برطانیہ کے امیر ترین خاندان ’’ہندوجا‘‘ کو انسانی اسمگلنگ کے الزام کا سامنا، ملازمین سے زیادہ اپنے کتے پر خرچ کرتے ہیں

June 23, 2024

لندن (جنگ نیوز) برطانیہ کے امیرترین خاندان ہندوجا فیملی کے چار افراد کو جنیوا میں عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ اپنے گھریلو ملازمین سے زیادہ اپنے کتے کی دیکھ بھال پر پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ہندوجا خاندان کو سوئٹزرلینڈ میں نوکروں کے استحصال اور انسانی اسمگلنگ کے الزامات کا سامنا ہے۔ انسانی اسمگلنگ سوئٹزرلینڈ میں ایک سنگین جرم ہے۔ ہندوجا خاندان خود پر لگے الزامات کی تردید کرتا ہے۔ پچھلے ماہ جاری ہونے والی سنڈے ٹائمز کی برطانیہ کے امیرترین افراد کی فہرست میں ارب پتی ہندوجا خاندان لگاتار تیسرے سال سرفہرست رہا ہے۔ سال 2023میں اس خاندان کی دولت تقریباً دو ارب پاونڈ اضافے کے ساتھ 37.196ارب پاؤنڈ (47ارب ڈالرز) تک پہنچ گئی ہے۔ جنیوا کے پوش علاقے کولونی میں ہندوجا خاندان کی ایک کوٹھی ہے۔ ان کے خلاف لگے تمام الزامات کا تعلق بچوں اور گھر کی دیکھ بھال کی غرض سے انڈیا سے گھریلو ملازمین کو درآمد کرنے کے عمل کے حوالے سے ہے۔ پرکاش اور کمل ہندوجا اور ان کے بیٹے اجے اور ان کی اہلیہ نمرتا پر گھریلو ملازمین کے پاسپورٹ ضبط کرنے، ان سے روزانہ کی بنیاد پر 18گھنٹوں تک کام لینے کے عوض محض آٹھ ڈالر (سات پاؤنڈ) ادا کرنے اور اور انھیں گھر سے باہر نکلنے کی بہت کم آزادی دینے کے الزامات ہے۔ اگرچہ ملازمین کے استحصال کے معاملے پر پچھلے ہفتے مالی تصفیہ طے پا چکا ہے تاہم اس کے باوجود ہندوجا فیملی کے خلاف انسانی اسمگلنگ کا معاملہ زیرِ سماعت ہے۔ رواں ہفتے ہونے والی سماعت کے دوران جنیوا کے مشہور پبلک پراسیکیوٹر یوویز برٹوسا نے ہندوجا خاندان کی جانب سے اپنے ملازمین کو دی جانے والی اجرت کا موازنہ ’’خاندان کے کتے پر ہونے والے خرچ‘‘ سے کیا۔ مبینہ طور پر ہندوجا خاندان اپنے کتے پر سالانہ 10ہزار ڈالر تک خرچ کرتے ہیں۔ ہندوجا خاندان کے وکلا نے کم اجرت کے الزامات کی تردید نہیں کی تاہم ان کا کہنا ہے کہ اسے سیاق و سباق کے ساتھ دیکھنا چاہئے اور اس بات کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ گھریلو ملازمین کو رہائش اور کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ انھوں نے ملازمین سے طویل گھنٹوں تک کام لینے کے الزام کی بھی تردید کی ہے۔ خاندان کی جانب سے پیش ہونے والے ایک وکیل نے دلیل دی کہ ہندوجا فیملی کے بچوں کے ساتھ فلم دیکھنے کو کام نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اپنے دفاع میں ہندوجا خاندان کی جانب سے کچھ سابق ملازمین کو بھی عدالت میں بطورِ گواہ پیش کیا گیا۔ ان سابق ملازمین نے ہندوجا خاندان کا رویہ دوستانہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خاندان کے افراد اپنے گھریلو ملازمین کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ ہندوجا خاندان پر ملازمین کے پاسپورٹ ضبط کرنے اور بغیر اجازت گھر سے باہر نہ جانے دینے کے الزامات کافی سنگین ہیں اور یہ انسانی سمگلنگ کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔ یوویز برٹوسا، ہندوجا فیملی کے اراکین کے لیے قید اور لاکھوں ڈالر کے معاوضے کے ساتھ ساتھ قانونی فیس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ بین الاقوامی تنظیموں اور دنیا کے امیر ترین افراد کا مرکز سمجھے جانے والا جنیوا شہر نوکروں کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کی وجہ سے خبروں کی زینت بنا ہے۔ 2008میں لیبیا اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان سفارتی تنازع اس وقت پیدا ہوگیا تھا جب جنیوا کی پولیس نے اس وقت لیبیا کے آمر معمر قذافی کے بیٹے ہنیبل قذافی کو ایک فائیو سٹار ہوٹل سے گرفتار کر لیا۔ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ ہنیبل اور ان کی اہلیہ اپنے ملازمین کو پیٹتے ہیں۔ تاہم یہ مقدمہ بعد میں خارج کر دیا گیا تھا لیکن اس کے نتیجے میں سوئٹزرلینڈ اور لیبیا کے درمیان سفارتی تنازع پیدا ہوگیا اور جوابی اقدام کے طور پر لیبیا کے حکام نے طرابلس میں دو سوئس شہریوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ پچھلے سال فلپائن سے تعلق رکھنے والے چار گھریلو ملازمین نے اقوام متحدہ میں جنیوا کے سفارتی مشن میں سے ایک کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انھیں برسوں سے تنخواہ نہیں دی گئی ہے۔ ہندوجا کے خلاف جاری ہائی پروفائل کیس ایک بار پھر امن کا شہر کہلائے جانے والے جنیوا کے تاریک اور بدصورت پہلو کی طرف توجہ مبذول کرائے گا۔