سیاسی جماعتوں میں مذاکرات

April 29, 2024

قومی سلامتی اور معاشی بحالی کے دشوار چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کیلئے ملک میں سیاسی استحکام ناگزیر ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومت اور اپوزیشن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر افہام و تفہیم کے ذریعے آئین کے مطابق اپنا تعمیری کردار انجام دینے کی روش اپنائیں۔ توقع تھی کہ عام انتخابات کے بعد یہ عمل شروع ہوجائیگا لیکن ایسا ہو نہیں سکا ۔ بیشتر پچھلے انتخابات کی طرح اس بار بھی انتخابی نتائج سخت متنازع رہے ، اپوزیشن ان نتائج کیخلاف ملک گیر مہم چلانے پر تلی ہوئی ہے، اس مقصد کیلئے چھ جماعتی اتحاد وجود میں آچکا ہے اور سیاسی کشیدگی ختم ہونے کے بجائے شدید تر ہوتی نظر آرہی ہے۔دوسری جانب معاشی بحالی کیلئے موجودہ حکومت کے اقدامات کے مثبت نتائج رونما ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، اسٹاک مارکیٹ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد روز نئے ریکارڈ بنارہی ہے، جاری کھاتے کا خسارہ کم ہورہا ہے، برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافے کا رجحان مسلسل برقرار ہے اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا منصوبہ کامیابی سے آگے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔قومی معیشت کو کئی برسوں سے جاری ابتری سے نکال کر ترقی کی راہ پر ڈالنے کی ان کاوشوں کا جاری رہنا اسی صورت میں ممکن ہے جب ملک کے اندر اور باہر موجودہ حکومت کے تسلسل اور اسکی پالیسیوں کے جاری رہنے پر اعتماد کی فضا قائم رہے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ سڑکوں پر احتجاج کے بجائے اپوزیشن قیادت حکمراں سیاسی جماعتوں کیساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے اور صورت حال کا ایسا حل تلاش کیا جائے جو سیاسی کشیدگی کے خاتمے کا ذریعہ بھی بنے اور معاشی بحالی کی رفتار کو متاثر بھی نہ کرے۔ تاہم ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کے متعدد رہنماؤں کے مطابق وہ حکمراں سیاسی جماعتوں کے بجائے عسکری قیادت سے مذاکرات چاہتے ہیں۔ اس پارٹی سے تعلق رکھنے والے شہریار آفریدی نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا ہے کہ ان کی جماعت آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے سوا کسی سے مذاکرات نہیں کرے گی۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ اپنے مطالبات منوانے کیلئے وفاقی دارالحکومت پر اپنے صوبے سے باقاعدہ حملہ آور ہونے کا اعلان کرچکے ہیں۔پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن کا کہنا ہے کہ انکی جماعت اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کیلئے کل بھی تیار تھی اور آج بھی ہے لیکن حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم سے بات نہیں کی جائے گی کیونکہ انہوں نے ہمارا مینڈیٹ چرایا ہے۔اپوزیشن قیادت کے اس رویے پر مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق کا تبصرہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کیلئے اس قدر بے تاب ہے تو اسے سول بالادستی کا ڈراما بند کردینا چاہئے ۔ ان کا موقف تھا کہ سیاستدانوں کو آج نہیں تو کل آپس میں بات کرنی پڑے گی‘ رانا ثناء اللہ کے بقول پی ٹی آئی کی سوچ سیاسی نہیں کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔تاہم تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے مطالبہ کیا ہے کہ حکمراں جماعت ان کی پارٹی سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو پہلے اس کی شرائط طے کی جائیں۔ تحریک انصاف کے رہنما اپنی اپنی بولیاں بولنے کے بجائے اگر اسی بات کو اپنی جماعت کے متفقہ مؤقف کے طور پر اپنالیں تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار ہوسکتی ہے اور اسکے نتیجے میں اختلافات کا ایسا حل تلاش کیا جاسکتا ہے جو بیک وقت سیاسی افراتفری کے خاتمے اور معاشی بحالی کے جاری رہنے کی ضمانت بن سکے۔ سیاسی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار اسی صورت میں ختم ہوسکتا ہے جب سیاسی قوتیں اپنے معاملات خود پرامن بات چیت سے طے کریں، آئین اور جمہوریت کی بالادستی اسکے بغیر ممکن نہیں اور حالات ملک کی پوری سیاسی قیادت سے اس بالغ نظری کے متقاضی ہیں۔