غزہ، 2009 میں جیو ٹیم کی قیام گاہ بنا گھر حملے میں تباہ

April 30, 2024

جیو نیوز کی 2009 کوریج کے دوران قیام جس گھر میں رہا وہ آج تباہ ہوگیا، بیت حنون اور یہ یادوں سے بھرا مسکن اب کھنڈر دکھائی دے رہا ہے، میرے ذہن میں وہ سارا منظر گھوم رہا ہے کہ کس طرح بی بی سی کے جیرمی بوین سمیت عالمی صحافیوں کو جیو نیوز کی ٹیم کے ساتھ دو دن رفاح بارڈر پر انتظار کے بعد غزہ میں داخلے کی اجازت ملی تھی۔

غزہ میں داخلے کے وقت مکمل بلیک آوٹ تھا اور روڈز سنسان تھے، میں اور کیمرہ مین عظیم احمد خان نے رفاح سے شمال کی جانب سے بیت حنون جانے کا فیصلہ کیا جہاں مشہور اریز کراسنگ بھی موجود ہے، یعنی ہم نے پوری چالیس کلومیٹر طویل پٹی جنوب سے شمال کی جانب گھپ اندھیرے اور کشیدہ فضا میں طے کی۔

اس مقصد کیلیے غزہ کی مشہور اور مرکزی صلاح الدین شاہراہ کا انتخاب کیا، مجھے یاد ہے کہ اس دن امریکی صدر اوباما غالباً حلف لے رہے تھے اور شاید 20 جنوری 2009 کی تاریخ تھی۔

ٹیکسی ڈرائیور نے بھاری 100 ڈالر کرایہ لیا اور ہم نے اپنے مترجم کے گھر ہی قیام کو ترجیح دی، انجینئر محمد المصری کی پڑھی لکھی فیملی اور ہر وقت مدد کو تیار بچوں نے قیام کے دوران ہماری ہر لمحہ مدد کی، (عمر المصری سے بھائیوں جیسا تعلق بنا، حال ہی میں غزہ کی سرنگوں کے بارے میں اسٹوری ڈیجیٹل میڈیا پر ڈالی تو اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے عمر میرے گہری سرنگ میں نیچے اترتے وقت میرا بازو پکڑ کر تشویش سے کہتا ہے be careful Ali )

کبھی بیت لاحیہ تو کبھی زیتون کا علاقہ، کبھی شفاء اسپتال تو کبھی یو این کے تحت چلنے والے اسکولوں میں پناہ گزین فلسطینیوں پر رپورٹس ہر جگہ المصری فیملی کے عمر اور اس کا بڑا بھائی جابر ہمارے ساتھ رہے۔

تاریخی مسجد پر رپورٹ ہو یا اسرائیلی کرنسی یا گیس قلت پر، اسرائیل کی جانب سے زیتون کے درخت کاٹنے کے بارے میں رپورٹ ہو اور یا غزہ کی مسجد عمر سمیت انفرااسٹرکچر کا جائزہ، ڈرائیور سے لے کر راستے گلیوں ہر طرح کی مشکل یا اچھے ریسٹورینٹس کا انتخاب عمر و جابر کا کام ہوتا تھا، غالباً خاندان کے سربراہ انجینئر محمد المصری کی سخت ہدایات تھیں کہ مہمانوں کا خاص خیال رکھنا ہے۔

بچے باپ کے حکم کے ہر لمحہ تابع تھے، حتی کہ رات کو سوتے وقت تک ہماری آسانی کو یقینی بنانا شاید ان کی ڈیوٹی بن چکی تھی، ایک مرتبہ 1965 ماڈل کی مرسیڈیز ٹیکسی خراب ہوئی تو ہمیں اس دوران مغربی کنارے کے علاقے الخلیل کی ایک مٹھائی کھانے کا موقع ملا، مجھے میٹھا پسند نہیں لیکن غزہ کی وہ مٹھاس کبھی نہیں بھلاؤں گا، ایک مزے کی بات، عمر نے نہ جانے کیسے علی حیدر کا پرانا گانا ’’دیکھو کہہ رہی ہیں کیا باتیں چاندنی راتیں‘‘ سن رکھا تھا، ایک مرتبہ بیت لائحیہ جاتے وقت میں نے عمر کو گانے کا انگریزی ترجمہ کر کے بتایا اور اسے کہا آج میں تمہارا مترجم ہوں۔

ان کے گھر کی چھت پر ریکارڈنگ کے وقت اسرائیلی ڈرونز کی بھنبھناہٹ اور نگرانی پہلے پہلے تشویش میں مبتلا کرتی تھی پھر ہم عادی ہوگئے، گھر کی وسیع چھت پر رات کو کام کے بعد کیمرہ مین عظیم احمد کے ساتھ ہلکی پھلکی چہل قدمی اور اس دوران عمر کی اس کے بھائی حلمی سے نوک جھونک اور لڑائی سے خوب تفریح آتی، اسرائیلی سرحد پر اریز کراسنگ گھر کی چھت سے دکھائی دیتی تھی۔

انجینئر محمد المصری کی بیگم نے نہ صرف مزے مزے کے کھانے کھلائے بلکہ رخصت کے موقع پر مجھے ایک جائے نماز تحفے میں دی، یہ جائے نماز ابھی تک میری اماں کے ہاں موجود ہے، جب امی کی طرف جانا ہوتا ہے استعمال کرتا ہوں۔

جنگ شروع ہونے کے بعد بیت حنون کا عمر اپنی ننھی بچی اور حاملہ بیوی کے ساتھ در بدر کی ٹھوکریں کھاتا نصیرات کیمپ تک پہنچا اور کبھی کبھی بہت مشکل سے میسنجر پر اس سے رابطہ ہوتا تھا، وہ ایک ایک ہفتہ نہیں نہا سکتا تھا اور کھانے پینے کی مشکل اس نے مجھ سے کبھی شیئر نہ کی، میں اپنی بیگم سے غزہ کے کمپیوٹر انجینئر عمر کی مشکلات کا ذکر دعا کی درخواست کے ساتھ کرتا کیونکہ اس کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔

اس سلسلے میں کچھ سفارتی رابطے کیے کہ اس فیملی کے تین بھائیوں کا جلد از جلد غزہ سے انخلاء ہو لیکن کچھ بھی نہ ہوسکا، امریکا میں ان کے والد محمد المصری یا سلوانیہ میں مقیم ہمارا دوسرا مترجم اور عمر کا بھائی جابر المصری سے رابطہ رہا کہ کیسے عمر کو غزہ سے نکالا جا سکتا ہے۔

عمر مشکلات اور بھوک کا کم ذکر کرتا ہاں اپنے ہونے والے بچے کے حوالے سے بہت پریشان تھا، پھر اچانک نصیرات کیمپ پر ایک بم گرا، ایسا بم جس کے بعد خون ہی خون اور چیخیں تھیں، عمر اور اس کی بیوی بمشکل بچے، اللّٰہ نے اس کے لیے تباہی اور ناامیدی میں بھی رحمت لکھ دی تھی۔

عمر کے ہاں خوبصورت سی بیٹی پیدا ہوئی، اس نے مجھے کہا یہ میری فائٹر بیٹی ہے، بیٹی کا آنا تھا کہ امریکا سے عمر کا امیگریشن کیس فی الفور منظور ہوگیا، پھر بھی رفاح بارڈر پر موجود عجیب و غریب مصری مخلوقات نے عمر سے خوامخواہ 5 سے 10 ہزار ڈالر اینٹھے۔

ان حالات میں بھی رفاح بارڈر پر موجود مصریوں کا یہ شرمناک رویہ تھا، شدید بمباری میں بھی عمر کے بھائی احمد نے غزہ سے نکلنے سے انکار کردیا ہے، گویا 2006 کی فلم ایپوکلیپٹو کا سین کی طرح ہو کہ ہیرو کہے یہ میرا غزہ ہے میں اس غزہ کا بیٹا ہوں۔

نصیرات کیمپ میں ایک بم گرنے کے بعد بیٹی کا آنا تھا کہ عمر غزہ سے نکل گیا لیکن ایک اور بم نے بیت حنون میں اس خوبصورت گھر کے آثار مٹا دیے کہ جو ہماری خوبصورت یاد کا حصہ تھے۔

پہلی مرتبہ ایسا لگا کہ اسرائیل نے مجھے ذاتی طور پر براہ راست نقصان دیا ہے، کیونکہ مجھے ملک سے باہر اگر کسی جگہ دوبارہ رکنے کی آرزو تھی تو وہ انجینئر محمد المصری کا بیت حنون والا گھر تھا۔