کسان کو عزت دو

May 05, 2024

گندم کسانوں کیلئے سب سے بڑی نقد آور فصل ہے جس کی کٹائی سے پہلے پنجاب میں بیساکھی کا روایتی تہوار منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار کسانوں کی ان خوشیوں اور امیدوں کا مظہر ہوتا ہے جو گندم کی فصل سے وابستہ ہوتی ہیں۔ تاہم اس سال کسانوں کیلئے یہ تہوار کسی خوشی کا باعث ثابت نہیں ہوا کیونکہ بیساکھ کا پنجابی مہینہ شروع ہوتے ہی بارشیں شروع ہو گئیں جو تاحال وقفے وقفے سے جاری ہیں۔ اس سے جہاں گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی آئی ہے وہیں فصل کی کٹائی کا عمل بھی متاثر ہوا ہے کیونکہ گندم کی کٹائی سے پہلے اسے سخت دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بار بار ہونے والی بارشوں کے باعث گندم کی کھڑی فصلیں خراب ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف حکومت بھی رواں سال گندم کی خریداری میں وہ دلچسپی نہیں دکھا رہی ہے جو کہ گزشتہ برسوں میں نظر آتی تھی۔

اس وقت جہاں ایک طرف موسمیاتی تبدیلی زراعت کے شعبے کو شدید متاثر کر رہی ہے وہیں دوسری طرف حکومتی پالیسیاں بھی اس شعبے کو سپورٹ کرنے کی بجائے اسے مزید مشکلات کا شکار کر رہی ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال حکومت نے کسانوں کے گھروں اور کھیتوں پر چھاپے مار کر زبردستی سرکاری ریٹ پر گندم ضبط کر لی تھی لیکن اس سال صورتحال یہ ہے کہ گندم کے کاشتکاروں کو حکومت کی طرف سے باردانہ بھی فراہم نہیں کیا جا رہا ۔ ان حالات سے مجبور ہو کر کسانوں نے گندم کی فروخت کیلئے غلہ منڈیوں کا رخ کر لیا ہے لیکن وہاں بھی گندم کی قیمت میں روز بروز کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت کی ان استحصالی پالیسیوں کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والے کسانون کو تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ گرفتار کرکے تذلیل کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے کسان سخت مایوسی کا شکار ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ انہیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اپنی ہی مقرر کردہ امدادی قیمت پر خریداری نہ کرکے گندم کی ریکارڈ پیداوار کو کسانوں کیلئے زحمت بنا دیا ہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ چند ماہ کے دوران بڑی مقدار میں بیرون ملک سے درآمد کی گئی اضافی گندم نے بھی اوپن مارکیٹ میں گندم کی مانگ میں کمی کی ہے۔ اس وجہ سے نہ تو حکومت گندم کی خریداری میں سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور نہ ہی آڑھتی یا فلور مالکان کسانوں سے حکومت کی مقرر کردہ امدادی قیمت پر گندم خریدنے کے لئے تیار ہیں۔ واضح رہے کہ رواں سال گندم کی کٹائی شروع ہونے سے پہلے تک حکومت کے پاس چالیس لاکھ ٹن سے زائد گندم کے ذخائر موجود تھے۔ علاوہ ازیں نگران حکومت کے دور میں نجی شعبے کے ذریعے ایک ارب ڈالر مالیت کی 34 لاکھ ٹن اضافی گندم بیرون ملک سے درآمد کی گئی جو کہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 36 فیصد زیادہ ہے۔ اس طرح گندم کی نئی فصل آنے سے قبل ملک میں تقریبا 74 لاکھ ٹن سے زائد گندم موجود تھی جبکہ رواں سال گندم کی پیداوار کا تخمینہ 30 ملین ٹن سے زیادہ ہے۔ اگرچہ گندم کی اس پیداوار کو ایک ریکارڈ قرار دیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ پیداوار پاکستان کی ضرورت سے کم ہے۔ اس لئے گندم کی خریداری کے حوالے سے حکومتی رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

علاوہ ازیں نگران حکومت کی طرف سے گندم کی اچھی پیداوار کے باوجود نجی شعبے کو ایک ارب ڈالر سے زائد کی اضافی گندم درآمد کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ بھی شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔ واضح رہے کہ درآمدی گندم آنے سے قبل اوپن مارکیٹ میں گندم کی فی من قیمت چار ہزار روپے سے زیادہ تھی۔ تاہم جب پنجاب کے محکمہ خوراک نے فلور ملز کو گندم کا اجراروک دیا تو اس قیمت میں مزید اضافہ ہو گیا جس کا تمام تر فائدہ بیرون ملک سے سستے داموں گندم درآمد کرنے والوں نے اٹھایا ۔ یہ حالات ان شکوک شبہات کو تقویت دیتے ہیں کہ گندم کی نئی فصل کی آمد سے قبل بیرون ملک سے گندم کی درآمد کے فیصلے کے پیچھے کسی نہ کسی نے ناجائز منافع کمایا ہے۔ ایسے میں موجودہ حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس اسکینڈل کی انکوائری کر کے ذمہ دار عناصر کو عوام کے سامنے بے نقاب کرے اور ان کی جیبوں میں جانے والے ناجائز منافع کو ضبط کر کے کسانوں کو براہ راست سبسڈی دے۔

اگر حکومت زراعت کے شعبے اور کسان کو مزید تباہی سے بچانا چاہتی ہے تو اس کا فوری حل یہی ہے کہ حکومتی سطح پر فوری طور پر گندم کی خریداری شروع کی جائے تاکہ کسانوں کو ان کی محنت کا پورا معاوضہ مل سکے۔ علاوہ ازیں ارباب اقتدار کو یہ بات بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ رواں سال گندم کی اچھی پیداوار کے باوجود ملک میں گندم کے اتنے ذخائر موجود نہیں ہیں کہ اگلی فصل آنے تک مقامی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ اس لئے اگر سرکاری طور پر کسانوں سے گندم نہ خریدی گئی تو کسانوں سے اونے پونے گندم خریدنے والا مافیا چند ماہ بعد یہی گندم مہنگے داموں فروخت کرکے دگنا منافع کمائے گا اور آج روٹی سستی کرنے کا کریڈٹ لینی والی حکومت کو اپنی ساکھ بچانے کے لئے بھاری زرمبادلہ خرچ کر کے بیرون ملک سے گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ اس لئے اگر آج ہم اپنے کسان کی عزت نفس اور حقوق کا خیال رکھیں گے تو کل کو یہی کسان ناصرف ملک کو زرعی شعبے میں خودکفیل بنائیں گے بلکہ اضافی پیداوار کے ذریعے زرعی اجناس کی برآمد سے ملک کو زرمبادلہ بھی کما کر دیں گے۔