بی ایم ای خواتین میں سفید فام مردوں کے مقابلے میں صفر گھنٹہ معاہدہ پر ہونے کا امکان دوگنا سے زیادہ

April 29, 2024

لندن (پی اے) سیاہ فام اور اقلیتی نسلی خواتین میں سفید فام مردوں کے مقابلے میں صفر گھنٹے کے معاہدوں پر ہونے کا امکان دو گنا سے زیادہ ہے۔ ٹی یو سی نے کہا کہ اس کے سرکاری اعداد و شمار کے تجزیئے سے پتہ چلتا ہے کہ اس امر کا امکان زیادہ ہے کہ بی ایم ای ورکرز، خاص طور پر خواتین کچھ بدترین معاہدوں پر ملازمت کررہی ہیں۔ یونین آرگنائزیشن نے کہا کہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کام کرنے والی 5.9فیصد بی ایم ای خواتین صفر گھنٹے کے معاہدے پر ہیں جبکہ سفید فام مردوں میں یہ شرح 2.7فیصد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سفید فام کارکنوں کے مقابلے میں بی ایم ای کارکنوں کو صفر گھنٹے کے معاہدوں پر نمایاں طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ٹی یو سی نے کہا کہ اس کی رپورٹ، جو ہفتہ کو اس کی بلیک ورکرز کانفرنس سے پہلے شائع ہوئی ہے، ظاہر کرتی ہے کہ صفر گھنٹے کے معاہدوں پر بی ایم ای کارکنوں کی غیر متناسب تعداد کارروائی میں ساختی نسل پرستی کی ایک اہم مثال ہے۔ یونین باڈی کے مطابقبی ایم ای ورکرز خاص طور پر خواتین کے کچھ بدترین معاہدوں پر ہونے کا زیادہ امکان ہے، جہاں کم تر تنخواہ اور بدترین شرائط ہیں۔ ٹی یو سی کے جنرل سیکرٹری پال نوواک نے کہا کہ صفر گھنٹے کے معاہدے کارکنوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب اور برے مالکان کے لئے ایک خواب ہیں۔ وہ گھنٹوں اور کمانے کی طاقت پر تقریباً مکمل کنٹرول منیجرز کے حوالے کر دیتے ہیں، جس سے کارکنوں کے لئے اپنے بجٹ اور اپنی وسیع زندگی کی منصوبہ بندی کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ آس پاس کے کچھ بدترین معاہدے ہیںاور بی ایم ای خواتین کا ان معاہدوں پر سفید فام مردوں کی نسبت دوگنا امکان ہے۔ یہ عملی طور پر ساختی نسل پرستی کی ایک عمدہ مثال ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ غیر محفوظ کام کی لعنت کو ایک بار اور ہمیشہ کے لئے ختم کیا جائے، صفر گھنٹے کے معاہدوں پر پابندی کے ساتھ، جیسا کہ لیبر پارٹی ورکنگ پیپل کے لئے اپنی نئی ڈیل میں تجویز کر رہی ہے۔ اس طرح آپ ساختی نسل پرستی سے نمٹنا شروع کرسکتے ہیں، جو بی ایم ای کارکنوں کو روکے ہوئے ہے۔ محکمہ بزنس اینڈ ٹریڈ کے ایک ترجمان نے کہا کہ صفر گھنٹے کے معاہدے ان لوگوں کے لئے لچک پیش کرتے ہیں جنہیں ذاتی وعدوں کے مطابق کام میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے جبکہ ایسے آجروں کی مدد کرتے ہیں جہاں مستقل عملے کی مانگ کم ہے۔ اس ماہ کے آغاز میںحکومت نے 21 سال یا اس سے زیادہ عمر کے کارکنوں کے لئے قومی اجرت میں اضافہ کیا، جس سے تقریباً 30 لاکھ کارکنوں کی جیبوں میں مزید رقم آئی۔