فلسفہ قربانی، تصورِ عیدالاضحیٰ

June 16, 2024

’’عیدالاضحیٰ‘‘ حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ اور اُن کے عظیم فرزند، سیّدنا اسمٰعیلؑ کے مثالی جذبۂ اطاعت، تسلیم و رضا، جاں نثاری و فدا کاری کی علامت اور اُس تاریخ ساز قربانی کی یادگار ہے، جو اُنہوں نے اللہ کی راہ میںپیش کی اور اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کی تائید و تصدیق خود اللہ عزّوجل نے اپنے ارشاد ’’وفدیناہُ بِذبحٍ عظیم‘‘ کے ذریعے کہ ’’ہم نے ایک بڑی قربانی کو اُن کا فدیہ بنا دیا۔‘‘ تورات اور قرآنِ کریم دونوں سے یہ ثابت ہے کہ ملّتِ ابراہیمی ؑ کی حقیقی بنیاد قربانی تھی۔

یہی قربانی حضرت ابراہیمؑ کی پیغمبرانہ اور رُوحانی زندگی کی خصوصیت تھی،اسی امتحان اور آزمائش میں پورا اُترنے کے سبب وہ اور اُن کی اولاد ہر قسم کی نعمتوں اور برکتوں سے مالا مال کی گئی، چناںچہ تورات کی کتابِ پیدائش (22، 16تا 18) میں ہے،’’خدا وند فرماتا ہے، ’’اس لیے کہ تُونے ایسا کام کیا اور اپنا بیٹا، ہاں، اپنا اکلوتا بیٹا، دریغ نہ رکھا، مَیں نے قسم کھائی کہ میں برکت دیتے ہی تجھے برکت دوں گا۔‘‘

حضرت ابراہیمؑ کی پوری زندگی اللہ کی راہ میں ہجرت، دین پر استقامت اور عظیم قربانیوں سے عبارت ہے۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیمؑ کا یہ جذبۂ ایمانی اس قدر پسند آیا کہ اسے ایمان کا حقیقی معیار قرار دیا، یہی جذبہ ہر دَور کا ایمانی معیار اور ہر عہد کی کسوٹی ہے۔ دین کی دعوت، عقیدۂ توحید کی عظمت اور بُت شکنی کی پاداش میں آپ کو بادشاہِ وقت، نمرود نے آگ میں ڈال دیا، لیکن آپؑ استقامت کے ساتھ دین کی عظمت اور عقیدۂ توحید کی سربلندی کے لیے پوری طرح حق پر ثابت قدم رہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان جاری ہُوا :’’ہم نے حکم دیا کہ اے آگ، سرد ہوجا اور ابراہیمؑ پر (مُوجب) سلامتی بن جا۔‘‘(سُورۃ الانبیاء، 69)۔

شاعرِ مشرق ، علامہ محمداقبالؔ نے اس حقیقت کی ترجمانی کرتے ہُوئے کیا خوب کہا ہے ؎ آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا.....آگ کرسکتی ہے اندازِ گُلستاں پیدا۔ قرآنِ پاک میں ایک موقعے پر فرمایا گیا:(ترجمہ) ’’اور جب ابراہیمؑ کے پروردگار نے چند باتوں میں اُن کی آزمائش کی، تو پھر اُنہوں نے اسے پورا کیا، تواللہ نے اُن سے کہا کہ میں تمہیں لوگوں کے لیے پیشوا بنانے والا ہوں۔‘‘ (سُورۃ البقرہ؍ 124)۔

مزید ارشاد فرمایا :’’اور ہم نے ابراہیمؑ کو دنیا میں چُنا اور وہ آخرت میں یقیناً نیکوکاروں میں سے ہیں، جب اُن کے خدا نے اُن سے کہا کہ خود کو سپردکردو، تو انہوں نے کہا، مَیں نے اپنے آپ کو دنیا کے پروردگارکے سپردکردیا۔‘‘’’سُورۃ النحل‘‘ میں فرمایا گیا:’’بے شک، ابراہیمؑ لوگوں کے امام (اور) اللہ کے فرماں بردار تھے، جو ایک طرف کے ہورہے تھے، اور مشرکوں میں سے نہ تھے،اُس کی نعمتوں کے شُکرگزار تھے، اللہ نے اُنہیں برگزیدہ کیا تھا، اور اپنی سیدھی راہ پر چلایا تھا، اور ہم نے انہیں دنیا میں بھی خُوبی دی تھی اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوںگے۔‘‘(سُورۃ النحل؍ 120تا122)۔

یہ ایک تاریخی اور ابدی حقیقت ہے کہ مقرّبینِ بارگاہِ الٰہی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ وہ نہیں ہوتا، جو عام انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے، انہیں امتحان اور آزمائش کی سخت سے سخت منزلوں سے گُزرنا اور قدم قدم پر جاں نثاری اور تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔

حضرت ابراہیمؑ بھی چوںکہ اللہ کے جلیل القدر پیغمبر اور نبی تھے،اس لیے انہیں بھی مختلف امتحانات اور آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا، وہ اپنی جلالتِ قدر کے لحاظ سے ہر مرتبہ امتحان اور آزمائش میں کامل ثابت ہُوئے، جب انہیں نمرودکے حُکم سے آگ میں ڈالا گیا، تو اُس وقت جس صبر و رضا کا انہوں نے ثبوت دیا اور جس عزم و استقامت کو پیش کیا، وہ ان ہی کا حصّہ تھا، اس کے بعد جب حضرت اسمٰعیلؑ اور حضرت ہاجرہؑ کو فاران کے بیابان میں چھوڑنے کا حکم ملا، تو وہ بھی معمولی امتحان نہ تھا، کڑے امتحان اور سخت آزمائش کا مرحلہ تھا، بُڑھاپے اور پیرانہ سالی کی دُعائوں اور تمنّائوں کے مرکز، راتوں اور دنوں کی دُعائوں کے ثمر، قلب و نظر کے چشم و چَراغ، حضرت اسمٰعیلؑ کو آپ صرف حُکمِ الٰہی کی تعمیل میں ایک بے آب و گیاہ مقام پر چھوڑ آتے ہیں،اور پیچھے مُڑکر بھی نہیں دیکھتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شفقتِ پدری جوش میں آجائے اور حکمِ ربّانی کی تعمیل میں لغزش ہوجائے۔

ان دونوں کٹھن منزلوں کو عبورکرنے کے بعد اب تیسری آزمائش اور سب سے کٹھن امتحان کی تیاری ہے، جو پہلے دونوں امتحانوں سے زیادہ سخت اور جاںگسل ہے۔حضرت ابراہیمؑ مسلسل تین رات یہی خواب دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’اے ابراہیمؑ! تُو ہماری راہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کردے۔‘‘

’’حضرت ابراہیمؑ ،اللہ کے جلیل القدر پیغمبر اور تسلیم و رضا کے پیکر تھے، لہٰذا وہ اطاعت و رضا کا پیکر بن کر تیار ہوگئے کہ اللہ کے حکم کی فوری تعمیل کریں، تاہم، چوںکہ یہ معاملہ اُن کی اپنی ذات سے وابستہ نہ تھا، بلکہ اس امتحان اور آزمائش کا دوسرا جُزو، وہ بیٹا تھا، جس کی قربانی پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا، لہٰذا باپ نے اطاعت شعار اور فرماں بردار بیٹے کو اپنا خواب اور اللہ کا حکم دونوں سُنائے، حضرت اسمٰعیلؑ ،حضرت ابراہیمؑ جیسے اولوالعزم، ثابت قدم، عزیمت و استقامت، تسلیم و رضا اور اطاعتِ ربّانی کے پیکر، عظیم المرتبت ا ور جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیمؑ کے فرزند تھے، لہٰذا فوراً انہوں نے سرِ تسلیم خم کردیا اورکہا کہ اگر اللہ کی یہی مرضی ہے، تو آپ اِن شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‘‘ (مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، قصص القرآن، جِلد اوّل 164، مطبوعہ دارالاشاعت، کراچی)۔

قرآنِ کریم میں اس واقعے کا ذکر اس طرح آیا ہے:’’جب وہ (اسمٰعیلؑ) ان کے ساتھ دوڑنے (جوانی کی عمر) کو پہنچے، تو ابراہیمؑ نے کہا کہ بیٹا! مَیں خواب میں دیکھتا ہُوں کہ (گویا) تمہیں ذبح کررہا ہوں، تم بتائو کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے(اسمٰعیلؑ نے) کہا کہ ابّا جان،آپ کو جو حکم ہُوا ہے، وہی کیجیے، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبرکرنے والوں میں پائیںگے۔‘‘

جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بَل لٹادیا، تو ہم نے انہیں پکارا کہ اے ابراہیمؑ! تم نے اپنے خواب کو سچّا کردکھایا، ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں، بِلاشبہ، یہ صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ بنادیا اور بعد میں آنے والوں میں ابراہیمؑ کا ذکرِ خیر (باقی) چھوڑ دیا کہ ابراہیمؑ پر سلام ہو، ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔‘‘(سُورۃ الصّافات102تا 110)۔

علّامہ سیّد سلیمان ندوی کیا خُوب لکھتے ہیں:’’یہ قربانی کیا تھی؟ یہ محض خون اور گوشت کی قربانی نہ تھی، بلکہ رُوح اور دل کی قربانی تھی۔‘‘ یہ ماسویٰ اللہ اور غیر کی محبّت کی قربانی، اللہ کی راہ میں تھی، یہ اپنی عزیز ترین متاع کو اللہ رب العزت کے سامنے پیش کردینے کی نذر تھی، یہ اللہ کی اطاعت، عبودیت اور کامل بندگی کا بے مثال منظر تھا، یہ تسلیم و رضا اور صبر و شُکر کا وہ امتحان تھا، جسے پورا کیے بغیر دنیا کی پیشوائی اور آخرت کی نیکی نہیں مل سکتی، باپ کا اپنے اکلوتے بیٹے کے خون سے زمین کو رنگین کردینا، نہ تھا، بلکہ اپنے رب کے سامنے اپنے تمام جذبات، خواہشوں، تمنّاؤں اور آرزوؤں کی قربانی تھی، اللہ کے حکم کے سامنے اپنے ہر قسم کے ارادے اور مرضی کو معدوم کردینا تھا، جانورکی ظاہری قربانی اُس اندرونی نقش کا ظاہری عکس اور اس خورشیدِ حقیقت کا ظلِّ مجاز تھا۔(سیّد سلیمان ندوی / سیرت النبیؐ 201/5 )۔

حقیقت بھی یہ ہے کہ ’’قربانی‘‘ دراصل وہ ذبحِ عظیم ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیلؑ کا فِدیہ قرار دیا تھا، لہٰذا اللہ کی راہ میں جانور قربان کرنا درحقیقت اپنے آپ کو قربان کرنے کا قائم مقام ہے۔ یہ اس بات کا خاموش اقرار ہے کہ ہماری جان اللہ کی راہ میں نذر ہوچکی ہے، اور وہ جب اسے طلب کرے گا‘ ہم بِلاتامّل پیش کردیںگے۔

اسلام کے لفظی معنیٰ اپنے آپ کو سپردکردینا اور اطاعت و بندگی کے لیے گردن جُھکا دینا ہے، یہی وہ حقیقت ہے جو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ کے اس ایثار اور قربانی سے ظاہر ہوتی ہے۔ انسانی تاریخ کے آغاز ہی سے قربانی کا ثبوت ملتا ہے، چناں چہ انسانِ اوّل‘ حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی کا ذکر قرآن میں کچھ اس طرح ہے:’’اور سُنا دیجیے، انہیں حال آدمؑ کے دو بیٹوں کا سچّا، جب کہ اُن دونوں نے قربانی پیش کی، تو اُن میں سے ایک کی قبول ہُوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی، تو اُس (قابیل) نے کہا، مَیں تجھے ضرور قتل کردوں گا، اُس (ہابیل) نے کہا کہ بے شک‘ اللہ تو پرہیزگاروں ہی سے قبول فرماتا ہے۔‘‘ (سُورۃ المائدہ، 27)۔

الہامی اور غیر الہامی کم و بیش تمام مذاہب اور معاشروں میں’’قربانی‘‘ کا تصوّر ملتا ہے، تاہم یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی قربانی پوری انسانی تاریخ میں ایک منفرد اور بلند مقام رکھتی ہے، تاریخ کے اوراق اس عظیم قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔

قرآنِ کریم نے’’وفدیناہُ بِذبحٍ عظیم‘‘ ہم نے اسمٰعیلؑ کا فدیہ ایک عظیم قربانی بنادیا، ارشاد فرما کر اس قربانی کی عظمت اور قبولیت کا اعلان کیا، اسے عبادت اور قُربِ الہٰی کا ذریعہ قرار دیا۔ خاتم الانبیاء، سرورِکائنات حضرت محمد صلّی اللہُ علیہِ وآلہٖ وسلّم کی اُمّت میں بھی اس عظیم جذبے اور حضرت ابراہیمؑ کی سنّت کو عبادت کا درجہ عطا کیا گیا۔

چناںچہ صحابیِ رسولؐ حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ سے بعض صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا، ’’یارسول اللہؐ ان قربانیوں کی حقیقت اور تاریخ کیا ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا، ’’یہ تمہارے (رُوحانی اور نسلی) مورث، حضرت ابراہیمؑ کی سُنّت ہے۔‘‘

صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا، ’’یا رسول اللہؐ! ان قربانیوں میں ہمارے لیے کیا اجر ہے؟‘‘ رسول اکرمؐ نے فرمایا، ’’قربانی کے ہر جانورکے بال کے عوض ایک نیکی ہے۔‘‘ (مسندِ احمد‘ سنن ابنِ ماجہ)۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا،’’ذی الحّجہ کی دسویں تاریخ کو (یعنی عیدالاضحیٰ کے دن) فرزندِ آدم کا کوئی عمل اللہ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں، اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کُھروں کے ساتھ زندہ ہوکر آئے گا، اور قربانی کا خون زمین پرگرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے، پس، اے خدا کے بندو! دل کی پوری رضا اور خوشی سے قربانی کیا کرو۔‘‘ (جامع ترمذی‘ سنن ابنِ ماجہ)۔

’’قربانی‘‘درحقیقت ایک عظیم عبادت ہے۔اسلام کے نظامِ عبادات کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کے اس نظام کا اصل مقصد اسلام کا مطلوب انسان تیارکرنا ہے۔ یہ انسان کو اس ذمّے داری کے لیے تیارکرتی ہے، جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہمارے سپردکی ہے، یہ سیرت و کردار کی تعمیرکرتی، روحانی ترقّی اور اَخلاقی بالیدگی کی راہ ہم وارکرتی ہے، چناںچہ عبادت کا اصل مقصد یہ ہے کہ نفس کا تزکیہ ہو، تقویٰ کی رُوح پیدا ہو، اللہ سے تعلّق اُستوار ہو اور اللہ کی اطاعت، اُس کی محبّت، اُس کی بندگی ہر شے پر غالب آجائے‘ نفس کی اصلاح کے بغیرکوئی اصلاح ممکن نہیں اور نفس کی اصلاح کا حقیقی اور مؤثر ترین طریقہ وہ عبادات ہیں، جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر کی ہیں۔

یہ دراصل اس عہد کی تجدید بھی ہے کہ ہمارا جینا،مرنا درحقیقت پوری زندگی اللہ کے لیے ہے۔ زندگی کا مقصد اللہ کی بندگی ہے اور اس بندگی کے اظہار میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنا ہی ہماری زندگی اور بندگی کا شیوہ ہے، ہم مسلمان اس لیے ہیں کہ ہماری پوری زندگی تسلیم و رضا سے عبارت ہے۔اللہ اور اُس کے رسولؐ کی کامل اطاعت، تسلیم و رضا کا اظہار ہی درحقیقت ایمان کا تقاضا اور بندگی کی حقیقی علامت ہے۔

قرآن ِکریم میں ارشادِ ربّانی ہے :’’اللہ تک نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اُس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔‘‘ (سُورۃ الحج / 37)۔ تسلیم و رضا‘ اعترافِ بندگی اور تقویٰ و پرہیزگاری قربانی کی حقیقی رُوح ہیں، تقویٰ ہی وہ عظیم رُوحانی جذبہ ہے، جو بندگی کا حاصل اور تمام اسلامی عبادات کا جُزو ہے۔

ضرورت اس امَرکی ہے کہ قربانی کی حقیقی رُوح کو سمجھتے ہُوئے سنّتِ ابراہیمی ؑ کی پیروی میں ہم اپنے اندر وہ جذبہ پیدا کریں کہ دین کی عظمت و سربلندی، اسلام کی ترویج و اشاعت، اسلام کی بقا، اُمّتِ مسلمہ کے اتحاد و یگانگت، ملک و ملّت کی سلامتی اور اسلامی اقدارکے تحفّظ کے لیے ہم کسی قربانی سے دریغ نہیں کریںگے۔

دین کی عظمت و سربلندی کے لیے اپنا تن، مَن، دَھن سب کچھ قربان کردیںگے۔ یہی درحقیقت عیدالاضحیٰ کا حقیقی پیغام اور سُنّتِ ابراہیمی کا حقیقی تقاضا ہے۔ مختصر یہ کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ اور اُن کے اطاعت شعار اور فرماں بردار فرزند، حضرت اسماعیل ذبیح اللہؑ کی یہ قربانی پوری انسانی تاریخ میں ایک ممتاز اور منفرد مقام کی حامل ہے، یہاں تک کہ تاریخِ عالم کے اوراق اس عظیم قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔