مڈ وائیوز اور کارل مارکس کا دن

May 05, 2024

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
کسی ایسے پیشے کو جس میں خدا کی تخلیق کو دنیا بھر کی ماؤں کے بطن سے نکال کر دنیا میں لانا ہوتا ہے، اس کام کے انجام دینےکو زچگی کہتے ہیں۔ ماں کے بطن سے یا رحم مادر سے بچے نکالنے والی کو دایہ یعنی مڈوائف کہتے ہیں۔خدا کی تخلیق کو دنیا میں سانس دلانے والی بھی نہایت اہم ہے کہ بچہ خدا کی مرضی اور دایہ کی ماہرانہ کوششوں سے دنیا میں آکر سانس لیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی شیرخوار زندگی آغاز سے انجام کو پہنچتی رہتی ہے کہ اس کو زندگی میں آنا جانا کہتے ہیں۔ پہلے کبھی ہوا کرتا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں بچے زیادہ تر ہسپتال میں پیدا ہوتے تھے مگر پسماندہ ممالک میں بچوں کا جنم آج بھی دایہ ہی کے ہاتھوں ہورہا ہے۔ یہ پیدائش زیادہ تر گھروں میں روایتی دایوں کے ہاتھوں ہوتی ہیں۔ دائی یا دایہ کو انگریزی بولنے والے ممالک میں مڈوائف کہتے ہیں، جو زچگی کے کاموں میں ماہر ہوتی ہیں۔ اسے پیشے کو قبالت یا دایہ گیری کہا جاتا ہے۔ ان کی ذمہ داریاں بھی مختلف مماک میں مختلف ہوتی ہیں کچھ ایشین ممالک میں دائی کی ذمہ داری صرف زچگی تک ہوتی ہے کچھ ممالک میں ماؤں کی زچگی کی تربیت سے لے کر بچے کی پیدائش اور ان کی دیکھ بھال تک بھی ذمہ داری نبھاتی ہیں، توجہ کے ساتھ۔یہ ماہر خواتین جن کا پیشہ نہایت ہی اہم ہے۔ ہم انہیں کبھی اہمیت سے ہمکنار نہیں کرتے، بس انہیں دائی کہہ دیا۔ رات کے اندھیرے میں، کبھی صبح کے اجالے میں، کبھی وقت بے وقت انہیں ہنگامی حالت میں زچہ کو دیکھنے جانا ہوتا ہے، وہاں یہ کبھی اپنی مہارت سے زچہ و بچہ کی خیریت کی خبر دیتیں، کبھی کسی ایک سے محرومی کی خبر دیتی ہیں۔ ان کی تجرباتی زندگی خوشیوں کا ملا جلا پیغام ہوتی ہے۔ یکم مئی مزدوروںکا عالمی دن ہوتا ہے کہ محنت کش اس دن اپنی ہی محنت پر داد وصول کرنے کی تمنا رکھتے ہیں مگر ان کے دن انہیں منہ چڑاتے ہیں کہ مزدور چاہے عورت ہو یا مرد ہوں، نصیب میں محنت کا تیشہ اٹھانا ہی ہے۔ 1886کو سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی جانب سے مزدوروں کو فائرنگ کرکے موت دی گئی۔سرمایہ داروں کے ہاتھوں مزدوروں کا استحصال ہوا تو وہ سڑکوں پر نکلے تھے، پھر بس مار دیے گئے اور کچھ اپنے حق میں آواز اٹھانے پر پھانسی چڑھا دیے گئے۔ یکم مئی کوانہیں مزدوروں کی یاد میں بہت کچھ کیا جاتا ہے، شعراء مختلف کلام لکھتے ہیں، مزدوروں سے یکجہتی دکھائی جاتی ہے، انہیں یہ احساس کرایا جاتا یہ کہ ہے ہم ان کے ساتھ ہیں، مزدوروں کے معاشی حالات جب تک ٹھیک نہ ہوں گے، ہم احتجاج کرتے رہیں گے۔ اب دیکھئے کہ یہ ہمیشہ ہی ہوتا رہے گا، ہر سال، مگر یہ دن آکر چلا جایا کرے گا اور تاریخی جدوجہد کو یاد رکھا جائے گا۔ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے پیمانہ پر کہ مزدوروں کے دن ابھی پھرے نہیں ہیں۔ وہی تیشہ وکدال ان کے ہاتھ میں ہے جو وہ ہمیشہ سے اٹھاتے رہے ہیں۔ بقول ممتاز شاعرہ ظل ہما نقوی کے کہ
چلے تھے فکر معاش حلال اٹھائے ہوئے
وہ جن کے جھک گئے شانے کدال اٹھائے ہوئے
کارل مارکس بھی محنت کش طبقے کے حالات پر ہمیشہ کڑھتا رہا، جس بدحالی اور معاشی نظام کے خلاف اس نے آواز اٹھائی اس حالت میں بہتری کی کوئی رمق نظر نہ آئی۔ حیرت ہے کہ کارل مارکس کےدور سے زیادہ محنت کش طبقے کے اب زیادہ برے حالات ہیں اور بدترین طرز زندگی ہے۔تو کارل مارکس کی پیدائش5 مئی1818ء کو معروف شہر پروشیا کی ہے اور5مئی ہی کو مڈوائیوز کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ بھی محنت کش طبقہ ہے اور آئے روزاپنے حقوق کی جنگ لڑتا رہتا ہے۔ اگر کارل مارکس آج زندہ ہوتے تو مزدور خواتین کے اس پیشے کی طرف بھی دھیان دیتے اور ان کے حقوق کی پامالی نہ کرنے دیتے۔ پھر تو یکم مئی کے علاوہ5مئی کو بھی نرسز اور مڈوائیوز کا دن جوش و خروش سے منایا جاتا۔ اب بھی منایا جاتا ہے یہ دن مگر مڈ وایوز اور نرسز کی محنت پر بات زیادہ کی جاتی ہے۔ ان کی خدمات کو ضرور سراہا جاتا ہے۔ مگر ان کے کسی حقوق پر دھیان کم ہی دیا جاتا ہے۔ ان کے احتجاج پر مذاکرات بہت مشکل سے کیے جاتے ہیں۔ دائیوں اور نرسز کی ہڑتال طول پکڑ جاتی ہے تو جاری ہی رہتی ہے مگر جب مریضوں کی دیکھ بھال میں تعطل پیدا ہوجائے تو پھر ان کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ اب ان کے بھی مطالبات سن لیے جائیں۔ اس قدر حساس نوعیت کی خدمت کرنے والا طبقہ جو خدا کی مخلوق کو دنیا میں سانس دلانا اور پیدا کرنا ہے خدا کی مرضی سے وہی طبقہ اب بس یکم کی طرح5مئی کو اپنی خوش قسمتی کے عالمی دن کو مناتا ہے اور کارل مارکس کو بتاتا ہے کہ تم بھی5مئی کو پیدا ہوئے ہو، تمہیں بھی کسی دائی نے ہی تمہاری ماں کے بطن سے نکالنے میں مدد کی ہوگی۔تو5مئی کا یہ اتفاق بہت دلچسپ ہے کہ مڈوائیوز کا عالمی دن اور کارل مارکس کی پیدائش کا دن!۔