فلم ’’آرٹیکل‘‘ 370 اور پاکستانیوں کا مایوس کن کردار

May 06, 2024

حال ہی میں ریلیز ہونے والی انڈین فلم "آرٹیکل"370" اگرچہ بے شمار مغلظات پر مبنی ہے لیکن BJPسرکار کی سرپرستی اور حکم پر بنائی جانے والی اس فلم نے پاکستان کے کردار کے بارے میں کئی سوالات چھوڑے ہیں جس کی وضاحت تا حال پاکستان میں موجود ان کشمیر دشمن قوتوں کی جانب سے سامنے نہیں آئی جن کا رویہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے منفی نکتۂ نظر رکھنےکے مترادف تھا۔"آرٹیکل"370 میں بھارت کے زیر تسلط وادئ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ثابت کرنے کے لئے تمام تر ریاستی وسائل کے ساتھ فوجی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور زیر قبضہ کشمیریوں کو اطاعت پر مجبور کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں لیکن مقبوضہ ریاست کے کشمیریوں نے جدوجہد آزادی جاری رکھتے ہوئے بھارت کا تسلط قبول کرنے انکار کردیا تو بھارت طاقت کے ساتھ سیاسی اور سفارتی شعبدہ بازیوں کے علاوہ اسلام دشمن قوتوں کے تعاون سے حکومت پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک کی زبان بندی کی ڈیل کرنے میں کامیاب ہوا اور آرٹیکل 367 کی فرضی تشریح کے ذریعے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا اختیار صدر کو تفویض کر دیا اور راتوں رات بھارتی زیر تسلط کشمیری عوام کو حق خوداختیاری سے محروم کردیا اور پاکستان کی حکومت وقت سمیت بعض عالمی طاقتوں کی سازش کی بنیاد پر مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ ہونے کا نظریہ درست ثابت کرتے ہوئے کشمیریوں کی حق خودارادیت کی 75سالہ جدوجہد آزادی کے دوران ہزاروں جانوں کی قربانیوں کو رائیگاں کرنے کی کوشش کی لیکن کشمیری عوام نے اس سازش کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔فلم "آرٹیکل"370 میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کو آئینی طور پر دئیے جانے والےحق خود اختیاری کے قانون کو غیر آئینی طور پر منسوخ کرنے کی صورت میں مختلف اطراف سے پیدا ہونے والے خطرات یا ردعمل کے امکانات اور خدشات اور ان کے توڑ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا جس میں اندیشہ ظاہر کیا گیا کہ سب سے زیادہ ردعمل پاکستان کی حکومت کی جانب سے آئے گا یہاں تک کہ اس خدشہ کا اظہار بھی ہوا کہ پاکستان جو خطے کی بڑی جوہری قوت ہے، تیسری عالمی جنگ کاآغاز کر سکتا ہے جس میں ایٹمی ہتھیاروں کااستعمال بھی ہوسکتا ہے لیکن بھارت کا یہ خدشہ اس وقت صرف اندیشہ ہی رہا جب اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کے اس غاصبانہ فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کرنے یا بھارت کے خلاف عالمی تحریک شروع کرنے کی بجائے صرف "مجرمانہ خاموشی" اختیار کرنے کو ترجیح دی بلکہ اس "خاموشی" کی شکل میں مودی کی حمائت کا "اعلان" کرتے ہوئے 5 اگست 2019 کو کشمیریوں کی حق خود ارادیت کے خاتمے کی "تصدیق" کر کے پاکستان دشمنوں کو خوش کردیا لیکن 75 برسوں سے پاکستان پر آس لگائے، آزادی کی جنگ لڑنے والے کشمیریوں کے سر شرم دے جھکا دئیے۔نرندر مودی اس کامیابی کو"گریٹر انڈیا" کے منصوبے کی جانب پہلا قدم قرار دے رہا ہے۔پاکستانی ریاست کو تحریک انصاف کی غلط اور ریاست دشمن پالیسیوں کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی دہشتگردی کے سبب ملکی سلامتی کو سنگین خطرات کا سامنا ہے۔دہشتگردی کے واقعات میں جومنفرد انداز دیکھنے میں آیا ہے وہ بلا اشتعال صرف پولیس کو نشانہ بنانا ہے، پورے ملک میں درجنوں ایسے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں جن میں چیک پوسٹوں یا گزرتے ہوئے باوردی پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔یہ صورتحال خطرناک شکل اس لئے اختیار کر رہی ہے کہ تحریک طالبان یا افغانستان میں پڑاؤ لگائے ہوئے دوسرے دہشتگرد گروپس پاکستان سے کسی دشمنی کا بدلہ لینے کے لئے جہاد کے نام پر باقاعدہ پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کرنے کا منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔گزشتہ ہفتے افغانستان کے بارڈر سے ایک وڈیو وائرل کی گئی جس میں کم و پیش دو سو مسلح دہشتگردوں کا گروپ پاکستان کی سرحد عبور کرتے ہوئے وڈیو بنانے والے کو بتارہا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف جہاد کرنے جارہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کون ہیں یہ دہشتگرد جو پاکستان کے خلاف جہاد کے نام پر قومی سلامتی کو چیلنج کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں اور اس ملک کےخلاف کیوں ایسا کرنا چاہتے ہیں جو اپنے عوام کے وسائل کاٹ کر افغانوں کو دیتا ہے اور بدلے میں اپنے اور اپنے عوام کےلئے مسائل پیدا کرتا ہے۔احسان کا بدلہ احسان سے نہیں دے سکتے تو اس ملک کا امن و امان تباہ کرنے کا سبب نہ بنیں۔لیکن یہ "جہاد" تحریک انصاف کے اس منصوبے کا حصہ ہو سکتا ہے جس کااعلان وزیر اعلیٰ خیبرپختونخواء علی امین گنڈاپور کئی بار اسلام آباد پر چڑھائی کرنے اور فتح کرنے کی دھمکی کی صورت میں کرچکے ہیں۔کیونکہ یہ دہشتگردی تنظیموں کے وہی گروہ ہیں جنہیں پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے جیلوں سے نکال کر ملک کے طول و ارض میں پھیلا دیا گیا تھا۔