ہنگاموں کی زد میں امریکہ…

May 04, 2024

روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
امریکہ میں2020ء میں پولیس کی جانب سے ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ کو گٹھنوں کے نیچے دبا کر قتل کرنے پر بہت بڑے پیمانے پر احتجاج اور فسادات ہوئے تھے۔ اس کے بعد اب ا مریکہ بھر کے تعلیمی اداروں میں چند ہفتوں میں اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی پر احتجاجی مظاہرے اور فسادات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ امریکی انتظامیہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر گھناؤنے جرائم کو تو ایک لمحے کے لیے بھی غیر قانونی کہنے پر رضامند نہیں، لیکن اس کے خلاف آواز اٹھانا اور امریکہ جیسے بظاہر جمہوری ملک میں احتجاج کرنے کو غیر قانونی کہا جارہا ہے۔ نیو یارک سے لے کر لاس اینجلس تک طلبہ امریکی حکومت کی اسرائیل کو کھلی مدد اور حمایت پرفلسطین کی نسل کشی میں امریکہ کو برابر کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں امریکہ نے پھر سے گزشتہ چھ ماہ میں ہر طرح کی مدد کے بعد اسرائیل کو26بلین ڈالر کی فوجی مدد دی ہے اور امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس فوجی مدد سے مشرق وسطیٰ میں امن پیدا ہوجائے گا۔ اسی طرح سے تقریباً50ارب ڈالر کی فوجی امداد یوکرین کو بھی دی ہے۔ جنگ میں ملوث جارح قوتوں کی فوجی مدد کرکے امریکہ دنیا میں امن قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس سے بڑا آج کے دور میں بھلا اور کیا جھوٹ ہوسکتا ہے۔ دراصل امریکہ کی اسلحہ ساز بڑی کارپوریشنز کا امریکی خارجہ پالیسی پر مضبوط کنٹرول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے اندر بھی درجنوں بار کوششوں کے باوجود امریکہ اپنے شہریوں کو ہر طرح کا اسلحہ رکھنے پر کنٹرول نہیں کرسکا۔ اسرائیل کو ہر طرح کی جارحیت کا کھلا لائسنس دے رکھا ہے، بلکہ دسمبر میں امریکہ نے اسرائیل کو اتنی آسانی دے دی تھی کہ اسرائیل ایک ای میل کے ذریعے جتنا اسلحہ طلب کرلے، اسے کابینہ یا پارلیمنٹ کی پہلے منظوری کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ یہ تمام منظوریاں اسلحہ پہنچنے کے بعد ہوتی رہیں گی۔ اتنی چھوٹ تو شاید امریکہ کی اپنے فوجی اور دیگر دفاعی اداروں کو بھی نہیں ہوگی۔ اسرائیل 45 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو اب تک شہید کرچکا ہے۔ غزہ کی ڈھائی ملین کی آبادی کو بے گھر کرچکا ہے۔ پورے غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کردیا ہے، حماس نے پہلا حملہ کیا، لیکن اس کا جواب اور تناسب کا تقاضہ کرتا ہے تاکہ پورے غزہ کو تباہ کردیا جائے۔ شہید ہونے والوں کو70فیصد عورتیں اور بچے ایسی جنہوں نے نہ تو کسی مزاحمت میں حصہ لیا، نہ ہی کسی جنگ میں شریک تھے، نہ ہی ان کی حماس میں کوئی رکنیت تھی، اسی لیے اسے نسل کشی کہا جارہا ہے۔ اگر ان کی تاریخ بھی دیکھی جائے تو صرف یہودی نہیں بلکہ اس خطے کے60فیصد لوگ حضرت نوح کے بیٹے سام کی اولادوں میں سے ہیں لیکن یہودیوں نے خود کوSemiteقرار دے کر باقیوں کی نسل کشی شروع کر رکھی ہے۔ حالانکہ نسلی طور پر ایسا قطعی نہیں ہے، بلکہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ شام، فلسطین اور عراق کے کچھ علاقے کے لوگ بھی جو صہیونی ذہنیت رکھتے، وہ دھونس سے نسل پرستی کو بڑھاوا جتنی شدت اخیار کرتا جارہا ہے۔ اتنا ہی اسرائیل ہی اسرائیل نواز اور اسرائیل کی جارحیت کے خلاف لوگوں میں کئی ریاستوں میں پرتشدد جھگڑے اور ایک دوسرے پر حملے شروع ہوگئے ہیں لیکن امریکہ عقل اور امن کی کوئی آواز سننے کو تیار نہیں، اب یورپ میں بھی امریکہ سے وہی احتجاج منظم ہونا شروع ہوگیا ہے، برطانیہ میں حکومت نے جب اکتوبر میں غزہ اسرائیل لڑائی کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو مظاہرین کے امیگریشن اسٹیٹس کو چیک کرنا شروع کردیا اور اینٹی اسرائیل مظاہرین کو ڈی پورٹ کرنے کی دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں لیکن اب برطانیہ کے تعلیمی اداروں میں پھر سے امریکی احتجاج کے ساتھ جڑت شروع ہوگئی ہے۔ امریکہ کی حکومت فقط اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کی خواہش کے احترام میں غزہ میں ہزاروں انسانوں کے قتل عام کی اجازت اور مدد دے رہا ہے لیکن اسے جنگ بندی کے لیے کہنے کو یتار نہیں جس سے اب اگر طلبہ کی آواز کو طاقت اور گرفتاریوں سے کچلنے کی کوشش کی تو شاید یہ آگ نہ صرف پوری امریکی ریاستوں میں پھیل گی بلکہ انتہائی پرتشدد بھی ہوجائے گی۔ اس وقت دنیا کو امریکہ پر دباؤ بڑھانا چاہئے کہ وہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی سے روکے، جس کی بہرحال امید بہت کم ہے۔