و کل انسان الزمنہ طٰئِرہ فی عنقہ

June 23, 2024

تحریر:ڈاکٹر نعمان برلاس۔نیوکاسل
خبر میرے لئے حیران کن تھی۔ صبح سویرے بی بی سی نیوز پر بلیوں کی مائیکرو چپنگ سے متعلقہ برٹش اسمبلی کے پاس کردہ نئے قانون کی تفصيلات بیان کی جا رہی تھیں۔یعنی کتوں کی طرح بلیوں کی چپنگ کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے اور آنے والے تین ہفتوں کے اندر اندر عمل داری لازمی وگرنہ قانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ 500پاؤنڈ جرمانہ۔پھر اس کی ویڈیو میں دکھایا گیا کہ ایک ڈاکٹر بلی کی گردن میں سرنج کی مدد سے چپ داخل کر رہا تھا۔ اس سب کا مقصد یہ کہ اگر بلی اپنے مالک سے جدا ہو جائے تو اسے واپس اس کے گھر پہنچایا جا سکے۔ اسی طرح اگر کو ئی مالک اپنی بلی کو گھر سے نکال دے تو ایسے شخص کو جانور کے حقوق پامال کرنے پر سبق سکھایا جا سکے۔ چند ہی سال میں اس نہج پر ترقی اس تیزی سے ہوئی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نوے کی دہائی میں جب میں نے اپنی ریڈیالوجی کی ٹریننگ کا آغاز کیا تو مشینی وسائل کی کمی کو پورا کرنے کے لئے پروفیسر نواز انجم نے ایک مشورہ کمپیوٹر خریدنے کا بھی دیا۔ اس سے ایک تو سی ڈیز کی شکل میں امریکن کالج آف ریڈیالوجی کے علمی مواد سے استفادہ ممکن تھا اور دوسرے کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز کےلازم کردہ مقالہ کو تحریر کرنے میں آسانی مقصود تھی۔ اس کے علاوہ پروفیسر نواز انجم نے ہر ماہ ایک طالب علم کو ایک عنوان پر لیکچر تیار کرنے کا حکم بھی دے رکھا تھا اس کے لئے بھی کمپیوٹر کی ضرورت تھی۔ اس زمانے میں یہ سب کرنا تو اتنا مشکل نہ لگتا تھا مگر ریڈیالوجی کی تصاویر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا خاصا دشوار گزار تھا اور اس زمانے میں اس کا حل صرف فلاپی ڈسک تھا جو دو تین تصاویر سے زیادہ سٹور نہ کر سکتی تھی اس کے ساتھ ساتھ اس پر مکمل بھروسہ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ یہ کسی بھی وقت دھوکہ دے جاتی تھی۔ ایک مرتبہ مقالہ کی تحریر کے سلسلے میں میں نے ایک طالب علم کے پاس ایک بڑی سی مستطیل ڈسک دیکھی پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ حضرت فلاپی پر انحصار کی بجائے کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک ہی لئے پھر رہے تھے۔ اس زمانے میں یو ایس بی مفقود تھی۔ موجودہ دور میں اس سٹوریج کی استطاعت اتنی بڑھ چکی ہے کہ یہ مقصد چھوٹی سی چپ سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ آج کل ہر طرف مصنوعی ذہانت کا چرچا ہے اس کا دارومدار بھی اسی چپ پر ہے۔ یہی چپ الیکٹرک گاڑیوں کی جان ہے یہ کمپیوٹرز میں معلومات کے تجزیاتی عمل کو تیز سے تیز تر کرتی ہے۔ یہ رئیر ارتھ ، ریت یا سلی کون سے بنتی ہے۔ اس کو فی الوقت امریکہ اور چائنہ کے باہمی تعلقات مبں انتہائی اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ چائنہ اس معاملے میں امریکہ کو بوجوہ چپ برآمد کنندہ کی حیثیت میں بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ انسانی جسم کے بارے میں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ یہ زمینی اجزا سے بنا ہے۔ مٹی ، معدنیات اور پانی اس کی بنیاد ہیں۔ اس کی خوراک جو اس کے جسم کا حصہ بنتی ہے اسی مٹی سے آتی ہے اور اس کے جسم نے اسی مٹی میں واپس جانا ہے۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ کہ زمینی اجزا اور مادہ سے زندگی اور گوشت پوست کا انسان کھڑا کر دیتا ہے جب کہ ابن آدم مادے سے مادہ ہی پیدا کر سکتا ہے اوراس سے زیادہ کچھ نہیں وہ اسی کی استعداد بڑھانے میں لگا رہتا ہے جب کہ حق تعالی نہ صرف مادے سے زندگی پیدا کرتا ہے بلکہ مرنے کے بعد انسانی جسم کے زمینی اجزا کو ایک مرتبہ پھر اکٹھا کرنےاور زندگی کا اعادہ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔قرآن کے مطابق وہ اس انسان سے پہلے فرشتوں اور جنوں کو پیدا کر چکا ہے جن کے اجزائے ترکیبی اور افعال انسانوں سے مختلف ہیں ۔فرشتہ اور روح چشم زدن میں زمین سے عالم بالا جانے کی صلاحیت رکھتے یہں جبکہ جن ناری مخلوق ہونے کے سبب شائد شمسی نظام میں آزادانہ گھوم سکتے ہیں ۔سورہ التین میں اللہ رب العزت انسانوں کو اعلی ترین سانچے پر پیدا کرنے کا ذکر کرتا ہے جو جسم اور روح کا مرکب ہے۔ اوپر بیان کئے گئے چپ کے مضمون کو لے کر چنیدہ آیت قابل غور ہے۔دور حاضر کے بعض مترجمین نے اس آیت کی تفسیر میں اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ عین ممکن ہے اللہ نے خلّاق العظیم ہوتے ہوئےان زمینی غیر جاندار اجزا سے تیار کردہ واقعی کوئی جاویدہ مائیکرو چپ انسان کے گلے میں نصب کر رکھی ہو جس میں اس کا نصیب موجود ہو جس میں اس کے اعمال ،اسکے خیالات اور اسکی حرکات و سکنات ریکارڈ ہو رہی ہوں اور موجودہ کمپیوٹر دور کا اسلوب استعمال کرتے ہو ئے اگر یہ کہیں کہ اسی کو “ریٹریو “کر کے انسان کا تمام اعمال نامہ، کچا چٹھا روز قیامت اس کے سامنے رکھ دیا جائیگا تو شائد بے جا نہ ہو گا اور پھر اسی پر اسکا حساب لیا جائے گا۔ سورہ بنی اسرائیل آیت 13 ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے اوپر کھلا پائے گا۔خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے۔ آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے۔