ایجوکیشن کنسلٹنسی کے نام پر طلباء سے کروڑوں روپے بٹور لیے گئے

April 28, 2024

کراچی کے شہری جہاں روزانہ کی بنیاد پر اسٹریٹ کرائمز کا شکار ہیں اور اسٹریٹ کرمنلز کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں وہیں دیگر جعلساز افراد اور گروہ بھی شہریوں کو ان کی جمع پونجی سے محروم کر رہے ہیں۔ شہریوں کو بیرون ملک اچھے روزگار کے خواب دکھا کر اور طلباء کو دنیا کی مختلف یونیورسٹیز میں داخلے کے نام پر پیسے لیے جاتے ہیں اور اس کے بعد یہ جعلساز گروہ پیسے لیکر غائب ہو جاتے ہیں۔

شہری متعلقہ اداروں کے چکر لگا کر تھک جاتے ہیں، چند خوش نصیب ہی ایسے ہوتے ہیں جنھیں انکی لوٹ گئی رقوم واپس مل چاتی ہیں باقی افراد اس کو اپنا نصیب سمجھ کر صبر کر لیتے ہیں۔ شہر میں ایجوکیشن کنسلٹنٹ اور ٹریول ایجنسیوں کے نام پر ان گروہوں نے اپنے دفاتر بنا رکھے ہیں جہاں یہ طالب علموں کو بیرون جامعات میں داخلوں کے نام پر اور نوکری کی تلاش میں سنہری سپنے دیکھنے والے افراد سے اچھی نوکریاں دلانے کے عوض پیسے بٹورتے ہیں۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے( ایف آئی اے ) کے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل کراچی نے گزشتہ دنوں گلشن اقبال بلاک 13-a میں واقع دشتیار سینٹر میں ویسٹرن انٹر پرائزز ایجوکیشن کنسلٹینٹ کے دفتر پہ چھاپہ مار کر وہاں سے سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی بڑی تعداد میں جعلی ربڑ کی مہریں، تعلیمی اداروں ،وزارت خارجہ اور وزارت تعلیم کی جعلی مہریں ،پاکستان و بین الاقوامی جامعات کی مہریں جعلی مارک شیٹس اور ڈگریاں برآمد کی ہیں۔

چھاپے کے دوران پاسپورٹس ، نجی بینکوں کی مہریں ، جعلی بینک اسٹیٹمنٹ، وزرات خارجہ کے جعلی ٹکٹس اور بڑی تعداد میں مختلف بینکوں کی چیک بکس بھی برآمد کی گئی ہیں۔ کارروائی کے دوران ایک سرکاری ملازم سمیت 9 افراد کو گرفتار کیا گیا۔برآمد ہونے والی تمام اشیاء دیگر ممالک کے تعلیمی اور سیاحتی ویزے لینے کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔

گرفتار افراد میں سید واصف الدین،سید عتیق احمد،محمد سراج الحق نعمانی، محمد فہد بشیر،اویس احمد بٹ، سید بابر علی، رومان احمد،ذیشان خورشید اور محمد کامران شامل ہیں۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزمان پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں کے جعلی دستاویزات بنانے میں ملوث ہیں۔ملزمان نے مختلف جامعات ،ہائر ایجوکیشن کمیشن اور وزارت خارجہ کی مہروں اور دستاویزات کے بل بوتے پر تیار کردہ جعلی تعلیمی اسناد کے ذریعے اب تک 250 سے زائد افراد کو فی کس 15 سے 20 لاکھ روپے کے عوض بیرون ملک بھجوانے کا انکشاف کیا ہے۔

حکام کے مطابق ملزمان ایجوکیشن کنسلٹنسی کی آڑ میں مختلف اداروں کے جعلی دستاویزات کے ذریعے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طلباء سے رقم وصول کرتے تھے۔ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ملزمان کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں کے بیرون ملک تعلیمی ضروریات کے لیے بڑے پیمانے پر تعلیمی اسناد اور ویزوں کی پراسیسنگ کرتے تھے۔ ملزمان نے پورا سیٹ اپ لگا رکھا تھا اور ڈاکومنٹس میں موجود خامیوں اور دیگر تکنیکی مسائل کو دور کرنے کے لیے ملزمان نے باقاعدہ پرنٹنگ مشین لگا رکھی تھی جس کے ذریعے ملزمان جعلی ڈگریاں، مارک شیٹس اور وزارت خارجہ کے دستاویزات جعلی طریقے سے تیار کیے جاتے تھے۔

ملزمان نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ وہ اب تک 250 سے زائد افراد کو بیروں ملک بھجوا چکے ہیں اور اس کام کے لیے فی کس 20 لاکھ روپے تک وصول کر چکے ہیں۔ ملزمان جعلی دستاویزات کے ذریعے دنیا کی مختلف جامعات میں طلباء کے داخلوں اور ویزوں کے حصول کے لیے کام کرتے تھے۔ملزمان نے مذکورہ عمارت میں دو دفاتر بنا رکھے تھے۔ایک دفتر میں وہ بیرون ملک جانے والے طلباء سے انٹرویو اور ملاقات کرتے تھے جبکہ دوسرے دفتر کو جعلی دستاویزات بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق دونوں دفاتر کی تلاشی کے دوران مختلف بینکوں کی 34 چیک بکس،9 افراد کے پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈز،مختلف اداروں کے 25 تعلیمی سرٹیفیکیٹ ،لیٹر ہیڈ،17 جعلی لیٹر ہیڈ اور تعلیمی اداروں کے سرٹیفکیٹ جن میں یونیورسٹی آف سوات،کے پی کے بورڈ آف ٹیکنیکل اینڈ کامرس ایجوکیشن ،بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سیدو شریف سوات،بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کراچی، ہزارہ یونیورسٹی، سنڈھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن ،نیو پورٹ انسٹیٹیوٹ آف کمیونیکیشن اینڈ اکنامکس،گورنمنٹ مونو ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ نیو کراچی، یونیورسٹی آف سندھ،کیپیٹل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نارتھ کراچی شامل ہیں ،جعلی دستاویزات اور ویزہ کی تیاری میں استعمال ہونے والی جعلی اسٹمپ اور ٹکٹس،7 افراد کی تعلیمی اسناد اور دیگر دستاویزات، مرچنٹ مشینیں ،لیپ ٹاپ اور دیسٹاپ کمپیوٹر برآمد کیے گئے ہیں۔

حکام کے مطابق ملزمان کے پاس سے برآمد ہونے والے پاکستانی پاسپورٹ کے حوالے سے ان سے پوچھ گچھ کی گئی تاہم وہ اس حوالے سے حکام کو تسلی بخش جواب نہیں دے سکے جبکہ جعلی دستاویزات کی تیاری ،دستاویزات اور ویزوں کے حوالے سے بھی ملزمان کوئی جواب نہ دے سکے۔ ملزمان کے موبائل فونز کی اسکروٹنی کے دوران واٹس ایپ ،چیٹس ، ٹیکسٹ میسجز اور وائس نوٹس کے ذریعے بھی ملزمان جعلی دستاویزات کی تیاری میں ملوث پائے گئے ہیں۔حکام کے مطابق مذکورہ دھندے کو سید واصف الدین اور محمد فہد نامی ملزمان رانا سلیم جعفر اور محمد عمران احسن کیساتھ مل کر چلا رہے تھے۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق شہر میں ایجوکیشنل کنسلٹنٹس کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، گلشن اقبال،شاہراہ فیصل اور ڈیفنس کے علاقوں میں ان کی زیادہ تعداد موجود ہے۔ حکام کے مطابق اس حوالے سے کوئی بھی قانونی اتھارٹی یا لائسنسنگ کا ادارہ اس وقت موجود نہیں ہے اس لیے کوئی بھی شخص تھوڑے سے پیسے لگا کر ایک دفتر بناتا ہے اور ایجوکیشن کنسلٹنسی کا کام شروع کر دیتا ہے۔

ان افراد اور گروہوں کی نگرانی کے لیے کو باضابطہ میکانزم موجود نہیں ہے۔یہ افراد اور گروہ طلباء سے فیس کے نام پر 400 سے 500 ڈالر وصول کر رہے ہیں جبکہ کئی کنسلٹنٹ جعلی ڈگریوں کی پرنٹنگ اور جعلی بینک اسٹمپ بنانے سمیت کئی غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں۔

ایک اور واقعہ میں ڈیفنس میں واقعہ میں ٹریولنگ کمپنی طلباء کو بیرون ملک جامعات میں داخلوں اور شہریوں کو نوکری کا جھانسہ دیکر کروڑوں روپے لوٹ کر فرار ہو گئی۔ڈیفنس فیز 8 میں واقع نجی کمپنی نے سعودی عرب اور دبئی میں ملازمت کے لیے شہریوں سے رقم لی۔متاثرین کے مطابق عید کے بعد وہ کمپنی کے دفتر پہنچے تو دفتر میں تالا لگا ہوا تھا۔متاثرین کا کہنا ہے کہ ان کے پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات کمپنی کے پاس ہیں۔

اب تک 50 سے زائد متاثرین سامنے آئے ہیں جن کا کہنا ہے کہ انہوں نے دو کروڑ روپے سے زائد کی رقم جمع کروائی ہے۔ متاثرین کے مطابق انہوں نے ضلع جنوبی کے تھانے ساحل میں درخواستیں جمع کروائی ہیں تاہم تاحال انکے پاسپورٹ ،دستاویزات اور جمع کروائی گئی رقم انھیں نہیں مل سکی ہے۔

شہر میں اس طرح کے متعدد افراد اور گروہ کام کر رہے ہیں جو سادہ لوح افراد کو انکی جمع پونجی سے محروم کر رہے ہیں۔یہ افراد اور گروہ سوشل میڈیا کے ذریعے پروفائلز بناتے ہیں جن میں بیرون ملک داخلوں اور نوکریوں کے مواقع کے نام پر ٹریول پیکیجز کو مشتہر کیا جاتا ہے۔ گروہ میں شامل افراد جعلی ڈاکومنٹس ،ویزے اور پاسپورٹ بناتے ہیں۔

جامعات میں داخلوں ،ویزہ فیس اور سفری اخراجات کے نام پر پیسے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کرواتے ہیں اور پیسے وصول ہونے کے بعد غائب ہو جاتے ہیں جس سے نہ صرف متاثرہ افراد کو مالی طور پر نقصان اٹھانا پڑتا ہے بلکہ انکے خواب بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ متعلقہ اداروں کی زمہ داری ہے کہ وہ ایسے افراد اور گروہوں کے خلاف نہ صرف سخت کارروائی کریں بلکہ عوام کو اس طرح کے فراڈ سے بچنے کے لیے آگاہی مہم بھی چلائیں تاکہ شہری ان جعلساز گروہوں کے ہاتھوں لٹنے سے بچ سکیں۔