلک ہیں۔سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے، لیکن چین نے اس میں بھی کوئی دِل چسپی نہیں لی، یہاں تک کہ یہ معاملہ روس، امریکا اور یور پ کے درمیان ہی طے ہوا۔

اس کا یہ مطلب بھی ہوا کہ چین کسی نظریاتی گروپ میں شامل ہوکر فوجی تصادم کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا بلکہ اس کی پالیسی یہی ہے کہ اقتصادی طاقت بڑھتی رہے اور اسی سے وہ اپنے حلیفوں کو قریب لائے اور حریفوں سے نبرد آزما ہو۔حالاں کہ چین کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے، جو بیس لاکھ سے زاید جوانوں پر مشتمل ہے۔اِس پس منظر میں امریکا اور چین کے صدور کی بات چیت میں فوجی رابطوں کی بحالی کی اہمیت سمجھی جاسکتی ہے۔

شی جن پنگ اور جوبائیڈن کے درمیان جس دوسرے اہم مسئلے پر بات چیت ہوئی، وہ تجارت ہے۔ صدر ٹرمپ نے چینی کمپنیز اور چینی درآمدات پر غیرمعمولی ٹیکس عاید کر دئیے تھے، کیوں کہ اُن کا کہنا تھا کہ چینی تجارتی پیش رفت نے امریکا کو اندرونی طور پر کم زور کیا ہے۔ ظاہر ہے، جواب میں چین نے بھی ایسی ہی پابندیاں عاید کیں، لیکن اچھی بات یہ تھی کہ چھوٹے ممالک کی طرح، جو جذبات اور نظریات کے زیرِ اثر حدوں کو توڑ دیتے ہیں، چین اور امریکا کے درمیان تجارت بند نہیں ہوئی۔

امریکا اور چین کا تجارتی حجم بڑھتا ہی رہا، کیوں کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں اور اکنامک مینجرز کو پتا ہے کہ گلوبل دنیا میں دونوں عالمی طاقتوں کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے منہگائی، خوراک اور توانائی کے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں، اُن کی شدّت میں کمی ضروری ہے، وگرنہ عالمی معیشت کی سُست رفتاری کے منفی اثرات کسی وقت بھی کسی خوف ناک اقتصادی بحران کا سبب بن سکتے ہیں۔

امریکا، مغربی دنیا کا لیڈر ہے، جب کہ یورپ اس جنگ میں براہِ راست ملوّث ہے، دوسری طرف چین کی روس سے اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہے، اِسی لیے امریکی اور چینی رہنمائوں کی ملاقات سے دنیا کو کم ازکم یہ پیغام تو مل گیا کہ ان دونوں ممالک میں کوئی فوجی تصادم نہیں ہونے جا رہا۔ جو ماہرین اور تجزیہ کار خود ساختہ کہانیوں اور سازشی تھیوریز کے ذریعے انھیں لڑوانے کی کوشش میں مصروف رہے، اُنھیں اس ملاقات سے یقیناً شدید مایوسی ہوئی ہوگی۔ صدر ٹرمپ کی فتح کے بعد یہ الزامات سامنے آئے کہ روس اور چین نے انٹرنیٹ کے ذریعے امریکی انتخابات میں مداخلت کی تھی۔

چین نے اسے بار بار مسترد کیا، لیکن ڈیمو کریٹک پارٹی کی یہ سوچ برقرار رہی۔ وہ ہیلری کلنٹن کی شکست بھولنے کے لیے تیار نہیں۔اِسی لیے2024 ء کے صدارتی الیکشن سے قبل چینی سربراہ سے ڈیموکریٹک امریکی صدر کی بات چیت اُن کے لیے اندرونی طور پر اور پارٹی میں مضبوطی کی موجب ہوگی۔ یہ ایک خالص امریکی انتخابی مسئلہ ہے، لیکن جوبائیڈن کی اس سے متعلق چینی صدر سے بات چیت خود اُن کے لیے اور پھر پارٹی کے لیے بھی سود مند سمجھی جا رہی ہے۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان فینٹائل کی اسمگلنگ پر بھی بات چیت ہوئی، جو منشیات کی ایک قسم ہے۔امریکا کا الزام ہے کہ یہ چین سے بڑے پیمانے پر اسمگل ہو کر امریکا آ رہی ہے اور اس سے عام شہری، خاص طور پر طلبہ متاثر ہو رہے ہیں، جن کی تعداد دو کروڑ بتائی جاتی ہے۔ چینی صدر نے وعدہ کیا کہ وہ اس کی اسمگلنگ کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

صدر شی جن پنگ نے سان فرانسسکو میں ایک ڈنر پر امریکا کے صفِ اوّل کے کاروباری افراد سے بھی ملاقات کی۔اس ملاقات کی ایک خاص بات یہ رہی کہ امریکی تاجروں نے کھڑے ہو کر چینی صدر کی اقتصادی کام یابیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا اور اُن کی تقریر پر بار بار تالیاں بجائیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ اِس بات کا کُھلا اظہار تھا کہ امریکی بزنس کمیونٹی میں چین کے ساتھ تجارت کو نہ صرف اہمیت حاصل ہے، بلکہ وہ چینی پالیسیز کی معترف بھی ہے۔

صدر شی جن پنگ نے امریکی بزنس کمیونٹی کو بڑے خوش گوار انداز میں اپنے مُلک میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔چین کی ترقّی میں مغربی ٹیکنالوجی کا اہم کردار ہے، کیوں کہ مغرب کی زیادہ تر ملٹی نیشنل کمپنیز نے چین میں مال کی تیاری کو ترجیح دی کہ وہ سستا بھی تھا اور اس کی کوالٹی بھی کسی سے کم نہ تھی۔نیز، اس میں چین نے اپنی جدّت بھی شامل کردی، جس سے اس کا مال دنیا بَھر میں پھیلا۔

جب بھارتی وزیرِ اعظم، مودی امریکا گئے، تو اُس وقت بھی ایک خاص ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں تین سو بھارتی تاجروں کی امریکی صدر سے ملاقات کروائی گئی۔ ان رابطوں کے فوائد پھر مُلک اور عوام کو برسوں سرمایہ کاری، نئے منصوبوں اور روزگار کے مواقع کی شکل میں ملتے ہیں۔

ہمیں کب عقل آئے گی کہ یہ سیاسی لیڈرز نہیں، تاجروں کی دنیا ہے اور تجارت کا فروغ ہی کسی مُلک کی ترقّی کا پیمانہ بن چُکا ہے۔ اگر اپنے وزیرِ اعظم پر ہمیشہ شکوک کی پرچھائیں رکھیں گے، تو ایسے میں کون ہمارے مُلک میں سرمایہ کاری کرے گا اور کون حکومتی ضمانتوں پر بھروسا کرے گا۔ یاد رہے، چینی صدر اپیک اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا آئے تھے، حالاں کہ اس سے قبل اُنھوں نے دہلی اور برسلز میں ہونے والے جی۔20 کے اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی، تو اِس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پیسیفک خطّے کے لیے چین کی اہمیت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

صدر شی جن پنگ اور صدر جو بائیڈن دو بڑی طاقتوں کے لیڈر ہیں اور اُن کی ملاقات عالمی معاملات میں کس قدر اہمیت کی حامل ہے، اسے دُہرانے کی ضرورت نہیں۔عالمی امور سے متعلق کوئی ایسا شعبہ نہیں، جو ان کے دائرے میں نہ آتا ہو، تاہم اِس وقت جب کہ یوکرین کی جنگ اور مشرقِ وسطیٰ میں تصادم جاری ہے، اُن کا فوکس اپنے دو طرفہ معاملات ہی پر رہا۔

دونوں مختلف نظریات کے حامل مُلک ہیں اور ہر شعبے میں ایک دوسرے کے مقابل بھی۔دونوں کے جنگوں میں شامل ممالک سے قریبی تعلقات بھی ڈھکے چُھپے نہیں، اگر وہ چاہتے تو دنیا کی توجّہ حاصل کرنے کے لیے جنگ جیسے امور کو اولیت دیتے، بڑی بڑی بڑی ہیڈ لائنز لگتیں، لیکن اُنہوں نے بات چیت دو طرفہ اور علاقائی معاملات ہی پر مرکوز رکھی، جس سے باہمی تنازعات میں کمی کی کوشش کی گئی۔یعنی ایک طرح سے اُنہوں نے کہا کہ’’ چین فرسٹ‘‘ اور’’ امریکا فرسٹ۔‘‘یہ باقی ممالک کے رہنماؤں، اہلِ دانش اور میڈیا کے لیے ایک مثال ہے کہ دنیا میں آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے۔

بجائے اس کے کہ پوری دنیا کی ٹھیکے داری سنبھال لی جائے، سب سے پہلے وہ اُمور سلجھا لینے چاہئیں، جن سے ریاست اور عوام براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ امریکا اور چین کے بڑی طاقت ہونے کے ناتے پوری دنیا میں اقتصادی اور فوجی فٹ پرنٹس موجود ہیں، وہ بڑے اطمینان سے عالمی تنازعات کو اس ملاقات کا اہم حصّہ بناسکتے تھے، لیکن جو بات اہم ہے وہ یہ کہ بڑی طاقتیں میڈیا کی باتوں کو اپنی پالیسی گائیڈ لائن بنانے کی بجائے اُسے خبریں اور رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ وہ میڈیا کو واچ ڈاگ مانتے ہیں نہ کہ پالیسی ساز۔ ان طاقتوں اور ان کی لیڈر شپ کی سوچ اس سطح پر پہنچ چُکی ہے کہ وہ دنیا کے ہر معاملے کو اپنے مفادات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔

دوسری طرف چھوٹے اور غریب ممالک کو دیکھا جائے، تو اُنہوں نے ہر جگہ اپنی پراکسیز رکھی ہوئی ہیں، جن کے ذریعے وہ اپنا اثر ورسوخ اور نظریات بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں فوجی تصادم ہوتے ہیں۔ عوام کی توجّہ ترقّی اور معیشت سے ہٹ کر لڑائی جھگڑوں پر مرکوز ہو جاتی ہے۔

چین اور امریکا کے لیے پیسیفک نہایت اہمیت کا حامل خطّہ ہے۔ یہاں تائیوان جیسے سُلگتے ایشو کی وجہ سے فوجی تصادم کا خطرہ رہتا ہے، لیکن فریقین نے باہمی ملاقاتوں سے امن کے راستے تلاش کیے۔ فوجی تصادم کو فوجی رابطوں میں بدل دیا۔ غور کیا جائے، تو کورونا کے بعد دنیا ابھی تک پوری طرح بحال نہیں ہوئی، یوکرین جنگ جاری ہے، منہگائی نے دنیا کو دبوچا ہوا ہے، ایسے میں تصادم کی راہیں خودکُشی کی جانب جاتی ہیں، لیکن صدر شی جن پنگ اور صدر بائیڈن نے بڑی دانش مندی سے اسے امن کے امکانات کی طرف موڑ دیا۔ اس سے عالمی امن کو استحکام ملے گا اور ساتھ ہی عالمی معیشت بھی فروغ پائے گی، جو بہت ہی آہستہ آہستہ بحال ہو رہی ہے۔