آرمی چیف کا خطاب

May 04, 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا جمعرات کے روز رسالپور اکیڈمی میں پاکستان ایئر فورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب، پاک فوج کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور ان سے وابستہ نظریات کا برملا اظہار ہے۔فارغ التحصیل کیڈٹوں کو مخاطب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ آپ ہماری امیدوں کا مرکز،آسمانوں کے محافظ اور علاقائی یک جہتی کے ضامن ہیں، آپ کا طرز عمل نہ صرف ذاتی اخلاقیات بلکہ قابل احترام ادارے کیلئے بھی غیر معمولی حیثیت کا حامل ہونا چاہئے۔ایک مضبوط فضائیہ کے بغیر ملک کسی بھی جارح کے رحم وکرم پر ہوتا ہے،پاک فوج نے ہمیشہ سے ہر موقع پر بے مثال بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ہر طرح کی مشکلات میں فضائی حدود کی نگرانی کی ،جس کی بڑی مثال فروری 2019ءکا واقعہ ہمارے سامنے ہے۔مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے تناظر میں جنرل عاصم منیر نے کہا کہ غزہ کی جنگ اس بات کی شاہد ہے کہ جنگیں کیا کیا مصائب سامنے لاسکتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے لیکن یاد رہے کہ حق ہی طاقت ہے اور باطل کبھی طاقتور نہیں ہوسکتا۔انھوں نے کیڈٹوں سے کہا کہ وہ راشد منہاس، سرفراز رفیقی اور ایم ایم عالم بنیں جنھوں نے وطن عزیز کے وقار کے تحفظ کیلئے اپنی خدمات اور زندگیاں پیش کیں۔آرمی چیف کے خطاب کا دوسرا پہلو پاک فوج کا اپنی آئینی حدود میں رہنے کا اظہار اور دوسروں کو بھی آئین کی پاسداری مقدم رکھنے کی توقعات سے وابستہ تھا۔جنرل سید عاصم منیر کے بقول،آئین کے آرٹیکل 19میں واضح طور پر اظہار کی آزادی اور رائے کی حدود متعین کی گئی ہیں۔جو لوگ آئین میں دی گئی آزادی پر عائد کی گئی واضح قیود کی برملا پامالی کرتے ہیں،وہ دوسروں پر انگلیاں نہیں اٹھاسکتے۔آرمی چیف کے خطاب کی روشنی میں یہ باور کیا جانا ضروری ہے کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں ریاستی اداروں کی اہمیت مسلمہ ہوتی ہے۔جس طرح کسی مشین کے تمام پرزے ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہوتے ہیں ،قومی اداروں کی بھی ایسی ہی مثال ہے۔اگر کسی کو غیر فعال کردیا جائے تواس کا اثر پوری ریاستی مشینری پر پڑتا ہے اور کاروبار مملکت مفلوج ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔اگر ماضی کے اوراق الٹا کر دیکھا جائے تو یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کی 76سالہ تاریخ سیاستدانوں ،عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک دوسرے پر مسلط ہونے جیسےحالات سے عبارت ہے جس سےجمہوریت کو نقصان پہنچا۔اب اگرانتخابی عمل میں استحکام آیا ہے تو سیاستدانوں کی باہمی کھینچاتانی معزز پارلیمان پر اثر انداز ہورہی ہے۔پاک فوج کی میڈیا بریفنگ میںہمیشہ سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ یہ ایک قومی ادارہ ہےجو کبھی نہیں چاہے گا کہ کسی خاص سیاسی سوچ یا نظریے کی جانب راغب ہو۔ آئین ہر پاکستانی کو حدودوقیود میں رہتے ہوئے رائے کی آزادی کے اظہار کا حق دیتا ہے۔پاک فوج اور اداروں کے خلاف بات چیت نہ صرف غیر ذمہ دارانہ بلکہ غیر آئینی فعل ہے۔فی الحقیقت پاکستانی سیاست ایک ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے اور سیاسی الجھائو نے اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔مجموعی صورتحال کے تناظر میںانہی دنوں ایک حوصلہ افزا صورتحال پیدا ہوئی ہے ،میڈیا رپورٹس کے مطابق سیاسی اور ادارہ جاتی مفاہمت کیلئے پاک فوج کے لیفٹیننٹ جنرل (ر)نعیم لودھی سرگرم اور بعض سرکردہ شخصیات سے رابطوںمیں ہیں۔ ماضی میں جو کچھ ہوا،اس پر اختلافی آرا اپنی جگہ، تاہم یاد رہے کہ ملک دشمن عناصر ایسے مواقع کی تاک میں رہتے ہیں، آنے والے وقت کو ہر طرح کے چیلنجوں سے بچانا موجودہ صورت حال کا تقاضاہے، جس کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنا اولین شرط ہے۔