جماعت اسلامی کے نئے امیر سے ملاقات

May 03, 2024

اس شام لاہور میں موسم قدرے خوشگوار تھا، جماعت اسلامی کی طرف سے تیس سینئر کالم نگاروں کو نئے امیر جماعت اسلامی سے ملوانے کیلئے مدعو کیا گیا تھا۔ جماعت اسلامی نے پہلی دفعہ ڈھنگ کا کام کیا کہ ناقدین کو بھی مدعو کیا، مختلف آرا کا سامنے آنا بھی جمہوریت کا حسن ہے، جمہوریت سے یاد آیا کہ ایک طرح سے جماعت اسلامی واحد سیاسی جماعت ہے جس میں جمہوریت ہے، خاندانی اجارہ داری نہیں اور نہ ہی وراثت کا کلچر ہے۔ جماعت اسلامی کا امیر کسی بھی صوبے سے ہو سکتا ہے، جماعت اسلامی کے امیر کے انتخاب میں جماعت کی ہزاروں خواتین اراکین نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک زمانے میں جماعت اسلامی لاہور اور کراچی سمیت کئی شہروں میں بڑی سیاسی قوت تھی پھر رفتہ رفتہ اس کی سیاسی طاقت میں کمی ہوتی چلی گئی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ کراچی سے تو پھر بھی کوئی دو چار اراکین صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیت سکتے ہیں، لاہور سے وہ بھی نہیں۔ ماضی قریب میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے کچھ سیاسی حصہ جماعت اسلامی کو ملا کرتا تھا، اب وہ بھی سکڑ کے رہ گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے آخری متحرک امیر قاضی حسین احمد تھے، جو کسی نہ کسی طرح ملکی سیاست میں خود کو نمایاں رکھتے تھے، انہی کے عہد میں جماعت اسلامی نعمت اللہ خان کو کراچی کا ناظم بنانے میں کامیاب ہوئی۔ لاہور کے ناظم میاں عامر کا پس منظر بھی جماعت اسلامی ہی تھا۔ قاضی حسین احمد کے بعد سید منور حسن کے چند متنازع بیانات نے ان کی سیاست کو متنازع بنا دیا، بس پھر وہ سنبھل نہ سکے، اس کے بعد سراج الحق کی دو رخی پالیسی نے جماعت اسلامی کی سیاست کو مزید پیچھے کر دیا، ان کی دو رخی کا اندازہ سیاسی قیادت کو بھی تھا، ایک روز بنی گالا میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین مجھ خاکسار سے کہنے لگے’’یار یہ جماعت کی دو رخی تو دیکھو، خیبرپختونخوا سے ہمارے ذریعے خود کو سینیٹر بنوا لیا ہے اور اب آزاد کشمیر کے الیکشن میں ن لیگ سے اتحاد کر لیا ہے‘‘۔ جب بھی کسی پارٹی کا کوئی نیا سربراہ سامنے آتا ہے تو ظاہر ہے اس پارٹی میں نئی امیدیں جاگتی ہیں، جب سے حافظ نعیم الرحمٰن جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے جماعت میں کسی نے نئی روح پھونک دی ہو۔ کچھ دن پہلے ضیاء الحق نقشبندی کے ہاں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما قیصر شریف سے عرض کیا تھا کہ اب آپ کی جماعت کو کوئی ایک لائن اختیار کر لینی چاہیے، دو رخی سے آپ کی جماعت مزید سکڑ جائے گی۔ نئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن کی گفتگو سے ایک بات تو سامنے آ گئی کہ اب جماعت اسلامی ایک لائن اختیار کرے گی۔ نئے امیر جماعت اسلامی سے ملاقات کا احوال سن لیجیے! جب حافظ نعیم الرحمٰن ہال میں داخل ہوئے، تاخیر سے آنے پہ شامی صاحب نے احتجاجی جملہ بلند کیا تو حافظ نعیم الرحمٰن نے بلا تاخیر معذرت کرتے ہوئے کہا ’’ایسا غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا ہے‘‘۔ خیر! گفتگو شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ حافظ نعیم الرحمٰن مخالفانہ باتیں بھی تحمل سے سنتے ہیں بلکہ اس دوران ان کی حس مزاح جاگتی رہتی ہے۔ جماعت اسلامی کے نئے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نئی ذمہ داریوں سے پہلے ہی خاصے مقبول ہو چکے تھے، انہوں نے بلدیاتی الیکشن میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا ناک میں دم کر رکھا تھا، انہوں نے پی ٹی آئی کے کونسلرز کے ساتھ مل کر ایسا سیاسی میدان سجایا کہ پیپلز پارٹی کو کراچی کا میئر بنانے کیلئے پولیس گردی کرنا پڑی، 8 فروری کے انتخابات میں بھی حافظ نعیم الرحمٰن ایک بڑا چیلنج بنے رہے، انہیں رام کرنے کیلئےفارم 47 کے ذریعے جتوایا گیا، صوبائی اسمبلی کی نشست پیش کی گئی مگر یہ سیٹ حافظ نعیم الرحمٰن نے جتوانے والوں کے منہ پہ دے ماری، ان کا اب بھی اس سلسلے میں بے لچک مؤقف ہے اور وہ اس کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ وہ 8 فروری کے دھاندلے کو نہیں مانتے بلکہ فارم 45 کے نتائج کیلئےپی ٹی آئی کے ساتھ ہیں، انہوں نے کہا ’’ہم ساتھ مل کر سیاسی جدو جہد تو کر سکتے ہیں مگر انتخابی اتحاد کسی سے نہیں بنائیں گے کیونکہ انتخابی اتحادوں نے جماعت اسلامی کو بہت نقصان پہنچایا ہے‘‘۔ حافظ نعیم الرحمٰن کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ فارم 47 کی حکومتوں کو تسلیم کرنے کیلئے ایک لمحے کو بھی تیار نہیں، انہوں نے کچھ ہمسایہ ملکوں کا تذکرہ کیا اور پھر موجودہ حکومت کی پالیسی پر روشنی ڈالی تو معلوم ہوا کہ جماعت اسلامی کے نئے امیر کو ملکوں کی علاقائی سیاست کا بخوبی علم ہے اور خطے کی سیاست کو وہ درست انداز میں سمجھتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن کے لئے اقبال کا شعر پیش خدمت ہے کہ

آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہن پہ اَڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں