معاشی ترقی اور مالیاتی اداروں کا کردار

April 29, 2024

ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے حکومت کی سطح پر اب تک جو اقدامات کئے گئے ہیں۔ اس سے یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ حکومت معاشی محاذ پر اپنے قدم جمانے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرض حاصل کرنے اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری کے ذریعے زرمبادلہ کے حصول کی پرانی پالیسی پر گامزن ہے۔ یہ پالیسی بظاہر ملک کو معاشی گرداب سے نکالنے کے فوری نسخے کے طور پر اہم ہے لیکن اگر ہم نے معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے تو اس کے لئے مقامی سطح پر پیداواری سرگرمیوں کو مستقل بنیادوں پر بڑھانے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیںپہلےسے قائم صنعتی اداروں اور انڈسٹری کو بھی اس حوالے سے اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم مقامی سرمایہ کاروں یا کاروباری طبقات کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دینگے تو دوست ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے جتنی بھی پرکشش پیشکش کر لی جائے وہ عملی شکل اختیار نہیں کر سکے گی۔ اگرچہ ماضی میں عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک نے پاکستان کو مالی معاونت فراہم کرنے میں خاطر خواہ دلچسپی دکھائی ہے لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس حوالے سے پاکستان کو حاصل ہونے والا زیادہ تر مالیاتی تعاون عالمی سیاسی حالات یا دوطرفہ تعلقات کی وجہ سے تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جب بیرونی سرمایہ کار کسی ملک میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے پیش نظر وہ حالات ہوتے ہیں جس کا مقامی سرمایہ کار یا انڈسٹری کو سامنا ہوتا ہے۔ اگر کسی ملک میں انڈسٹری پھل پھول رہی ہو اور معاشی سرگرمیاں پائیدار بنیادوں پر بڑھ رہی ہوں تو حکومتوں کی خصوصی کاوشوں کے بغیر بھی سرمایہ کار خود چل کر اس ملک میں سرمایہ لگانے پہنچ جاتے ہیں لیکن اگر مقامی سرمایہ کار کو اپنے سرمائے یا کاروبار کو چلانے کے لالے پڑے ہوئے ہوں تو باہر سے کون آ کر اس ملک میں نئی انڈسٹری لگانے یا سرمایہ کاری کرنے کا حوصلہ کرے گا۔ علاوہ ازیں دنیا بھر میں کاروبار کرنے اور اسے بڑھانے کیلئے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے اور سرمایہ فراہم کرنے کا سب سے بڑا اور موثر ذریعہ بینک سمجھے جاتے ہیں۔ بینک ایک طرف لوگوں کی چھوٹی چھوٹی بچتوں کو جمع کرتے ہیں اور دوسری طرف اس سرمائے کو کاروباری اداروں کو اپنا کاروبار بڑھانے کیلئے مناسب شرائط پر فراہم کرکے معاشی سرگرمیوں کے فروغ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اسلئے جب بھی کسی ملک میں معاشی ترقی کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اس کے لئے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس ملک کا کاروباری طبقہ بینکوں سے کتنا اور کس شرح پر قرض لے رہا ہے۔ سرمائے کی گردش کے اس نظام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک میں بینکوں سےقرض لینا آسان بنایا جاتا ہے تاکہ نئے کاروباری مواقع سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف ملکی معیشت کو ترقی دی جا سکے بلکہ زیادہ سے زیادہ لوگ بینکوں سے قرض حاصل کرکے معاشی سرگرمیوں کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اس طرح نہ صرف معیشت کا پہیہ چلتا ہے بلکہ بینکوں میں اپنی بچتیں جمع کروانے والے شہریوں کو بھی مناسب منافع حاصل ہوتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بینکوں کا یہ ماڈل اس کے بالکل الٹ ہے۔ یہاں عام آدمی تو دور کی بات ہے بڑے بڑے کاروباری اداروں کے لئے بھی بینکوں سے قرض لینا مشکل سے مشکل تر بنا دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نجی بینکوں کو اپنا سرمایہ ایسے غیر پیداواری شعبوں میں لگانے کی سہولت دستیاب ہے جہاں بیش بہا منافع یقینی ہے۔ دوسری طرف بلند شرح سود نے بینکوں سے قرض لینے والے صنعتی و کاروباری اداروں کی ترقی کے عمل کو جامد کرکے رکھ دیا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومت بینکوں سے گزشتہ دو ماہ کے دوران 700 ارب روپے کے اضافی قرضے حاصل کر چکی ہے جس سے قرضوں کا حجم 47 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ علاوہ ازیں جولائی تا مارچ کے دوران ریکارڈ 46 کھرب 90 ارب روپے کے قرضے لیے گئے۔ اسکے مقابلے میں نجی شعبے کی جانب سے بینکوں سے قرض لینے کے رجحان میں 70 فیصد کی نمایاں کمی آئی ہے۔ یہ اعدادوشمار اس لحاظ سے لمحہ فکریہ ہیں کہ حکومتی محصولات میں اضافے کے باوجود حکومت بینکوں سے بھاری شرح سود پر بے دریغ قرضے لے رہی ہے اور اس کا بوجھ لامحالہ عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ دوسری طرف اس طرح کی پالیسیوں کے سبب نجی شعبے کا بینکنگ سسٹم پر انحصار اور اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ مالی سال 2024ء کے پہلے نو مہینوں میں نجی شعبے نے بینکوں سےبمشکل 35ارب روپے کا قرضہ لیا ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں یہ رقم 264 ارب روپے سے زائد تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بینکوں کی بلند شرح سود ہے۔ اسٹیٹ بینک نے گزشتہ کئی ماہ سے پالیسی ریٹ کو 22 فیصد پر برقرار رکھا ہوا ہے جبکہ عملی طور پر بینکوں کی شرح سود 25فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ اس بلند شرح سود کے ساتھ بینکوں نے سال 2023ء میں حکومت کو قرض دے کر زبردست منافع کمایا ہے اور انکی پرائیویٹ سیکٹر کو قرض دینے میں دلچسپی کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک میں صنعتوں کے تحفظ اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے فوری طور پر شرح سود میں کم از کم پچاس فیصد کمی کرے اور اسے بتدریج سنگل ڈیجٹ پر لے کر آئے تاکہ پیداواری لاگت میں کمی لائی جا سکے۔ اس ایک اقدام سے نہ صرف بہت سی رکی ہوئی صنعتوں کا پہیہ پھر سے چلنا شروع ہو جائے گا بلکہ مہنگائی کی شرح اور عام آدمی کی معاشی مشکلات بھی کم ہوں گی۔