کمپیوٹر دماغ سے جڑگیا، مصنوعی ذہانت نے مزید قدم بڑھائے

January 01, 2024

ایک مشہور ماہرِ فلکیات کا رل سگان کے مطابق سائنس کا بنیادی ماخذ بظاہر دو مخالف نظریا ت کا توازن ہے۔ جہاں ایک طرف کھلے ذہن کے ساتھ ہر قسم کے نظریات کو جگہ دی جاسکتی ہے، چاہے و ہ کتنا ہی مافوق الفطرت کیوں نہ ہو۔ وہیں دوسری طرف انہیں مفروضوں اور پہلے سے ثابت شدہ نظریات کو مسلسل قدرے ظالمانہ حد تک جانچ پڑتال کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ بالآخر انہی دونوں سوچوں کے توازن سے نئے حقائق دریافت ہوتے ہیں۔

میرے نزدیک کا رل سگان کا یہ قول سائنس کی چند ایک جامع اور بہترین تعریفوں میں سے ایک ہے جو کہ مجموعی طور پر سائنسی طریقہ کار کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔ اگر آپ کسی بھی ثا بت شدہ تحقیق کو بغور دیکھیں گے تو وہ آپ کو اسی مظہرسے جنم لیتی ہوئی معلوم ہونگی۔ دنیا بھر کے سائنس دان جو تحقیقات کرتے ہیں ان کی تقریباً تمام سائنسی جرائد میں اشاعت اسی اصول کے تحت ہوتی ہے۔

ماحولیات

سائنسی اور صنعتی ترقی نے جہاں بنی نوع انسان کے لیے کئی سہولیات مہیا کی ہیں وہیں اس کے مضر اثرات بھی وقت کے ساتھ نمایاں ہو رہے ہیں۔ صنعتی ترقی کا غالباً سب سے زیادہ اور براہ راست اثر قدرتی ماحول پر ہو ا ہے۔ اسی بات کا ادراک اب شاید دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کو بھی ہوچکا ہے۔ 2023 میں بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعتی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے کئی اشارے 2023 میں شائع ہوئے جن میں سے چند اہم پیش ِنظر ہیں۔

جنوری2023میں شائع ایک تحقیق کے مطابق براعظم افریقا کے قریب پائے جانے والے مدگاسکر نامی جزیرے میں جانداروں کی انواع میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔ اور اسی جزیرے پہ موجود جانداروں کی کئی اقسام معدوم ہو چکی ہیں۔ اس خطرناک حد تک ہونے والی معدومیت سے باہر آنے کے لیے اب جزیرے کو دو کڑوڑ تین لاکھ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ فروری2023میں شائع ایک سائنسی جائزے کے مطابق براعظم انٹارٹیکا میں برف کی مقدار میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے،جس کے باعث سطح سمندر میں عالمی طور پہ مسلسل اضافہ مشاہدے میں آرہا ہے۔

توانائی کے متبادل ذرائع بڑ ھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے اور روکنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک جرثومے Mycobacterium smegmatis سے ایک خامرہ HUC دریافت ہوا ہے ۔ اس خامرے کی مدد سے یہ بیکٹیریا ہوا سے توانائی اخذ کر سکتا ہے۔ اس خامرے کے صنعتی استعمال کے لئے مزید تحقیق کے نتائج انتہائی دلچسپ ہوں گے۔ گزرتا سال اپریل کے مہینے میں ماحول کے لئے انتہائی مضر کیمیائی مرکبات chlorofluorocarbons کی ماحول میں مقدار بڑھنے کے حوالے کے بارے میں تحقیق شائع ہوئی۔ یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ ان مرکبات کے اخراج پر1989ء میں پابندی لگا دی گئی تھی۔

اس پابندی کے باوجود رواں سال میں ان کے اخراج میں اضافہ کی وجہ تا حال معلوم نہ ہو سکی ہے۔ اگست 2023 ءمیں شائع ایک جائزے کے مطابق دنیا میں پائے جانے والے تمام سمندروں کا اوسط درجۂ حرارت مجموعی طو ر پر مسلسل بڑھ رہا ہے۔ جو کہ خطر ناک ماحولیاتی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے۔ اسی سلسلے میں اگست 2023 ءمیں شائع ایک اور تحقیق کے مطابق کرۂ ارض کے اوسط درجۂ حرارت میں2 C کے اضافے نتیجے میں ایک ارب اموات ہوسکتی ہے۔

ستمبر2023میں نیچر کمیونیکشن جیسے بڑے سائنسی جریدے میں شائع ایک تحقیق کے مطابق اگر گوشت کے موجودہ استعمال کو نباتات کے ذریعے حاصل شدہ خوراک سے تقریباً 50 فیصد کم کر دیا جائے تو 2050 ءتک جنگلات کی تباہی تقریباً ختم کی جاسکتی ہے ،جس کے ماحول پہ دورس نتائج مرتب ہونگے۔ ستمبر 2023 ءمیں ایک جرثومے Vibrio natriegens کی دریافت کو شائع کیا گیا جو کہ مائیکرو پلاسٹک میں پائے جانے والے مرکبات کو تحلیل کر سکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پلاسٹک کا 60فی حصہ ہر سال زمین میں دبا دیا جاتا ہے۔ جہاں اس کی تحلیل میں قریباً2500 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے ۔ اس صورت ِ حال کو ان بیکٹیریا کو استعمال کر کے قابو میں لایا جاسکتا ہے۔

فلکیات

اجرام فلکی غالباً بنی نوع انسان کے آغاز سے ہی انسانی حیرت اور تجسس کے مرکز رہے ہیں۔ اس تجس کے نتیجے میں کئی سائنسدانوں کی مسلسل جستجو کے باعث آج ہم ان اجرامِ فلکی کی ہئنت اور میکانیت کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں ۔خلائی تحقیق کا یہ سفر آج تک جاری ہے۔ جنوری 2023ءمیں امریکی خلائی ادارے NASA نے اپنی Transiting Exoplanet Survey Satellite کے ذریعے T0I 700نامی سرد ستارے کے گرد زمین جیسے سیارے کا پتہ چلایا ہے۔ اسی ماہLHS 4756 نامی زمین جیسا سیارہ James Webb Space Telescope کے ذریعے دریافت کیا گیا۔ گزرتےسال کے ماہ فروری میں مشتری کے اطراف 12 نئے چاند دریافت ہوئے۔

جب کہ مئی 2023 ءمیں سیارہ زحل کے اطراف مزید 62 چاند دریافت کئے گئے جن سے زحل کے اطراف چاند کی مجموعی تعداد اب 145 ہوگئی ہے۔ تقریباً ساڑھے چھ کڑوڑ سال پہلے خلاء سے ایک شہابِ ثاقب زمین سے ٹکرایاتھا، جس کے نتیجے میں زمین پہ پائی جانے والی جانداروں کی کئی اقسام ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔

ڈائنا سورز کے زمین سے معدوم ہونے کی وجہ بھی زمین کا شہابِ ثاقب سے یہ ٹکراؤہی تھا۔ مئی 2023ءمیں سائنسدانوں نے زمین کے اطراف گھومنے والے شہابِ ثاقب کا ایک مکمل نقشہ تیار کیا ہے،جس کے مطابق تقریباً28 ایسے شہابِ ثاقب ہیں جن کا رقبہ 1کلو میٹر سے زیادہ ہے اور ان کے زمین سے آئندہ 1000 سال میں ٹکرانے کا خدشہ صفر فی صد سے زیادہ ہے۔

جون2023 ءمیں سیارہ زحل کے ایک چاند Enceladus میں فاسفورس کی موجودگی کا پتہ چلایا گیا ہے۔ یہ دریافت اس لحاظ سے اہم ہے کہ زمین پہ پائی جانے والی کسی بھی طرح کی زندگی میں کاربن، نائٹروجن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور فاسفورس لازمی پائے جاتے ہیں چونکہ Enceladus نامی چاند پہ پہلے ہی کاربن، نائٹروجن، ہائیڈروجن، اورآکسیجن دریافت ہوچکی ہے۔اب فاسفورس کی دریافت اس خیال کو تقویت دے سکتی ہے کہ اس چاند پر زندگی کا وجود ممکن ہے۔

آج سے تقریباً 13.6 ارب سال پہلے کائنات بگ بینگ نامی عمل کے ذریعے وجود میں آئی۔ کئی ریاضیائی نظریات اور مساواتوں کے ذریعے سائنسدانوں نے اس عمل کے ذریعے پیدا ہونے والے مادّے اور توانائی کا تخمینہ کیا ہے۔ لیکن یہ تخمینہ موجود کائنات میں موجود مادّے اور توانائی سے بہت زیادہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں کائنات میں موجود مادّہ اور توانائی بگ بینگ سے پیدا ہونے والا مادّے اور توانائی سے انتہائی کم ہے۔اس گم شدہ مادّے اور توانائی کو بالرتیب dark matterاور dark energyکہا جاتا ہے۔جولائی 2023 ءمیں یورپین ایپس ایجنسی نے چھ سالہ مشن پہ اسی گمشدہ (باقی صفحہ 23پر)

مادّے اور توانائی کی تحقیق کے لیےEuclid نامی دور بین کا استعمال شروع کیا ہے۔

ستمبر 2023 ءمیںJames Webb Space Telescopeنے زمین جیسے ایک سیارے K2-186 پہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کی دریافت کی ہے۔ مزید برآں یہ کہ نہ صرف K2-186 زمین کے مقابلے میں آٹھ گناہ بڑا ہے بلکہ اس بات کے بھی قوی امکانات موجود ہے کہ اس سیارے پہ زمین کی طرح پانی کے بڑے سمندر بھی موجود ہیں۔ سیارہ زحل کے اطراف میں پائے جانے والے چھلے اس کی خوبصورتی کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ یہ چھلے دراصل بہت سے شہابِ ثاقب اور چاند کا مجموعہ ہے۔ رواں سال ستمبر میں شائع ایک تحقیق کے مطابق یہ چھلے دراصل کروڑوں سال پہلے دو چاند کے ٹکراؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی چٹانوں سے بنے ہیں۔

مصنوعی ذہانت

سائنس سے شغف رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا ،جس نے مصنوعی ذہانت کا نام نہ سنا ہو۔بنیادی طو پر مصنوعی ذہانت میں کمپیوٹر کو پہلے سے موجودہ معلومات کا ایک بڑا ذخیرہ فراہم کر دیا جاتا ہے اور پھر اس کی بنیاد پہ اس سے کسی بھی مسئلے کے کے محدود معلوما ت فراہم کر کے اس مسئلے کے بارے میں پیش گوئی کروائی جاتی ہے۔مثال کہ طور پر طب شعبے سے وابستہ لوگ یہ جانتے ہیں کہ چھاتی کے ایکس رےسے تپ دق کی تشخیص کی جاسکتی ہے ۔ لیکن یہ تشخیص ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے اور مرض کی نوعیت میں تبدیلیوں کے باعث بعض اوقات ڈاکٹر غلطی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔

اب اگر کمپیو ٹر کو ہزاروں کی تعداد میں صحت مند اور تپ دق کے شکار مریضوں کے ایکسرے کی تصاویر دے دیں جائیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتا دیاجائے کہ کونسے ایکس رےصحت مند انسانوں کے ہیں اور کون سے ایکس رے اور تپ دق کے مریضوں کے ہیں تو کمپیوٹر یہ معلومات اپنے اندر جمع کرلیتا ہے۔

اس عمل کو Machine learning کہتے ہیں، پھر کمپیو ٹر کو اگر ایک نئے شخص کے ایکس رے کی تصویر فراہم کی جائے تو وہ مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس بات کی پیش گوئی کر سکتا ہے کہ یہ ایکس رے صحت مند انسان کا ہے یا کسی تپ دق کے مریض کا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ابتدا تو 1950ء میں برطانوی سائنسدان Alan Turing نے کی لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں اس مضمون نے خاصی ترقی کی ہے اور اس کے اطلاقات میں دن بہ دن ہوش ربا اضافہ دیکھا گیا ہے۔2023ءمیں بھی اس سلسلے میں نئی تحقیقات اور اطلاقات سامنے آئے ہیں۔جن میں سے چند پیش نظر ہیں۔

فروری 2023ءمیں frontiers in science نامی سائنسی جریدے میں شائع ایک تحقیق سے اس بات کا انکشاف ہوا کہ سائنسدانوں نے انسانوں کے دماغ کی طرح کام کرنے والے خلیات کے مجموعے ، جنہیں brain organoid بھی کہا جاتا ہے کمپیوٹر کو مصنوعی ذہانت کے ساتھ کامیابی سے جوڑ دیا ہے،جس کے باعث ان کے کام کر نے کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اب اس طرح کے خلایات کئی لاعلاج ، دماغی بیماریوں کے مریضوں میں منتقل کر کے مفید نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

اسی طرح اپریل 2023 ءمیں سائنسدانوں نے مصنوعی ذہانت اور نینو ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ایسے تار بنائے ہیں جو نہ صرف تصویری معلومات کو جمع کر سکتے ہیں لیکن وقت آنے پہ یاداشت کی طرح پیش بھی کر سکتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ انہی اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ روبوٹ کو مختلف کام سر انجام دینے کا پیغام بھی دے سکتے ہیں۔

اپریل 2023 ءمیںJournal of American Medical Association میںشائع ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی ذہانت کے ایک مشہور پروگرامChat GPT ، نے کئی طبی سوالات کے ڈاکٹروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر جواب دیے، جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ مستقبل قریب میں Chat GPT یا اسی طرح کے مصنوعی ذہانت پہ بنے ہوئے پروگرام بیماریوں کی تشخیص میں استعمال ہونے لگیں گے۔

اسی طرح مصوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے SARS-CoV-2کے خلاف بننے والی mRNA ویکسین کی ساخت میں سائنسدانوں نے ایسی ترامیم پیش کی ہیں جن سے ویکسین سے پیدا ہونے والی مدافعت میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔ چین کے سائنسدانوں کی یہ تحقیق مئی 2023ءمیں نیچر نامی سائنسی جریدے میں شائع ہوئی۔

رکازیات اور ارتقاء

یہ بات فطری ہے کہ ابتداء سے ہی انسان کو اپنے آغاز کے بارے میں جاننے میں تجسس رہا ہے۔اس سوال کا جواب تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف تہذیبوں میں مختلف طریقوں سے دیا گیا لیکن جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی رہی اس بنیادی سوال کا جواب نظر آنے والے شواہد کی بنیاد پر ملتا گیا۔ یہ جواب وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط، واضح اور جامع ہوتا چلا گیا کہ نہ صرف انسان بلکہ تمام جانداروں کی ابتداء کی عکاسی کرتا چلا گیا۔ سائنسی لحاظ سے تمام جاندار مستقل طور پہ ہونے والی جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں۔

کچھ جانداروں میں یہ جینیاتی تبدیلیاں ایسی تبدیلیا ں پیدا کرتی ہیں جن کے باعث ان کی اپنی ماحول سے مطابقت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جب کہ کچھ جانداروں میں ان تبدیلیوں کے باعث برعکس نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اس عمل کو natural selectionکہا جاتا ہے سائنسی نقطہ نظر کے مطابق کروڑوں سال سے چلنے والےnatural selection کے اسی عمل کے ذریعے ایک سادہ سے جاندار میں بتدیج ایسی تبدیلیاں جمع ہونے لگی کہ وہ بالا آخر پیچیدہ جانداروں میں تبدیل ہو گئے۔ سائنسی نقطہ نظر سے جانداروں کی تمام اقسام اسی عمل کا نتیجہ ہے۔ جسے مجموعی طور پہ ارتقاء کہا جاتا ہے۔

اگرچہ ارتقاء کاواضح ثبوت جانداروں کے درمیان پائی جانے والی جینیاتی مماثلت ہے لیکن اس کے باوجود ناپید ہونے والے جانداروں کے با قیات جنہیں رکاز یا fossilsکہا جاتا ہے ۔اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ 2023میں بھی ارتقاء اور رکازیا ت میں خاصی تحقیقات منظر عام پر آئیں۔ مثال کے طو ر پہ سائنسی جریدے cell genomicsمیں جنوری میں شائع ایک تحقیق کے مطابق پرانے اور حالیہ انسانوں کے جینیاتی مادّے کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ پرانے انسانوں میں جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موجودہ انسانوں میں جراثیموں کے خلاف زیادہ مدافعت پائی جاتی ہے۔ لیکن انہی تبدیلیو ں نے موجودہ انسان کو سوزش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کے خلاف زیادہ حساس بنادیا ہے ۔ 2023میں سائنسی جریدے communication biology میں ایک ڈائنا سورز Pinacosaurus grangeriکے رکاز پر تحقیق شائع ہوئی ، جس کے مطابق یہ ڈائنا سورز پرندوں کی طرح آوا زیں بھی نکال سکتے تھے۔ ارتقائی نظریے کے مطابق کرۂ ارض پر پہلی زندگی ایک خلیہunicellular پہ مشتمل تھی پھر کروڑو ں سال میں ہو نے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں وہ بتد ریج کثیر خلوی multicellular جانداروں میں تبدیل ہوگئی۔

البتہ تبدیلی کا یہ نظریہ قارئین کو مد نظر رکھ کر ترتیب دیا گیا تھا ۔ سائنسی جریدے نیچرمیں مئی 2023میں شائع تحقیق میں پہلی دفعہ تجربات کے ذریعے ثابت کیاگیا کہ زمین میں نظر آنے والے کثیر خلوی جانداروں کی ابتدا کس طرح وقو ع پزیر ہوئی۔ ایک اور تحقیق کے مطابق برا عظم افریقا کے کئی حصوں میں انسانوں کی ابتدا تقریباًایک ساتھ ہی ہوئی ۔ اس سے پہلے یہ خیا ل کیا جاتا تھا کہ انسان براعظم افریقا کے ایک خاص حصے میں ہی وجود میں آئے تھے اور وہیں سے ہی پوری دنیا میں پھیلے ۔ اکتوبر 2023 میں سائنسی جریدے proceedings of National Academy of Sciences میں شائع ایک مقالے میں نظریہ ارتقاءکی ایک نئی جہت کی طرف نشان دہی کی گئی ہے، جس کے مطابق ڈارون کے پیش کردہ اس نظریہ کا اطلاق ایٹم، مالیکیول حتیٰ کہ اجرامِ فلکی کی ابتدا اور ارتقاء پر بھی کیا جاسکتا ہے۔

طب اور حیاتیات

سائنس کے تمام مضامین میں انسا ن کا سب سے زیادہ براہ راست اور گہرا تعلق بالعمو م حیاتیا ت اور بالخصوص طب سے ہے۔ اسی لحاظ سے حیاتیاتی اور طبی تحقیق کی رفتار اور نتیجتاً مقدار باقی تمام شعبوں کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہوتی ہے ۔ اس بات کا اندازہ ا س بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حیاتیاتی اور طبی تحقیق کو شائع کرنے والے سائنسی جرائد کی تعداد باقی تمام مضامین کے جرائد سے قدرے زیادہ ہے ۔ 2023ء میں حیاتیاتی اور طبی تحقیق میں خاطرخواہ دریافتیں وقوع پزیر ہوئیں جن میں سے کچھ کو انتہائی اختصار کے ساتھ یہاں بیان کیا گیا ہے۔

انسانی جسم کی ساخت سائنس کی ابتدائی تاریخ سے ہی بڑے انہاک سے زیر مطالعہ رہی ہے اور یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس کی اندرو نی ساخت کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے شاید ہی اب کچھ رہ گیا ہو۔لیکن اس سال جنوری میں سائنسدانوں نے انسانی دماغ کے اطراف میں ایک اور باریک جھلی کا پتہ چلایا ہے جو کہ دماغ کو بیماری پیدا کرنے والے جراثیم سے بچاتی ہے۔قریباً دس سال پہلے سائنسدانوں نے کینسر سے تعلق رکھنے والے چند بنیادی عوامل کی نشاندہی کی تھی جنہیں مجموعی طور پر کینسر کے hallmarks کہا جاتا ہے۔

جنوری2023 میں شائع ایک تحقیق کے مطابق ڈھلتی عمر کے عوامل اور کینسر کےhallmarks میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے ۔ اسی تعلق سے جنوری میں شائع تحقیق کے مطابق انسانی جنیاتی مادّے میں موجود retrovirusesعمر گزارنے کے ساتھ جاگ جاتے ہیں جو کہ عمر بڑھنے کی علامت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات مسلم ہوتی جارہی ہے کہ انسانی صحت کو برقرار رکھنے میں اس کے جسم میں پائے جانے والے مفید بیکٹیریا کا اہم کردار ہے ۔اور مختلف بیماریوں کے دوران ان کی تعداد اور ترکیب میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔

جنوری 2023ءمیں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ایک ساتھ رہنے والے لوگوں میں مفید جراثیم کی تر کیب میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے کچھ بیکٹیریا تو کئی اینٹی بایوٹک کے خلاف ایک ساتھ مزاحمت رکھتے ہیں جنہیں superbug کہا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی فروری 2023ءمیں شائع ایک رپورٹ کے مطابق 2050ءتک ان superbug بیکٹیریا سے ہلاکتو ں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر جائے گی ۔انسانوں میں ہونے والے سالماتی عوامل اور بیماریوں کے خلاف تیا ر کئے جانے والی ادویات کی جانچ کے لیے عام طور پہ مختلف جاندار استعمال کئے جاتے ہیں جنہیں animal model کہا جاتا ہے۔ مثال کہ طور پہ چوہا، بندر اور خرگوش وغیرہ۔

لیکن سائنسدان تقریباً ایک صدی سے ایک مکھی بھی اس مقصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں جسے Drosophila melanogaster کہا جاتا ہے ۔ یہ مکھی عام گھریلوں مکھیوں سے کئی گنا چھوٹی ہوتی ہے۔ اور اسے آپ نے اکثر اپنے گھروں میں پھلوں کے اوپر منڈلاتے دیکھا ہوگا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تقریباً 500سے زائد انسانی بیماریاں اس مکھی میں مختلف طریقے سے پیداکر کے تجربات کئے گئے ہیں اور اب تک سائنس کا سب سے بڑا انعام نوبل اگر کسی animal model کو ملا ہے تو وہ یہی مکھی ہے۔

مارچ 2023 میں مشہور سائنسی جریدے سائنس میں شائع اسی مکھی کے larva کے دماغ کا مکمل خلیاتی ڈھانچہ شائع ہوا، جس کے مطابق اس مکھی کے لارواکا دماغ قریباًتین ہزار خلیات سے بنا ہوتا ہے۔جن کے درمیان ساڑھے پانچ لاکھ جڑواں ہوتے ہیں ۔ جن کے ذریعے یہ آپس میں پیغام رسانی کرتے ہیں۔الزائمرجو کہ دماغی خلیات کے بتدریج ختم ہونے سے پیدا ہونے والی لاعلاج بیماری ہے۔ دماغی خلیات میں ایک مضر پروٹین tau کے بننے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

اپریل 2023ء میں شائع تحقیق میں انسانو ں میں اس پروٹین میں بننے والے جین کو خاموش کر کے اس بیماری کے بڑھنے میں تقریباً 50 فی صد کمی کا مظاہرہ کیا گیا ہے ۔ جون 2023ء میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق 2050ء میں ذیابطیس کے شکار انسانوں کی تعداد ایک ارب تیس کروڑ ہوجائے گی اور دنیا کے کسی بھی ملک میں بھی اس بیماری کی کمی کے کوئی امکانات نہیں۔

اگر چہ انسانی جنیاتی مادّے کی ساخت کا تعین 2000ءمیں ہوچکا تھا لیکن اس وقت کی تیکنیکی اسطاعت کے باجود اس کے کچھ حصے اب تک نامعلوم تھے۔ نومبر 2023ءمیں برطانوی حکومت نے CRISPR نامی جینیاتی تیکنیک جس کے موجد کو 2021ءمیں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا کو سکل سیل انیمیا اور بیٹا تھیلیسیمیا نامی بیماری کے علاج کے لئے موزوں قرار دیا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس تیکنیک کے ذریعے کئی بیماریوں کے علاج کے تجربات کامیابی سے جاری ہیں اور روز بروز اس کی افادیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

نوبل انعامات

سائنس کی دنیا کا سب سے زیادہ مقدم اعزاز نوبل ہے ، جس کی تقریب ہر سال سوئزر لینڈ میں منعقد ہوتی ہے جس میں سائنس کی تین بنیادی شاخوں طب اور افعالیا ت، کیمیاء اور طبیعیا ت میں کام کرنے والے سائنسدانوں کو اس اعزاز سے نوازا جاتا ہے ۔ ہر سال کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ نو سائنسدان ہی اسی اعزاز کے حقدار ٹہرتے ہیں ۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی اکتوبر کے مہینے میں تین نوبل انعام سائنس کی ان بنیادی شاخوں میں نوازے گئے۔ 2023ءکے طب اور افعالیا ت کا نوبل انعامKatalin Karikó اور Drew Weissman کے نام کیا گیا۔ یہ دونوں امریکی سائنسدانوں کی تحقیق mRNAویکسین سے متعلق تھی۔mRNAویکسین دراصل ویکسین بنانے کی ایسی تیکنیک ہے جن سے ویکسینز کی تیاری کا دورانیہ بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

اسی تیکنیک کو زیر ِ استعمال لاتے ہوئے SARS -CoV-2 کے خلاف ویکسینیز ریکارڈ مدت میں تیار کر لی گئی اور جس کے باعث کروڑں انسانوں کی زندگی بچائی جاسکی۔ طبعیات کا نوبل انعام 2023ء میں Pierre Agostini ، Ferenc Krausz اور Anne l Huillier جن کا تعلق بالترتیب فرانس، جرمنی اور سوئیڈن سے ہے۔ ان سائنسدانوں نے الیکٹران اور اس جیسے ایٹم سے بھی چھوٹے ذرّات کی حرکات کا مشاہدہ کرنے کے لئے نئی تیکنیک اور طریقہ کار واضح کیے۔ 2023ءمیں کیمیاء کا نوبل انعام Moungi Bawendi، Louis E Brus اور Alexei Ekimov کے نام کیا گیا۔ان تینوں سائنسدانوں کاتعلق امریکا سے ہے اور ان کی تحقیق کا مرکز quantum dot nanoparticles کی دریافت اور ان کے بنانے کے طریقہ کا ر واضح کرنے سے ہے۔ ان ذرّات کی افادیت طب ، ادویات اور صنعتی ترقی میں واضح ثابت ہوچکی ہے۔