گندم اسکینڈل کی تحقیقات

May 03, 2024

نگراں دور حکومت میں غیرضروری گندم کی درآمد کی تحقیقات کافیصلہ ایک صائب اقدام ہے جس سے ان حالات و عوامل کا پتہ چلانے میں مدد ملے گی جو بیرون ملک سے گندم منگوانے کے باعث قومی خزانے کو نقصان پہنچانے اور اندرون ملک بمپر فصل سے حاصل ہونے والی گندم کی فروخت اور اسٹوریج کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے معاملے کی چھان بین کا حکم دیتے ہوئے تحقیقاتی ٹیم بنادی ہے جس کے سربراہ جسٹس (ر) میاں مشتاق مقرر کئے گئے ہیں۔ تحقیقاتی کمیٹی نگراں حکومت کے گندم درآمد کرنے کے فیصلے کے اسباب و علل کا جائزہ لینے اور دو ہفتے میں وزیراعظم کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہوگی۔ دوسری جانب گندم درآمد کے اس عمل کے حوالے سے ہوشربا انکشافات سامنے آنے شروع ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وزارت تجارت اور ٹی سی پی کی کی تجاویز نظرانداز کردی گئیں اور نجی شعبے کو کسٹم ڈیوٹی اور جی ایس ٹی سے بھی چھوٹ مل گئی۔ اس عمل سے قومی خزانے کو 300ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ یہ بات متوقع تھی کہ اس بار ملک میں گندم کی شاندار فصل حاصل ہوگی۔ اس کے ذخیرہ اور فروخت کرنے کے خاطر خواہ انتظامات کئے جانے چاہئیں تھے جبکہ باردانہ کی فراہمی سمیت کسانوں کو وہ تمام سہولتیں دی جاتیں جن سے غیرمعمولی منافع حاصل کرنے کی امیدیں پوری ہوتیں۔ مگر ذرائع کے مطابق متعلقہ وزیر کی مخالفت کے باوجود یوکرین سے گندم امپورٹ کرنے کی سمری وفاقی کابینہ کو بھیجی گئی جو سرکولیشن کے ذریعے منظور کرلی گئی۔ مذکورہ خریداری اور درآمد زرمبادلہ کی فراہمی سمیت کئی معاملات پر قابو پائے بغیر ممکن نہیں تھی جبکہ ڈالروں کا بندوبست بھی ہوگیا اور دوسری راہیں بھی ہموار ہوگئیں۔ یہ سب باتیں توجہ طلب اور تفتیش طلب ہیں۔ ان کے بارے میں تفصیلات حاصل ہونی ضروری ہیں اور یہ پتہ چلنا چاہئے کہ نگراں وفاقی کابینہ کو اس امپورٹ کے اثرات سے کیونکر اور کن لوگوں نے لاعلم رکھا۔ وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی کی ایک سمری کے مطابق ملک میں 28اعشاریہ 18ملین ٹن گندم پیدا ہوئی اور 2.45ملین ٹن درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاسکو اور صوبائی محکمے مطلوبہ ہدف 7.80کے بجائے 5.87ٹن گندم خرید سکے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ گندم کی سرکاری خریداری شروع نہ کئے جانے کے خلاف کسانوں کے مظاہرے جاری ہیں، گرفتاریاں اور لاٹھی چارج کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ کسان منتظر ہیں کہ گندم خریداری مہم شروع ہو جبکہ آڑھتی کسانوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر ان سے سستے داموں گندم خرید رہے ہیں۔ پاکستان کسان اتحاد کے مطابق گندم کے کاشتکاروں کو انکی لاگت بھی وصول نہیں ہورہی۔ سرکاری قیمت سے ایک ہزار روپے فی من کم قیمت پر گندم خریدی جارہی ہے۔ اس صورتحال میں وہ اس قابل بھی نہیں رہے کہ آئندہ فصلوں کپاس اور چاول کے لئے ضروری لوازمات خرید سکیں۔ موجودہ بحران کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سابق نگران حکومت نے گندم کی کٹائی سے چند ہفتے قبل درآمدی گندم سے سرکاری گودام بھردئیے جسکے باعث نئے اسٹوریج کی گنجائش نہیں رہی۔ عملی صورتحال یہ ہے کہ کسان پریشان ہیں، انکی معیشت کا بیشتر انحصار گندم کی فصل اور آمدن پر ہے۔ سرکار نے گند م کی خریداری کے جونرخ مقرر کئے تھے وہ انہیں حاصل نہیں ہورہے۔ باردانہ نہیں مل رہا۔ گندم فروخت نہیں ہوپارہی۔ یہ کیفیت اذیت ناک ہے۔ حکومت کو گندم کی خریداری کے ہنگامی اقدامات کرنے چاہئیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اگلی فصل پر گندم کی بوائی کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔