اسوہ رسولﷺ میں حُسنِ خُلق اور نرم مزاجی کی اہمیت

June 30, 2024

طالب ہاشمی

خُلق کے لغوی معنیٰہیں خُو، جب کہ عادت اورخصلت اور حُسنِخُلق سے مراد، خوش اخلاقی، ملن ساری، مُروّت، اچھا برتاؤ، اچھا روّیہ اوراچھے اخلاق کے ہیں۔ یوں تو حُسنِ خُلق کی ترکیب اخلاق ِحَسَنہ کے تمام پہلوؤںپرمحیط ہے، لیکن بطورِخاص اسے ملن ساری، ہم دردی ، شیریںزبانی اورخوش مزاجی سے تعبیر کیاجاتا ہے۔

سرورِکائنات ﷺ کی ذاتِگرامی اخلاقِحَسَنہ کابے مثال پیکرتھی۔ اورآپ ﷺ کاابرِکرم مخلوق ِخدا کے ہرطبقے پرہرآن جھوم جھوم کربرستا تھا۔ جس ذاتِ اقدس کو خطاب کرکے خود رَبِّ ذُوالجلال نے فرمایاہو، یعنی’’آپ ﷺاخلاق کے نہایت اعلیٰدرجے پر فائز ہیں۔‘‘اورجن کے اُسوۂ حَسَنہ کو تمام مسلمانوںکے لیے نمونہ قراردیاگیاہو، اُس ذات ِپاک کے شمیم اخلاق کی عطربیزیوںکا احاطہ کرناکسی انسان کے بس کی بات نہیں۔’’ لَایُمْکِنُ الثَّنَاءُ کَمَاکَانَ حَقَّہُ۔‘‘

سَیر نگاروں نے آپ ﷺ کے حسن ِخُلق کے جو واقعات بیان کیے ہیں، اُنھیں پڑھ کر زبان بے اختیار آپ ﷺؑ کی بارگاہِعالی میںاِس طرحزمزمہ پیراہوجاتی ہے؎ تورُوح ِزَمن ، رنگ ِ چمن ، ابرِ بہاراں .....توحُسنِسخن ، شانِادب ، جانِقصیدہ.....تُجھ ساکوئی آیا ہے نہ آئے گا، جہاںمیں.....دیتاہے گواہی یہی عَالَم کاجریدہ ۔

امام بـخاری ؒ نے ’’ادب المفرد‘‘ میںحضرت اُمُّ الدَّرْدَاء ؓ کی زبانی رحمتِ عالم ﷺ کایہ ارشاد نقل کیاہے کہ’’ میزان ِعمل میںکوئی چیز حُسن خُلق سے بھاری نہ ہوگی۔ ‘‘اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ، حضرت علی کرم اللہ ّ وجہہ ، حضرت انس بن مالک ؓ اور بہت سے دوسرے صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰعلیہم اجمعین، جو مدّتوںحضور ﷺ کی خدمت میںرہے، ان سب کامتفقہ بیان ہے کہ آپﷺ نہایت نرم مزاج، شیریںزبان ،نیک سیرت اورخندہ رُوتھے۔ لب ہائے مبارک پر ہمیشہ تبسّم رہتا، نرمی ، وقار اورمتانت سے گفتگو فرماتے تھے۔

ایک بات کو دوسری بات سے ملنے نہ دیتے ، تاکہ سُننے والے اچھی طرحسمجھ سکیں۔ حضوراکرم ﷺ کامعمول تھا کہ کسی سے ملاقات کے وقت ہمیشہ خود پہلے سلام اور مصافحہ فرماتے۔ جب تک دوسرا شخص ہاتھ نہ چھوڑدے آپ ﷺ اُس کاہاتھ نہ چھوڑتے۔ کوئی شخص جھک کرآپ ؐکے کان میں کچھ بات کہتا، تو اُس وقت تک اُس کی طرف سے رُخ نہ پھیرتے، جب تک وہ خود منہ نہ ہٹالے۔

مجلس میںتشریف فرماہوتے، توآپ ﷺ کے زانو کبھی شرکائے مجلس سے آگے نکلے ہوئے نہ ہوتے۔ مجلسِ نبوی ؐ میںجگہ کم ہوتی تھی ، جولوگ پہلے سے آکر بیٹھ جاتے تھے، ان کے بعد جگہ باقی نہیںرہتی تھی ، ایسے میں اگرکوئی آجاتا، تو آپ ﷺ خود اپنی جگہ سے سرک کراُسے اپنے پاس بٹھالیتے یا اس کے بیٹھنے کے لیے اپنی ردائے مبارک بچھا دیتے تھے۔ حضور ﷺ کوکسی کی کوئی بات ناپسند ہوتی، تومجلس میںنام لے کر اس کاذکر نہیںکرتے تھے ، بلکہ فرماتے کہ کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں، بعض لوگ ایساکہتے ہیں۔

یہ اس لیے کہ کسی مخصوص شخص کی دل آزاری نہ ہو اور اس کے احساسِ غیرت کوچوٹ نہ لگے۔ ایک دفعہ ایک صاحب عرب کے دستور کے مطابق زعفران لگاکر خدمتِاقدس میںحاضر ہوئے، آپ ﷺ کو یہ دستور پسند نہ تھا، لیکن آپ ﷺ نے اُن سے نہایت خندہ پیشانی سے ملاقات فرمائی۔ جب وہ اٹھ کرچلے گئے، تو لوگوں سے فرمایاکہ اُن سے کہہ دینا کہ اسے دھوڈالیں۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے باریابی کی اجازت چاہی۔

آپ ﷺ نےفرمایا۔ ’’یہ شخص اپنے قبیلے میںاچھی شہرت نہیںرکھتا، خیر آنے دو۔‘‘ جب وہ آیا، تو آپ ﷺ نے نہایت نرمی کے ساتھ اُس سے گفتگو فرمائی۔ جب وہ چلاگیا تو اُمُّ المؤمنین ِحضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے تعجّب کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا، ’’یارسول اللہ ﷺ! آپ ﷺ تو اس شخص کو اچھا نہیںسمجھتے تھے، پھربھی اس رِفق ونرمی کےساتھ اس سے گفتگو فرمائی۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا، ’’اللہ تعالیٰکے نزدیک سب سے بُراوہ شخص ہے، جس کی بدزبانی کی وجہ سے لوگ اُس سے ملنا جُلنا چھوڑدیں۔‘‘ (صحیحین وسنن ابی داؤد)۔

حضرت جابربن عبداللہ انصاری ؓ بیان کرتے ہیںکہ ’’مَیںضرورت پڑنے پر مدینے کے ایک یہودی سے قرضلیا کرتا تھا۔ اتفاق سے ایک سال کھجوروںکی فصل خراب ہوگئی اورمَیںقرضہ واپس نہ کرسکا۔ اس پر پوراسال گزرگیا۔ بہارآئی تو اُس یہودی نے قرض کی واپسی کاتقاضا شروع کردیا۔ (بدقسمتی سے) اس سال کی فصل سے بھی بہت کم کھجوریںحاصل ہوئیں، مَیںنے یہودی سے آئندہ سال کی مہلت مانگی، مگر اس نے انکار کردیا۔

مَیںرسول اللہ ﷺ کی خدمت میںحاضر ہوا اورتمام واقعات عرض کیے۔ آپ ﷺ چند صحابہ ؓ کو ساتھ لے کر یہودی کے گھر تشریف لے گئے اور اُسے بہت سمجھایا کہ مہلت دے دو، لیکن اُس نے یہ کہہ کر صاف جواب دے دیا کہ ’’ابو القاسم! مَیںہرگز مہلت نہیںدوں گا۔‘‘ اب حضور ﷺ نخلستان میںتشریف لے گئے اور ایک چکّر لگا کر پھر یہودی کے پاس تشریف لائے اورمہلت کے لیے اس سے دوبارہ گفتگو فرمائی، لیکن وہ اسی بات پراڑا رہا کہ میں کسی صُورت مہلت نہیںدوںگا۔

اس کا جواب سُن کر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اپنے مسقّف (چبوترے) پرکپڑا بچھاؤ۔ مَیںنے تعمیلِارشاد کی۔ آپ ﷺ نے اس کپڑے پرکچھ دیرآرام فرمایا۔ بےدارہوئے تو پھر یہودی کے پاس تشریف لے گئے۔ اور تیسری بار اس سے مہلت کے لیے بات چیت کی، لیکن وہ ظالم اب بھی نہ مانا۔ اب آپ ﷺ سیدھے نخلستان پہنچے اوردرختوںکے جُھنڈ میںکھڑے ہوکر مجھ سے فرمایا،’’جابر ! کھجوریںتوڑنی شرورع کرو۔‘‘ مَیںنے کھجوریں اُتارنی شروع کردیں۔ رسول اللہ ﷺ کی برکت سے اتنی کھجوریںنکلیںکہ یہودی کاقرضہ اداکرکے بھی بچ رہیں۔ (صحیح بخاری، الَرطب التمر)۔

8ہجری میںرحمتِعالم ﷺ غزوۂحُنین سے واپس آرہے تھے کہ راستے میںایک مقام پر نماز کاوقت ہوگیا۔ آپ ﷺ کے مؤذّن نے اذان دی۔ اتفاق سے وہاںمکّے کےچند شوخ نوجوان بھی موجود تھے، جو ابھی تک اسلام نہیںلائے تھے۔ اذان سُن کر وہ تمسخر کے طور پر آذان کی نقل اُتارنے لگے۔ اُن میںسے ایک سولہ سالہ نوجوان ابو محذورہ کی آواز بہت بلند اوردل کش تھی۔ حضور ﷺ نے ان نوجوانوںکو ڈانٹنے یاسزا دینے کے بجائے ابو محذورہ کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ میرے سامنے اذان دو۔

چوںکہ وہ اذان سے پوری طرحواقف نہ تھے، اس لیے حضور ﷺ نے اُنہیںخود اذان کے کلمات بتائے۔ انہوںنے لسانِ رسالت سے جو کلمات سُنے، وہ دہرا دئیے۔ حضورﷺ نے اُن کے سرپردستِ شفقت پھیرا اور برکت کے لیے دُعا فرمائی۔ اس کے ساتھ ہی ابو محذورہ ؓ کے دل کی دُنیا بدل گئی اور وہ مُشَرّف بہ اسلام ہوگئے۔ حضور اکرم ﷺ نے انہیںایک تھیلی مرحمت فرمائی، جس میںکچھ چاندی تھی۔ پھرآپ ﷺ نے ابومحذورہ ؓ کی خواہش پر انھیں مکّہ معظّمہ میںمسجدِحرام کامؤذن بنادیا۔ (دار قطنی،بذل القوۃ)۔

ایک دن حضورﷺ رئیس ِ خزرج، حضرت سعد بن عبادہ ؓسے ملنے کے لیے اُن کے گھر تشریف لے گئے۔ واپس آنے لگے، توحضرت سعد ؓ نے اپناگدھا منگوایا۔ اوراس کی پُشت پر چادر بچھائی، پھر اپنے بیٹے حضرت قیس ؓ کوحُکم دیاکہ رسول اللہ ؓ کے ساتھ جاؤ اور کاشانۂنبوی ؐ تک آپ ﷺ کے ہم رکاب رہو۔ حضور ﷺ سوار ہوئے توقیس ؓ پاپیادہ ساتھ ہولیے۔ حضورﷺ کے خُلقِ عظیم نے گوارہ نہ فرمایا کہ قیسؓ پیدل چلیں۔ ان سے فرمایا،’’میرے ساتھ سوار ہوجاؤ۔‘‘ انھیں پاسِادب مانع ہو اور آپ ﷺ کے ساتھ بیٹھنے کی ہمّت نہ ہوئی اوروہ واپس چلے گئے۔ (سیر انصارجلد دوم)۔

حضرت عُقبہ بن عام جُہنی ؓ بالعموم رسولِاکرم ﷺ کی سواری کےکھینچنے (یعنی اس کی لگام یامہارپکڑکرآگے چلنے ) کی خدمت انجام دیاکرتے تھے، لیکن ایک دفعہ چشمِ فلک نے عجیب منظردیکھا۔ وہ ایک طویل سفر میںحضور ﷺ کے ساتھ تھے۔ راستے میںپہاڑ کاایک دَرّہ آیا۔ آپ ﷺ نے حضرت عُقبہ ؓ سے فرمایا،’’عقبہ! آؤ اب تم اونٹ پر سوار ہوجاؤ۔‘‘ وہ اسے بے ادبی سمجھے کہ وہ خود اونٹ پر سوار ہوںاور حضوراکرم ﷺ پیدل چل رہے ہوں۔ اس لیے انہوںنے اونٹ پرسوار ہونے میںتأمّل کیا، لیکن جب حضور اکرمﷺ نے دوبارہ زور دے کر انہیں اونٹ پرسوار ہونے کے لیے فرمایا، توانہوںنے تعمیلِ ارشاد کی۔ اب عقبہ ؓ اونٹ پر سوار تھے اور حضور اکرم ﷺ اونٹ کی مہارپکڑے پاپیادہ چل رہے تھے۔

حضرت عتبان بن مالک انصاری ؓ کے مکان اور مسجد کے درمیان ایک نشیبی جگہ (وادی ) تھی۔ بارش ہوتی تو وہاں بہت پانی جمع ہوجاتا تھا۔ حضرت عتبان ؓ کی بینائی میںفرق آگیاتھا۔ اس لیے ان کےلیے اس پانی میںسے گزر کر مسجد تک پہنچنا سخت مشکل تھا۔ انہوںنے رسول ِاکرم ﷺ کی خدمت میںحاضر ہوکر عرض کیا۔ ’’یارسول اللہ ﷺ! میںاپنے محلّے کی مسجد میںلوگوںکونماز پڑھاتا ہوں،لیکن جب بارش ہوتی ہے، تو مسجد اور میرے مکان کے درمیان گہراپانی کھڑا ہوجاتا ہے۔

نظر کی خرابی کی وجہ سے میرے لیے اُس پانی سے گزرکر مسجد تک پہنچنا سخت مشکل ہوجاتاہے، اس لیے مجبوراً گھرمیںنماز اداکرلیتا ہوں۔ اگر آپ ؐ میرے گھرمیںتشریف لاکر نماز پڑھ لیں،تومیں اسی جگہ کو نماز کے لیے مخصوص کرلوں۔‘‘

حضورﷺ نے اُن کی درخواست بخوشی منظور فرمالی اور دوسرے ہی دن حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ساتھ لے کر حضرت عتبان ؓ کے گھر تشریف لے گئے ۔ اہلِمحلّہ کوخبرہوئی، تو وہ بھی حضرت عتبان ؓکے گھر آگئے۔ حضور ﷺ نے حضرت عتبان ؓ سے پوچھا، ’’کہاںنماز پڑھوں؟‘‘ انہوںنے جگہ بتائی، توآپ ﷺ نےوہاںتکبیر کہہ کر دو رکعت نماز اداکی۔ نماز کے بعد لوگوںنے کھانے کے لیے اصرار کیا۔

آپ ﷺ نے اُن کی دعوت قبول کرلی اورکچھ دیر کے لیے ٹھہرگئے۔ خزیرہ (ایک کھانا جو قیمے پر آٹا چھڑک کر تیارکیا جاتا ہے) دسترخوان پر رکھا گیا۔ محلّے کے تمام لوگ کھانے میںآپ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے۔ حاضرین میںسے کسی نے کہا، ’’مالک بن دُخشم نہیںآیا، وہ منافق ہے۔‘‘ حضوراکرم ﷺ نے پوچھا، ’’کیا وہ نماز نہیںپڑھتا؟‘‘ لوگوں نے کہا، ’’پڑھتا ہے، لیکن اس کا میلان منافقوںکی طرف ہے۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا، ’’یہ وہ لوگ ہیں،جن کے بارے میںاللہ نے مجھے بدگمانی سے منعفرمایاہے، کیوںکہ اُن کے اعمال اُن کے حُسنِ اعتقاد کی شہادت دیتے ہیں۔ جوشخص اللہ کی مرضی کے لیے کلمہ ٔتوحید پڑھتا ہے، اللہ اُس پرآگ حرام کردیتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، اُسد الغابہ)۔

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ’’ ایک دفعہ کچھ یہودی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میںحاضر ہوئے اور انھوں نے (ازراہِ شرارت السلام علیکم کی بجائے) ’’السام علیکم‘‘ (یعنی تم کو موت آئے) کہا۔ مَیں(حضرت عائشہ ؓ ) نے (غضبناک ہوکر )جواب دیا، تم ہی کو(موت) آئے اور تم پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو۔

رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’اے عائشہؓ!(ایسا سخت جواب کیوں دے رہی ہو) اپنی زبان کو روکو، نرمی کا رویّہ اختیار کرو اور سختی اور درشت زبانی سے خود کو بچائو۔‘‘(صحیح بخاری)۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ’’ مومن بندہ نہ زبان سے حملہ کرنے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا اور نہ بدگو اور نہ گالی بکنے والا۔‘‘(جامع ترمذی)۔

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ہی سے مروی ایک اورحدیث میںرسول اکرم ﷺ کایہ ارشاد نقل ہواہےکہ دوزخکی آگ ہر ایسے شخص پرحرام ہے، جو تیز مزاج نہ ہو، نرم ہو، لوگوںسے قریب ہونےوالا (ملن سار ) اور نرم خُو ہو۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد)۔

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ تم میںسے کوئی نیکی کی کسی صُورت اور کسی قسم کوبھی حقیر مت سمجھے اوراس کی ایک صُورت یہ بھی ہے کہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملواوریہ بھی نیکیوںمیںسے ایک نیکی ہے کہ تم اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے برتن میںپانی ڈال دو۔‘‘ (جامع ترمذی) ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اچھی اورمیٹھی بات بھی ایک صدقہ ہے۔‘‘ (یعنی نیکی کی ایک قسم ہے جس پر ثواب ملتا ہے )۔ (صحیح بخاری)۔

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ مسلمان اپنے حُسنِخُلق کی وجہ سے قائم اللّیل اورصائم النّہار کادرجہ حاصل کرلیتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف )۔ حضرت علی ابنِ ابی طالب ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ بدخُلقی اعمال کو ایسا ہی خراب کردیتی ہے، جیسے سرکہ، شہد کو خراب کردیتا ہے ۔‘‘ ( کنز العمال)۔

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ ’’یا رسول اللہﷺ! وہ کیا چیز ہے، جس کی مداومت لوگوںکوجنّت میںداخل کرے گی۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا، ’’اللہ کاڈراورخوش خلقی۔‘‘ (ترمذی شریف)۔

حضرت حارثہ بن وہب ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’کیا مَیںتمہیں بتاؤں کہ جنّتی کون ہے؟ ہروہ شخص، جس کا رویّہ (معاملے اور برتاؤ میںاکھڑ اورسخت نہ ہو، بلکہ) عاجزوں،کم زوروںکا سا ہو اوراس وجہ سے لوگ اسے کم زور سمجھتے ہوں۔(اور اللہ کےساتھ اس کا تعلّق ایسا ہوکہ) اگر وہ اللہ پر قسم کھائے، تو اللہ اس کی قسم پوری کر دکھائے، اور کیا میںتمھیں بتاؤں کہ دوزخی کون ہے؟ ہراکھڑ، بَدخُو اورمغرور شخص۔ (صحیحبخاری وصحیحمسلم)۔

حضرت انسؓبیان کرتے ہیںکہ ’’رسول اللہ ﷺ صبحکی نماز پڑھا کر باہر نکلتے، تو مدینہ والوںکے خُدّام اپنے اپنے برتن لے کر آپ ﷺ کی خدمت میںحاضر ہوتے، برتنوںمیںپانی ہوتا تھا۔ سخت سرد موسم میںبھی آپ ﷺ پانی میںاپنے دستِ مبارک ڈال کربرتن انھیں واپس کردیتے ۔‘‘ (اہلِمدینہ اس پانی کو متبرک سمجھتے تھے)۔ (صحیحمسلم)۔

خلاصۂکلام یہ ہے کہ نرم مزاجی اورخوش خلقی اللہ تعالیٰنے رسولاکرم ﷺ کی فطرتِپاک ہی میںودیعت کی تھی۔ سورۂآل ِعمران میںآپ ﷺ کو مخاطب کرکے یوںفرمایا گیا ہے ۔’’(اے پیغمبرﷺ)یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اُن لوگوں کےلیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو، ورنہ اگر کہیںتم تُندخُو اورسنگ دل ہوتے، تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چَھٹ جاتے۔‘‘

اس ارشادِربّانی سے ثابت ہوتاہے کہ اہلِعرب کودین ِ حق کی طرف راغب کرنے میںرحمتِعالم ﷺ کی نرم مزاجی (خوش خُلقی، شیریںکلامی) نے بنیادی کردار ادا کیا۔ حضورﷺ نے عامۃ المسلمین کوبھی نہ صرف خوش خلقی کی تلقین اورتاکید فرمائی، بلکہ انھیں ایسی تمام باتوں سے بھی منع فرمایا، جو باہمی تعلقات پر بُرا اثر ڈالتی ہیںاور ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا کرتی ہیں۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’تم دوسروںکے بارے میںبدگمانی سے بچو، کیوںکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔ تم کسی کی کم زوریوںکی ٹوہ میںنہ رہا کرو، اور نہ جاسوسوں کی طرحکسی کے عیب ڈھونڈنے کی کوشش کیاکرو، نہ ایک دوسرے پر بڑھنے کی بے جاہوس کرو۔ نہ ایک دوسرے سے حسد کرو، نہ ایک دوسرے سے بغض وکینہ رکھواورنہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو، بلکہ اے اللہ کے بندو! آپس میںبھائی بھائی بن کررہو۔ ‘‘(جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد)۔