اسلام کا فلسفہ تصوف اور اُس کی حقیقت

June 28, 2024

ڈاکٹر نعمان نعیم

اسلامی تعلیمات کے مطابق’’تصوف ‘‘دراصل وہ رہنما ہے جو سالک کو ہر آن باخبر رکھتا ہے کہ دیکھنا کہیں مقصود نگاہ سے اوجھل نہ ہوجائے ،وہ ہدایت کرتا ہے کہ جب تم بارگاہِ خداوندی میں نماز کے لیے کھڑے ہو اور یہ دیکھو کہ قبلہ رو ہو یا نہیں؟ جائے نماز اورکپڑے پاک ہیں یا نہیں، تو اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھو کہ تمہارا تصور پاک ہے یا نہیں، دل مالک کائنات کی طرف ہے یا نہیں، غرض تصوف ہر ہر قدم پر سالک کو خبردار رکھتا ہے کہ مقصود اصلی خدائے ذوالجلال والاکرام کے خیال سے دل غافل نہ ہونے پائے۔

ایک مرتبہ امام احمد بن حنبل ؒکے تلامذہ نے ان سے سوال کیا کہ آپ بشر حافیؒ کے پاس کیوں جاتے ہیں وہ تو عالم ومحدث نہیں ہیں؟ توامام صاحب نے فرمایا کہ میں کتاب اللہ سے واقف ہوں، مگر بِشر، اللہ سے واقف ہیں۔

شیخ جنید بغدادی ؒ فرماتے ہیں: اس راہ کو وہی پاسکتا ہے جو کتاب اللہ کو داہنے ہاتھ میں اور سنت رسول ﷺکو بائیں ہاتھ میں لیے ہواور ان دونوں چراغوں کی روشنی میں راہِ سلوک طے کرے، تاکہ گمراہی اور بدعت کی تاریکی میں نہ گرے۔

’’تصوف‘‘ کا لغوی معنی ہے ’’اون کا لباس پہننا ‘‘جیسے’’ تَقَمُّص‘‘ کامعنی ہے قمیص پہننا ۔صوفیاء کی اصطلاح میں اس کے معنی ہیں: اپنے اندر کا تزکیہ اور تصفیہ کرنا، یعنی اپنے نفس کو نفسانی کدورتوں اور رذائلِ اخلاق سے پاک و صاف کرنا اور فضائلِ اخلاق سے مزین کرنا اور صوفیاء ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنے ظاہر سے زیادہ اپنے اندر کے تزکیہ اور تصفیہ کی طرف توجہ دیتے ہیں اور دوسروں کو اسی کی دعوت دیتے ہیں۔

قرآن وحدیث کی زبان میں تصوف کا نام تزکیہ اور احسان ہے۔ایک دن حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ سوالات کیے، ان میں سے ایک سوال یہ تھا :’’احسان کیا ہے ؟ آپ ﷺنے جواب میں ارشاد فرمایا : ’’احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو ،اگر تم اللہ کو دیکھ نہیں رہے(یعنی یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی) تو کم سے کم یہ یقین کرلو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری) بندے کے دل میں اسی احسان کی کیفیت پیدا کرنے کا صوفیاء کی زبان میں دوسرانام ’’تصوف‘‘ یا ’’سلوک‘‘ ہے۔

حضرت مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں :”شریعت جو احکامِ الٰہیہ کا نام ہے، اس کے تین جزو ہیں: علم، عمل، اخلاص۔ علم کے بغیر عمل نہیں اور عمل کے بغیر علم لاحاصل ہے اور اخلاص نہ ہوتو عمل بے فائدہ ہے، غرض علم، عمل اور اخلاص یہ تینوں جزومل کر شریعت بنتی ہے۔“

عمل میں خلوص، یہ حاصل ہے تصوف، تزکیہٴ نفس اوراحسان کا۔ طریقت وحقیقت شریعت کے خادم ہیں اور شریعت سے دین ودنیا کی تمام سعادتیں حاصل ہوتی ہیں۔ طریقت و تصوف کے ذریعے عمل میں اخلاص پیداکیا جاتا ہے اور مقصد کمالِ شریعت ہے۔ اخلاص کے بغیر رضا کا مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔ اتباعِ شریعت اور سنت کی پیروی پر رضائے الٰہی کا وعدہ قرآن سے ثابت ہے ارشادباری تعالیٰ ہے:(اے محمد (ﷺ) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تمہیں دوست رکھے گا۔ (سورۂ آل عمران)

امام ربانی مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں کہ: اس فقیر کو پورے دس سال کے بعد یہ امر منکشف ہوا اور حقیقتِ امر واضح ہوئی۔ (مکتوب ۳۶ جلد اوّل)

حضرت مجددؒ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ شریعت اور طریقت میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، بلکہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، چناں چہ مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں ”زبان سے جھوٹ نہ بولنا شریعت ہے اور دل سے بھی وسوسہٴ کذب دور کرنا طریقت وحقیقت ہے۔ یعنی اگر یہ نفی بہ تکلف ہوتو شریعت ہے اور اگر بے تکلف میسر ہو تو حقیقت۔پس درحقیقت باطن جو طریقت سے عبارت ہے، ظاہر کا مکمل کرنے والا ہے، جو کہ شریعت ہے۔ (مکتوبات ۴۱ جلد اوّل)

عام طور پر صوفیائے کرام کے یہاں ضبطِ نفس کے بجائے نفس کشی کا تصور پایاجاتا ہے، حضرت مجددؒیہ فرماتے ہیں کہ نفس کے اندر جو صفات ہیں، وہ باقی رہنی چاہئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر نفس نفسِ مطمئنہ بھی بن جائے، یعنی شریعت کا پابند ہوجائے اس کے باوجود بھی نفس کی دوسری صفات باقی رہنی چاہئیں؛ کیوں کہ ان صفات سے ترقی کا دروازہ کھلتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ روحانی ترقی نفس کی مخالفت کی وجہ سے ہے۔

اگر نفس کی مخالفت نہ ہوگی تو روحانی ترقی بھی نہ ہوگی، اس کے لیے وہ نبی اکرم ﷺکی حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ جب آپ جہاد سے واپس ہوئے تو میدانِ جہاد سے واپسی پر ارشاد فرمایا:ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہیں۔یہاں نفس سے جہاد کو ”جہادِ اکبر“ فرمایا اور فرماتے ہیں کہ فرشتے روحانی ترقی نہیں کرسکتے؛ کیوں کہ ان میں نفس نہیں ہے، جو فرشتہ جس مقام پر ہے، اُسی مقام پر رہے گا۔

’’تصوف‘‘ در اصل بندے کے دل میں یقین اور اخلاص پیدا کرتا ہے ۔’’تصوف‘‘ مذہب سے الگ کوئی چیز نہیں، بلکہ مذہب کی روح ہے۔جس طرح جسم روح کے بغیر مردہ لاش ہے، اسی طرح ﷲ کی عبادت بغیر اخلاص کے بے قدر وقیمت ہے۔’’تصوف‘‘ بندے کے دل میں ﷲ تعالیٰ کی ذات کی محبت پیدا کرتا ہے اور اللہ کی محبت بندے کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خلق ِخدا کے ساتھ محبت کرے،کیونکہ صوفی کی نظر میں خلقِ خدا ،خدا کی عیال ہے اور کسی کے عیال کے ساتھ بھلائی عیال دار کے ساتھ بھلائی شمار ہوتی ہے۔

اللہ کی ذات کی محبت بندےکو اللہ کی نافرمانی سے روکتی اور بندگانِ خدا کی محبت بندے کو ان کے حقوق غصب کرنے سے روکتی ہے، اس لیے صوفیاء حضرات کی زندگی حقوق ﷲ اور حقوق العباد کو پوری طرح ادا کرتے ہوئے گزرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو چیز انسان کو ﷲ تعالیٰ کا فرماںبردار بنائے اور اس کے بندوں کا خیرخواہ بنائے، اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

صوفیا ءحضرات جن باتوں پر زیادہ زور دیتے ہیں ،وہ یہ ہیں : ۱:…اللہ تعالیٰ کی محبت ۔۲:… رسول اللہ ﷺ کی اطاعت۔۳: …تزکیۂ نفس( اپنے نفس کو فضائلِ اخلاق سے آراستہ کرنا اور رذائلِ اخلاق سے پاک کرنا)۔۴:… برداشت اور رواداری ۔۵: …خدمت ِخلق ۔

صوفیاء حضرات اپنی تعلیمات میں سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیتے ہیں، وہ عشق ومحبتِ خداوندی ہے ،کیونکہ محبت ہی ایک ایسی چیزہے جو محب کو اپنے محبوب کی اطاعت پر مجبور کرتی اور اس کی نا فرمانی سے روکتی ہے اور محب کے دل میں محبوب کی رضا کی خاطر ہر مصیبت و تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی قوت وصلاحیت پیدا کرتی ہے،اور محبت ہی وہ چیز ہے جو محب کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ایسا عمل کرے جس سے محبوب راضی ہو اور ہر اس عمل وکردارسے باز رہے جس سے محبوب ناراض ہو، چنانچہ صوفیاء حضرات اگر زہد، تقویٰ، عبادت، ریاضت اور مجاہدے اختیار کرتے ہیں تو ان کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا حاصل کرنا ہوتا ہے۔

وہ جنت کی لالچ یا جہنم کے خوف سے اللہ کی بندگی نہیں کرتے، چنانچہ حضرت رابعہ بصریؒ اپنی ایک دعا میں فرماتی ہیں :’’خدایا! اگر میں تیری بندگی جنت کے لیے کرتی ہوں تو مجھے اس سے محروم رکھنا ،اگر میں جہنم کے خوف سے تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے اس میں جھونک دینا، لیکن اگر میں تیری بندگی تجھے پانے کے لیے کرتی ہوں تو مجھے اپنے آپ سے محروم نہ رکھنا ‘‘۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ترجمہ: ’’ اور جو لوگ مؤمن ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں ‘‘ ۔(سورۃالبقرہ) ایک اور آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :ترجمہ: ’’ (اے رسول ﷺ!مسلمانوں سے )کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں اپنے باپ اور دادا اور بیٹے اوربھائی اور بیویاں اور رشتے دار ا ور وہ تجارت جس کے مندا پڑ جانے سے تم بہت ڈرتے ہو، اور وہ مکانات جنہیں تم بہت عزیز رکھتے ہو، اگر ان میں سے کوئی چیز بھی تمہیں ﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ پیاری ہے تو پھر انتظار کرو، یہاں تک کہ ﷲ کا فیصلہ صادر ہو جائے اور یاد رکھو کہ ﷲ فاسقوں کوہدایت نہیں دیا کرتا‘‘ ۔(سورۃ التوبہ)

آپﷺ نے ارشاد فرمایا : ترجمہ:’’ جس شخص کا یہ حال ہو کہ و ہ ﷲہی کے لیے محبت کرے اور ﷲ ہی کے لیے بغض رکھے اور ﷲ ہی کے لیے دے اور کسی کو کچھ دینے سے ﷲ ہی کے لیے ہاتھ روکے تو اس نے اپنے ایمان کو کا مل کر لیا ‘‘ ۔(مشکوٰۃ المصابیح)

آپ ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے : ترجمہ:’’ اے ﷲ! مجھے ایسا کر دے کہ تیری محبت اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال سے اور پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب ہو‘‘ ۔( ایضاً، ص:۲۲۰۔) صوفیاء حضرات اسی محبت کو اپنے دل میں اور اپنے مریدین کے دل میں پیدا کرنے کے لیے مجاہدے اور ریاضت کرتے اور کراتے ہیں۔

قرآن مجید میں ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ترجمہ:’’ اے پیغمبر ﷺآپ ان کو بتا دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو ، نتیجے میں ﷲ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا ۔‘‘(سورۂ آل عمران)اس لیے کہ ﷲ کے رسول ﷺ کی اطاعت خود اللہ کی اطاعت ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: ’’جس شخص نے اللہ کے رسول ﷺکی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘ (سورۃ النساء)

صوفیاء جتنے مجاہدے، ریاضات اور عبادات کرتے ہیں یا اپنے معتقدین کو درس دیتے ہیں، ان کا اصل مقصد نفس کا تزکیہ اور تطہیر ہے۔ تصوف نفس کی اصلاح ، محاسن اخلاق سے آراستہ ہونے اور کردار سازی کا نام ہے۔