مالیاتی نظم وضبط ناگزیر!

April 30, 2024

ایسے وقت میں جب وزیر اعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت کی ساری توجہ ملکی معیشت کی سمت درست کرنے اور اقتصادی ابتری پر قابو پانے پر مرکوز ہے ۔گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا یہ کہنا کافی حوصلہ افزا ہے کہ مہنگائی کی شرح اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ میں کمی کے رجحانات غالب ہیں ۔روپے کی قدر مستحکم ہو رہی ہے اور عالمی اتارچڑھائو کے باوجود معیشت بحالی کے راستے پر گامزن ہے ۔تاہم عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے حکومت کو سخت مالیاتی نظم وضبط یقینی بنانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اقتصادی اصلاحات سے ہی میکرواکنامک استحکام حاصل کر سکتا ہے ۔یہ مشورہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹا لینا جارجیوا نے سعودی دارالحکومت ریاض میں جاری عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کی سائیڈ لائن پر ایک ملاقات میں وزیر اعظم شہباز شریف کو دیا ۔ملاقات میں عالمی ادارے کے نئے قرضے کے اجرا کے معاملہ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔پرانے 3ارب ڈالر کی آخری قسط ایک ارب بیس کروڑ ڈالرتوقع ہے کہ پیر کے اجلاس میں جاری کر دی جائے گی۔وزیر اعظم نے اس موقع پر حکومت کے اس عزم کو دہرایا کہ وہ معیشت کو دوبارہ پٹری پر ڈالنے کیلئے کمربستہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں مالیاتی کمیٹی ایسی دانشمندانہ اصلاحات پر کام کر رہی ہے جس سے سخت مالیاتی ڈسپلن یقینی بنایا جا سکے۔ریاض میں منعقدہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی اجلاس کے موقع پر سعودی عرب کے خزانہ ،سرمایہ کاری، صنعتوں، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی کے وزراء سے بھی وزیر اعظم کی ملاقات ہوئی ۔سعودی وزیر خزانہ نے میاں شہباز شریف کو مین آف ایکشن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے کام کی رفتار سے آگاہ ہیں آپ کا مشن ہمارا مشن ہے اور آپ سے مختلف شعبوں میں تعاون جاری رکھیں گے۔پاکستان میں سرمایہ کاری ہماری ترجیح ہےسعودی سرمایہ کاروں کا ایک وفد جلد ہی پاکستان کا دورہ کرے گا اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع کا جائزہ لے گا۔سعودی وزراء اور متحدہ عرب امارات پہلے ہی پاکستان میں سرمایہ کاری کا عندیہ ظاہر کر چکے ہیں اور سعودی سرمایہ کاری کا نیا عزم ملکی معیشت کے لئے ایک اہم پیشرفت ہے اس تناظر میں جیو نیوز کی ٹرانسمیشن دی گریٹ ڈیبیٹ میں معاشی بہتری کے لئے پیش کردہ اقتصادی ماہرین کی تجاویز انتہائی کارآمد ہو سکتی ہیں ماہرین نے جن کا تعلق تجارت صنعت اور اقتصادیات کے متنوع شعبوں سے ہے، شرح سود اور اخراجات میں کمی، برآمدات میں اضافہ، ٹیکس نیٹ میں توسیع توانائی کو سستی کرنے اور سرکاری اداروں کی نجکاری کو معاشی بحالی کے لئے ضروری قرار دیا ماہرین کی متفقہ رائے تھی کہ یہ پاکستان کی معیشت کے لئے آخری لائف لائن ہے دوست ممالک سے اب من و سلویٰ کی امید نہیں رکھنی چاہئے ۔اس لئے مشکل فیصلے ناگزیر ہو چکے ہیں مذاکرے میں انکشاف کیا گیا کہ ٹیکس چوری حد سے گزر چکی ہے ٹیکس مشینری سے ساڑھے تین ہزار ارب روپے کی لیکیج ہو رہی ہے صرف رئیل اسٹیٹ، زراعت اور خورونوش کے شعبوں میں دوہزار ارب روپے کی ٹیکس لیکیج ہو رہی ہے معیشت کو سب سے زیادہ شرح سود زیادہ ہونے کی وجہ سے نقصان ہو رہا ہے۔ محصولات کا حصول ٹیکس نیٹ بڑھانے سے نہیں کاروباری سرگرمیاں تیز ہونے سے ممکن ہوگا جس پر توجہ دینی چاہئے حکومت کو آئی ایم ایف دوست ممالک اور خود اپنے ماہرین کے مشوروں پر توجہ دینی چاہئے کیونکہ معیشت اس وقت اب یا کبھی نہیں کے مشکل مرحلےمیں داخل ہو چکی ہے عوام کے لئے بھی یہ انتہائی صبرآزما مرحلہ ہے جس سے نجات حکومت کی دانشمندانہ پالیسیوں کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔