بھٹو کیس، ہمارا نظامِ انصاف اور نئے سوالات

March 17, 2024

ماہِ رواں کے اوائل میں سابق وزیرِ اعظم، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بینچ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے متفقہ رائے دی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ’’فیئر ٹرائل‘ ‘کا موقع نہیں ملا تو مختلف سمتوں سے مختلف آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ان میں سے بعض آوازیں اس کیس کے قانونی پہلووں کے بارے میں ہیں اور بعض کا تعلق اخلاقی،جذباتی اور مادّی پہلووں سے ہے۔

عدالتی تاریخ کا انوکھا کیس اور انوکھا فیصلہ

آئین اور قانون سے وابستہ لوگ جانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا پاکستان کی عدالتی تاریخ کا واحد فیصلہ ہے جس میں اعانت جرم میں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ لیکن اس کے بعد پاکستان کی کسی بھی عدالت نے اس فیصلے کی بہ طور قانونی نظیر پیروی نہیں کی۔پاکستان کے قانونی حلقوں میں اس فیصلے کو کبھی عدالتی فیصلے کی حیثیت سے دیکھا ہی نہیں گیا۔ کبھی کسی وکیل کے ہونٹوں سے دوران سماعت اس فیصلے کا حوالہ سرزد ہو بھی گیا تو بینچ کی طرف سے اس سے اس طرح تغافل برتا جاتا ہے جیسے ایسی کسی نظیر کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔

عدالت کے حکم پر بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف دائر کیا گیا عدالتی ریفرنس2011 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 186 کے تحت دائر کیا تھا۔ واضح رہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 186کے مطابق صدر مملکت کسی بھی وقت اگر یہ سمجھیں کہ کسی عوامی اہمیت کے حامل سوال پر سپریم کورٹ سے رائے حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو وہ اس سوال کو رائے لینے کے لیے عدالت عظمی بھجوا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ اس سوال پر غور کرنے کے بعد اپنی رائے صدر مملکت کو بھجوا دے گی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کے فیصلے سے متعلق صدارتی ریفرنس درجِ ذیل پانچ سوالات پر مبنی تھا:

ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کی سماعت آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھی؟

کیا ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہے؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟

کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانب دارانہ نہیں تھا؟

کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟

کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پیش کیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات انہیں سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟

قانونی پے چیدگیوں سے قطع نظر، اس ضمن میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کی عدالتی سزا کا فیصلہ جو ایک فوجی آمر کے دور میں پاکستان کی اعلی عدالتوں نے سنایا تھا، ہماری عدالتی تاریخ کے دامن پر ایک بدنما داغ کی طرح موجود ہے۔

عدالت عظمی نے اب یہ رائے دی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی کے فیصلے میں ٹرائل کا طریقہ کار مکمل نہیں تھا، انہیں فئیر ٹرائل نہیں دیا گیا اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں سماعت اور سپریم کورٹ میں اپیل میں بنیادی حقوق کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ ذوالفقارعلی بھٹوکی پھانسی کے فیصلے کو ختم نہیں کر سکتے کیوں کہ اپیل کے اوپر نظرثانی نہیں ہو سکتی۔ یہ نو رکنی بینچ کی متفقہ رائے ہے کہ ہمیں مستقبل میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔

اس موقعے پر چیف جسٹس نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ ججز بلا تفریق فیصلہ کرتے ہیں، عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے اور عدلیہ ماضی کی غلطی کو تسلیم کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔

اس نکتے پر بعض قانونی ،سماجی اور سیاسی حلقے منقسم آرا کا اظہاار کررہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بعض ججز کے فیصلے ہی تو ہماری بہت سی سیاسی، سماجی اور اقتصادی مشکلات کا سبب بنے ہیں۔ بہ ظاہر وہ فیصلے بلا تفریق بھی نہیں تھے اور اگر عدلیہ ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کررہی ہے تو اسے ان غلطیوں کے ازالے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔ کیوں کہ صرف اسی مقدمے کو دیکھیں تو ایک شخص کو قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کیے بغیر سب سے بڑی سزا دے دی گئی، پھر چالیس پینتالیس برس تک عدلیہ نے اسے غلطی تسلیم نہیں کیا، اس فرد کا خاندان انصاف مانگتا رہا ،مگراس کی شنوائی نہیں ہوئی، ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر فائز شخص نے اس بارے میں ریفرنس بھجوایا ،مگر عدلیہ نے اسے بھی گیارہ ،بارہ برس تک سرد خانے میں ڈالے رکھا۔ یہ بے انصافیاں تو ازالے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی متقاضی ہیں۔

قانونی ماہرین کے نزدیک سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے ٹرائل کو غیر شفاف قرار دینا علامتی طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ اُن کے بہ قول اس سے ملک کے نظامِ انصاف میں پائےجانے والے کئی نقائص کی بھی نشان دہی ہوتی ہے۔ ماہرین کے نزدیک صدارتی ریفرنس میں چوں کہ عدالت سے صرف بھٹو کیس میں عدالتی کارروائی کے بارے میں رائے معلوم کی گئی تھی اس لیے اس معاملے میں سپریم کورٹ کا دائرۂ سماعت محدود تھا۔

قانونی ماہرین کے مطابق کئی ممالک میں ایسی نظیریں ملتی ہیں کہ بعد از مرگ لوگوں کو انصاف دیا گیا۔ اس اعتبار سے بھٹو ریفرنس میں سپریم کورٹ کی رائے تاریخی اہمیت رکھتی ہے اور امید ہےکہ اسے پاکستان میں قانون و آئین کی تاریخ اور نصاب میں شامل کیا جائے گا۔

عدالتِ عظمی کی رائے کے بارے میں بعض ماہرین کا موقف ہے کہ اگر صدارتی ریفرنس کی وجہ سے طے شدہ دائرہ کار میں عدالت اس فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی تو اس پر محض رائے دینے کے لیے اتنی طویل کارروائی کیوں کی گئی کیوں کہ پاکستان کی قانونی و عدالتی روایت میں پہلے قابلِ قبول تصور نہیں ہوتا تھا۔ اگر سپریم کورٹ نے صرف ٹرائل کے غیر شفاف ہونے کے بارے میں رائے دینا تھی تو اس کے لیے اتنی طویل عدالتی کارروائی و بیانات کی ضرورت نہیں تھی۔

عدالتی رائے میں کسی فیصلےکو کالعدم قرار نہ دینے کے بارے میں ممتاز ماہرِ آئین و قانون، اعتزاز احسن کاموقف ہے کہ صدارتی ریفرنس میں عدالت کا دائرہ اختیار صرف اس پر اپنی آئینی و قانونی رائے دینا تھا۔ جہاں تک فیصلہ کالعدم کرنے کا سوال ہے تو اس کی کوئی فوری ضرورت نہیں تھی کیوں کہ اس معاملے میں متاثرہ فریق کو کسی فوری ریلیف کا امکان نہیں تھا۔ اب بھٹو صاحب کو تو عدالت واپس لا نہیں سکتی تھی، لیکن ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو تو واضح کر سکتی تھی۔

عدالتی فعالیت مسئلہ حل کرسکتی ہے؟

ملک طرز حکم رانی میں مضمر خرابیوں کی اصلاح اور عدلیہ و ذرایع ابلاغ کی فعالیت کے غیر معمولی دور سے گزر رہا ہے ۔ عدالتی فعالیت (جوڈیشل ایکٹیوازم) وقت کی ضرورت ہے لیکن افسوس کہ ہم اسے سمجھ نہیں پارہے۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ عدلیہ کا مزاج آرگینک ہے، یعنی وہ جان دار کی طرح ہے۔ قانون کبھی منجمد نہیں ہوتا، اس میں بھی نمو ہوتی ہے۔ آئین میں بھی نمو کا عنصر ہوتا ہے۔ عدلیہ آئین اور قانون کی تشریح وقت اور حالات کو مدنظر رکھ کر کرتی ہے، چوںکہ حالات کے تحت مختلف چیزیں مختلف طریقوں سے کی جاتی ہیں ،لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آج بھی عدالتیں کل کی طرح ہی فیصلے دیں گی۔

عدلیہ اپنی فعالیت کے ذریعے قانون کا دائرہ وسیع کرتی ہے، لیکن وہ قانون کے دائرے سے باہر نہیں جاتی۔ جو کام قانون کے دائرے میں رہ کر ملک اور قوم کے مفاد میں کیا جائے وہ قابل تعریف ہے۔ اگر قانون کے دائرے سے باہر نکل جائیں تو وہ عدالتی فعالیت نہیں ہوتی بلکہ وہ غیرقانونی سرگرمی کہلائے گی۔ہمارے ہاں خود قانون کے شعبے سے وابستہ بعض افراد عدالتی فعالیت کے خلاف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اس عمل کے ذریعے قانون تبدیل ہوجاتا ہے اور قانون تبدیل کرنا عدلیہ کا نہیں پارلیمان کا کام ہے۔ دوسرا موقف یہ ہے کہ عدالتی فعالیت قانون کے دائرے میں رہ کر کی جاسکتی ہے اور اس کے ذریعے قانون کا دائرہ بڑھایا جاسکتا ہے،اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ عدالتی فعالیت اورپبلک انٹرسٹ لٹی گیشن میں کیا بنیادی فرق ہے۔ پاکستان میں عوام کے مفاد میں کی جانے والی قانونی کارروائیوں کے ضمن میں سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، ناصر اسلم زاہد اور عدالتی فعالیت کے ضمن میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس، سجاد علی شاہ کے ادوار ابتدائی اینٹیں گردانے جاتے ہیں۔ بھارت میں ان دونوں شعبوں کی تاریخ پرانی بتائی جاتی ہے اور وہاں عوام کے مفاد میں کی جانے والی قانونی کارروائیوں میں جسٹس پی این بھگوتی کا نام بہت معروف ہے۔

بعض قانونی حلقوں کے بہ قول یہ درست ہے کہ پاکستان میں عدالتی فعالیت کا باقاعدہ آغاز سجاد علی شاہ کے زمانے سے ہوا۔ ناصر اسلم زاہدنے باتیں بہت کیں، لیکن انہوں نے عدالتی فعالیت کے لیے کوئی راہ نما اصول طے نہیں کیے اور کوئی ڈھانچا نہیں بنایا تھا۔ راہ نما اصول اور ڈھانچا تو سجاد علی شاہ نے بھی نہیں دیا تھا، لیکن انہوں نے بعض ایسے فیصلے کیے جو باقاعدہ عدالتی فعالیت کا سبب بنے۔ ججز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں بولتے ہیں۔ جسٹس ناصر اسلم زاہد نے بھی اپنے دور میں بعض بولڈ فیصلے دیے اور اقدامات اٹھائے تھے۔ نقدین کا کہنا ہے کہ ناصر صاحب اور دیگر ججز میں یہ فرق تھا کہ وہ لکھتے کم اور بولتے زیادہ تھے۔ ان کے دیے ہوئے فیصلے پڑھ لیجیے۔ وہ مختصر فیصلے بغیر اسباب کے لکھ دیتے تھے۔

وکلا کا ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ سجاد علی شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹانا بھی عدالتی فعالیت تھی۔ عدلیہ پر بہت الزامات لگائے گئے۔ بریف کیس لے کر جانے کی بات کی گئی۔یہ درست ہے کہ اس وقت عدلیہ تقسیم ہو گئی تھی، تاہم اس بارے میں کئی آراء ہیں۔ بعض افراد اسے سجاد علی شاہ، بعض سعید صدیقی کی اور بعض ناصر اسلم زاہد کی غلطی قرار دیتے ہیں۔ تاہم آج تک کوئی یہ نہیں بتا سکا کہ اصل بات کیا تھی۔ سجاد علی شاہ سینیر نہیں تھے، لیکن انہیں چیف جسٹس بنا دیا گیا تھا۔

بعض وکلا آج بھی اس خیال پر یقین رکھتے ہیں کہ سنیارٹی کو بائی پاس نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے یہ معاملہ عدالتی فعالیت کے زمرے میں آتا ہے۔ عدلیہ کواپنے معاملات اندرونی طور پر حل کرنے چاہییں۔ یہ بھی کہاجا سکتاہے کہ عدلیہ ایک دوسرے سے اختلاف کر سکتی ہے۔ بہت سے ایسے عدالتی فیصلے ہیں جن میں ایک جج دوسرے سے اختلاف کرتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ عدلیہ تقسیم ہو گئی ہے۔ تقسیم اسے کہتے ہیں جب ججز ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہ ہوں اور آپس میں بات نہ کریں۔

سوموٹو، مختاراں مائی کیس اور بہت سے سوالات

ہمارے نظامِ عدل کی تاریخ میں ایک طرف سوموٹو کیس اور عوام کے مفاد میںکی جانے والی قانونی چارہ جوئیاں ہیں اور دوسری جانب مختاراں مائی کا کیس ہے جس کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھائے گئے۔

پبلک انٹرسٹ لٹی گیشن اور سوموٹو کیسز ہمارے لیے ایک نیا شعبہ ہے اور اسے آگے بڑھانے کا سہرا سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سر ہے۔ان سے قبل اکّا دکّا سوموٹو کیسز ہوتے تھے، لیکن کوئی باقاعدہ سلسلہ نہیں تھا۔ہمیں اس کا پس منظر دیکھنا ہو گا کہ یہ کیا ہے اور آیا ہمیں یہ سلسلہ جاری رکھنا چاہیے یا نہیں۔ اس سلسلے کا بہت اہم کیس پاکستان اسٹیل کا تھا۔ ہمیں تھوڑی دیر کے لیے اس کیس کی حمایت یا اختلاف سے ہٹ کر معاملے کو دیکھنا ہو گا۔ ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ عدالت کو پاکستان اسٹیل کی فروخت کو نہیں روکنا چاہیے تھا۔

یہ ازخود سماعت کا کیس (سوموٹو) تھا۔ا س ضمن میں یہ بات بہت اہم ہے کہ کیسے یہ سوموٹو لیا گیا۔ یہ کام اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ ذرائع ابلاغ نے اس معاملے کو اس نقطہ نظر سے نمایاں کیا تھا کہ اربوں روپے مالیت کا ادارہ لاکھوں روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ حقیقت میں یہ بات غلط تھی ،کیوںکہ اگر پاکستان اسٹیل ملز اربوں روپے کی مالیت کا ادارہ تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی اراضی بہت زیادہ تھی۔ فیکٹری تو چالیس سال پرانی تھی اور اس کی اتنی زیادہ مالیت نہیں تھی۔ اس کی استعداد ایسی نہیں تھی کہ اسے منافع بخش کہا جا سکتا۔ خریدنے والوں کے وکلاء نے یہ کیس خراب کیا تھا۔

کسی مقدمے کو پیش کرنے کا انداز بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔اگر خریداروں کے وکلاء اچھی طرح مقدمہ لڑتے تو وہ ہارتے نہیں۔ عدلیہ تیکنیکی گہرائیوں میں نہیں جاتی۔ وہ موٹی موٹی باتوں اور حقائق کو دیکھتی ہے۔ انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اس ادارے کی پیداواری استعداد کم ہے اور اسے خریدنے والوں کو مزید سرمایہ کاری کرنا پڑے گی۔ عدالت نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اگر خریداروں کو یہ معلوم ہے کہ انہیں مزید سرمایہ کاری کرنا پڑے گی تو فروخت کرنے والا اس کی وجہ سے اپنا مال کم دام پر کیوں فروخت کرے۔پھر زیادہ تر سوموٹو کیسزمیں سے نوّے فی صد ذرائع ابلاغ کی خبروں کی بنیاد پر ہوئے۔ اپیل اور سوموٹو کیس میں یہ فرق ہوتا ہے کہ اپیل فرد واحد یا دو چار افراد اپنی ذات کے حوالے سے کرتے ہیں۔

سوموٹو ملک اور قوم کے یا اجتماعی مفاد میں ہوتا ہے۔ مختاراں مائی کا کیس ایف آئی آر کے اندراج سے شروع ہوا تھا اور بعد میں عدالت عالیہ نے اسے سوموٹو کیس کی حیثیت سے سنا تھا۔ خواتین کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم نے مختاراں مائی کا کیس یہ کہہ کر آگے بڑھایا تھا کہ اس طرح خواتین پر ظلم ہو رہا ہے۔ اس اجتماعی بنیاد پر اسے سوموٹو کا درجہ دیا گیا تھا۔ لیکن عدالت عالیہ نے کہا تھا کہ یہ مقدمہ قانون کے تقاضوں کے مطابق چلانے کے بعد ہمارے پاس آئیں، کیوںکہ وہ انفرادی معاملہ تھا۔ وہ سوموٹو کیس اختتامی مراحل تک نہیں پہنچا تھا۔ لہٰذا پہلے ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ میں وہ مقدمہ چلا اور پھر سپریم کورٹ تک پہنچا تھا۔

عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر کسی مقدمے کی تفتیش سے وہ مطمئن نہ ہوتو اس کی دوبارہ تفتیش کروا سکتی ہے، لیکن مختاراں مائی کے کیس میں ایسا نہ کیے جانے کے بارے میں مختلف حلقے سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔ دراصل عدالت تفتیش کرنے والوں سے یہ کہہ سکتی ہے کہ آپ نے فلاں فلاں نکات پر توجہ نہیں دی ہے، لہٰذا ان نکات پر بھی توجہ دی جائے اور تفتیش کی نئی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔ مختاراں مائی کے کیس میں متعلقہ جج صاحب نے ایسا نہیں کیا تھا۔ انہیں ڈی این اے ٹیسٹ کرانا اوربعض دیگر نکات پر نئے سرے سے تفتیش کرانی چاہیے تھی۔ لیکن دوسری طرف یہ سوالات بھی ہیں کہ اس واقعے کے بعد مختاراں مائی نے گھر جاکر اپنے کپڑے کیوں جلادیے تھے اور غسل کیوں کرلیا تھا۔

چلیے مختاراں مائی تو ناخواندہ تھیں اور انہیں قانونی پے چیدگیوں کا علم نہیں تھا۔ لیکن مقدمے کی سماعت کرنے والے فاضل جج کا تو یہ فرض تھا کہ وہ ان نکات پر توجہ دیتے۔ اس بارے میں دونوں طرف سے کئی سوالات اٹھائے گئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ عدالت کا فرض تھا کہ وہ مذکورہ نکات پر توجہ دیتی۔ تاہم کپڑے جلانا سمجھ میں نہیں آتا۔

اس کا ناخواندگی سے تعلق نہیں۔ ممکن ہے کہ مختاراں مائی سے زبردستی کپڑے جلوادیے گئے ہوں اور اسے غسل کرنےپر مجبور کردیا گیا ہو۔ تاہم عدالت کو دوبارہ تفتیش کرانی چاہیے تھی۔ جہاں یہ افسوس ناک واقعہ ہوا وہاں سے پولیس کو یقیناً کوئی نہ کوئی ثبوت مل جاتا۔ مختاراں مائی کے نہا لینے اور کپڑے جلا دینے کے باوجود فورینزک اور دیگر ذرائع سے بہت سے ٹھوس ثبوت حاصل کیے جاسکتے تھے۔

یہ مقدمہ کئی سطح پر چلا، لیکن کسی متعلقہ جج نے اس جانب توجہ نہیں دی۔یہ بہت بڑی غلطی تھی،جس کا کسی بھی طرح دفاع نہیں کیاجاسکتا۔ اس کیس کے فیصلے کو بہت سے قانون داں اچھا نہیں کہتے۔ ہائی کورٹ کی سطح تک یہ مقدمہ بہت بری طرح ہینڈل ہوا۔ وہاں پہنچنے تک وہ بری طرح تباہ ہوچکا تھا۔ سپریم کورٹ میں مقدمے کے حقائق پر نہیں بلکہ اس کے قانونی نکات زیر غور آتے ہیں۔

بھٹو کیس کی طرح مختاراں مائی کے کیس کے ضمن میں بھی یہ سوال کیا جاتاہےکہ کیا ایسے مقدمات میں ری ویو کا عمل ہوسکتا ہے؟اس بارے میں بعض قانونی ماہرین کا موقف ہے کہ ناممکن نہیں مگر بہت مشکل ہے۔ سارے ثبوت ضایع ہوچکے ہیں۔ بھارت میں کریکٹیو ری ویو اور ری ٹرائل کا بھی تصور ہے۔ یہ ایسا مقدمہ تھاجہاں عدالتی فعالیت کو آگے آنا چاہیےتھا اور سپریم کورٹ کوایک روز یہ کرنا پڑے گا۔ اگر کسی عدالتی فیصلے میں غلطی واضح طور پر نظر آرہی ہو تو اس پر قانون کے مطابق ضرور ری ویو ہونا چاہیے۔

ماہرین کے مطابق اگر کوئی سابق جج یہ تسلیم کرے کہ اس سے قتل کے مقدمے کا فیصلہ دینے میں غلطی ہوئی تھی اور اگر وہ دو سطر لکھ دیتا تو ملزم پھانسی پر نہیں چڑھتا تو اس ضمن میں پہلا سوال یہ ہے کہ وہ شخص اس وقت کیوں ڈر گیا تھا۔ اس فیصلے کے ضمن میں ری ویو کی درخواست دائر کی گئی تھی۔ لیکن جن ججزنے اس مقدمے کے فیصلے میں اختلافی رائے دی تھی خود انہوں نے ری ویو پٹیشن کی سماعت کے دوران یہ کہا تھا کہ یہ ری ویو نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے سوال کیا تھا کہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد ری ویو کے لیے درخواست کیوں نہیں دائر کی گئی تھی؟ تاہم کریکٹیو ریمیڈیز کا تصور اپنایا جاسکتا ہے اور ایسے معاملات میں اب عدالتی فعالیت کا استعمال کرنا ہوگا۔

مذکورہ مقدمے کے فیصلے کے بارے میں صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا،لیکن ریفرنس کا دائرہ اختیار مختلف ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس دائرے میں رہتے ہوئے عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے؟ تیکنیکی طور پر ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن کریکٹیو ریمیڈیز کا استعمال کرتے ہوئے عدالتی فعالیت کی جاسکتی ہے۔ اگر عدلیہ دیکھتی ہے کہ ہاں وہ فیصلہ غلط تھا تو اس میں اتنی جرأت ہونی چاہیے کہ وہ اسے تسلیم کرے۔

کہا جاتا ہے کہ عدلیہ وقت اور حالات کے مطابق فیصلے کرتی ہے۔ زیڈ اے بھٹو کا مقدمہ جس طرح سے اور جن حالات میں چلایا گیا تھا آج اس بارے میں بہت سے حقائق سامنے آچکے ہیں۔ آج کے حالات میں اس فیصلے پر کیوں نظر ثانی نہیں کی جاسکتی؟اس بارے میں بعض قانونی و آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ قوانین کے مطابق اب اس مقدمے کے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کی جاسکتی۔ تاہم عدلیہ یہ کہہ سکتی ہے کہ فیصلہ صحیح نہیں تھا اور جس طرح وہ فیصلہ کیا گیا وہ غلط ہے۔

بعض ماہرین کا موقف ہے کہ ہم وقت کی قید میں جکڑے رہے اور ایسی رکاوٹیں نہ ہٹائی گئیں تو ہمارے معاشرے اور نظام میں کس طرح تبدیلی آئے گی۔ برطانیہ میں جنرل کرام ویل کی لاش کو قبر سے نکال کر پھانسی دی گئی تھی۔ کیا وہ ایک طرح کا ری ویو نہیں تھا؟ہمیں اس کے لیے کریکٹیو ریمیڈیز کا تصور قانون میں شامل کرنا ہوگا۔ بھارت میں 1992ء 93 ء میں یہ کیا گیا، لیکن ہمارے ہاں نہیں ہوا۔ اس بارے میں قانون میں تبدیلی کی تجویز پیش کی گئی تھی، لیکن قانون سازوں نے اس پر توجہ نہیں دی۔ عدلیہ یہ تصور قانون میں شامل کرنے کی صرف تجویز دے سکتی ہے خود اسے قانون میں شامل نہیں کرسکتی۔ مقدمات کے فیصلے دوچار ہفتوں یا مہینوں میں کر دینے کی شرط ہر مقدمے کے معاملے میں عائد نہیں کی جا سکتی۔ پالیسی کا مطلب پتھر پر لکیر نہیں ہوتا۔

قانون دانوں کے حلقوں میں آج کل یہ سوال بار بار سننے کو ملتا ہے کہ عدلیہ حکومت کو ڈکٹیٹ کرسکتی ہے یا نہیں؟ اس معاملے پر ماضی میں بھی کافی بحث ہوئی تھی اور آج بھی ہورہی ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ عدلیہ قانون کی محافظ یاسرپرست ہے۔ لہٰذا اگر کوئی حکومت قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہے تو صرف اور صرف عدلیہ اس کی راہ روک سکتی ہے۔