انسانی شخصیت پر اچھے اور بُرے ناموں کے اثرات کی شرعی حیثیت

June 28, 2024

مولانا سیّد انور شاہ

اسلام دین کامل اور دینِ فطرت ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں سے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس میں زندگی کے ہر شعبے اور ہرگوشے کے متعلق جامع احکام اور ہدایات موجود ہیں، جن میں نقص و کمی ، دشواری و تنگی اور ظلم و زیادتی نام کی کوئی چیز نہیں۔

اس کی پاکیزہ تعلیمات ایسی جامع، مکمل اور مفید ہیں کہ ہر ایک کے لیے ، ہر جگہ، ہر زمانے اور ہر حالت میں قابلِ عمل اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہیں۔ ایک سچے مسلمان کا یہ شیوہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام مراحل اور امور میں اسلام کا صحیح معنوں میں متبع اور پیروکار بننے کی کوشش کرے۔

نو مولود بچوں کے لیےعمدہ، دلکش اوربامعنی نام ،جس سے اسلامی تشخص جھلکتا ہو، تجویز کرنے، مہمل، بے معنی، غلط اور برے معنیٰ کے حامل نام سے احتراز کرنے کے متعلق شریعت کے مفصل احکام و ہدایات موجود ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کی نظر میں یہ موضوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جسے نظر انداز کرنے کی ہرگز گنجائش نہیں۔

یوں تو ناموں کا موضوع دوسرے مذاہب اور دیگر اقوامِ عالم میں بھی اہمیت کا حامل رہا ہے، لیکن شریعت نے جس باریک بینی سے اس موضوع پر روشنی ڈالی اور اس کے متعلق مکمل رہنمائی فرمائی ہے دنیا کےکسی بھی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

نومولود بچے کے لیے باپ کی طرف سے سب سے پہلا اور بہترین تحفہ

نام انسان کے تعارف کا ذریعہ ہے، اسی کے ذریعے وہ مخاطب کیا جاتا ہے، اسی سے انسان کی معاشرے میں شناخت ہوتی ہے۔ بغیر نام کے اس کی شناخت اور پہچان دشوار ہے، اس لیےہر زمانے اور ہر قوم میں نام کا رواج رہا ہے۔ نام بچے کے لیے زیب و زینت کا سامان ہے۔ اچھے، بامعنی اور دلکش نام سے دل میں اس کی عظمت قائم ہوتی ہے، جبکہ برے نام طبیعت پر گراں گزرتے ہیں، جس کا اثر بعض اوقات اس نام والے کو بھدّا بنا دیتا ہے۔

نام باپ اور سر پرست کی طرف سے وہ قیمتی تحفہ ہے جو انسان کے ساتھ دنیا و آخرت میں ہمیشہ لگا رہتا ہے، کہیں جدا نہیں ہوتا، جس طرح آدمی نام سے دنیا میں جانا پہچانا جاتا ہے، ویسے ہی آخرت میں بھی اس کی شناخت اسی سے ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ نے مسلمانوں کو اپنے بچوں کے لیے اچھا، دلکش اور بامعنی نام رکھنے کا حکم دیا اور اس کو والدین پر اولاد کا حق قرار دیا، اور جن ناموں کے معانی اچھے نہیں ان کو رکھنے سے منع کیا۔

اولاد کا عمدہ نام والدین پر اہم حق

بہرحال بچوں کے والدین پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں، ان میں ایک اہم ترین حق یہ ہے کہ بچے کا اچھا نام رکھا جائے۔

خوب صورت اور دلکش نام کا انتخاب اور برے ناموں سے اجتناب، احادیث ِ نبوی ﷺکی روشنی میں بچوں کے اچھے، بامعنی اور دلکش نام تجویز کرنے، مہمل، بےمعنی اور برے ناموں سے احتراز کرنے کے سلسلے میں چند احادیثِ طیبہ ملاحظہ فرمائیں: حضرت ابو سعید ؓ اور ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ باپ پر بچے کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کا اچھا اور عمدہ نام رکھے اور اسے حسنِ ادب سے آراستہ کرے: ’’من ولد لہٗ ولد فليحسن اسمہ وأدبہ ۔‘‘ (شعب الایمان: ۱۱/۱۳۷، حقوق الاولاد، رقم الحدیث: ۸۶۵۸)

ایک حدیث میں نبی کریم ﷺنے اچھا نام باپ کی جانب سے پہلا اور بہترین تحفہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’أوّل ماینحل الرجل ولدہ اسمہٗ، فلیحسن اسمہ۔‘‘ (جمع الجوامع: ۳/۲۸۵، حرف الہمزۃ مع النون، رقم الحدیث:۸۸۷۵، دار الکتب العلمیۃ)یعنی ’’آدمی اپنے بچے کو سب سے پہلا تحفہ نام کا دیتا ہے، اس لیے بچے کا اچھا نام رکھنا چاہیے۔‎‘‘

’’قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے باپ کے ناموں سے پکارے جاؤ گے، لہٰذا اچھے نام رکھا کرو۔‘‘ (أبوداؤد: ۴/۲۸۷، باب فی تغییر الاسماء)

مذکورہ بالا احادیثِ طیبہ سے معلوم ہوا کہ:

۱- باپ پر بچے کا ایک بنیادی اور اہم حق یہ بھی ہے کہ اس کے لیے اچھے سے اچھا نام تجویز کرے ، لہٰذا باپ کو چاہیے کہ بچے کے اس حق میں کوتاہی اور غفلت سے کام نہ لے۔

۲- نوزائیدہ بچے کے لیے سب سے پہلا اور بہترین تحفہ جو باپ اسے دے سکتا ہے، وہ اچھا نام ہے؛ لہٰذا خوب سے خوب تر تحفہ دینے کی کوشش کرے۔

۳- قیامت کے دن اپنے اور باپ کے نام سے پکارا جائے گا کہ فلاں آدمی جو فلاں کا بیٹا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ میدانِ حشر میں اگر کوئی برے نام سے پکارا گیا تو اس بھرے مجمع میں بڑی خفت اور سبکی ہوگی، اس لیے وہ دن آنے سے پہلے توجہ دی جائے اور خود یا کسی اللہ والے عالم سے اچھا نام منتخب کرالیا جائے۔

یاد رکھیے: نام رکھنے کا مقصد محض تعارف اور پہچان نہیں، بلکہ درحقیقت مذہب کی شناخت اس سے وابستہ ہے۔یہ فکر و عقیدہ کے اظہارکا ایک ذریعہ ہے، اس لیے اس سلسلے میں احادیثِ طیبہ میں خصوصی ہدایات دی گئی ہیں۔ اچھے، دلکش اور بامعنی ناموں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور ایسے ناموں سے منع کیا گیا ہے جو برے معانی کے حامل ہوں۔

ناموں کے متعلق رسول اکرم ﷺکی اصلاحات اور زمانۂ جاہلیت کا نظریہ

عرب معاشرہ شرک و بت پرستی اور نخوت و تکبر جیسے عیوب سے آلودہ ہو چکا تھا، ان عیوب کا اثر ان کے ناموں پر بھی پڑ گیا تھا، چنانچہ وہ اپنے لیے یا تو ایسے نام رکھنا پسند کرتے تھے، جن میں شرک و بت پرستی کا معنی موجود ہوتا، یا ا یسےنام اختیار کرتے، جن میں جرأت، بہادری، تکبر و غرور اور بڑائی کا معنی موجود ہوتا۔

تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ ابوالرقیش اعرابی سے کسی نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ تم لوگ اپنی اولاد کے لیے کلب(کتا)، ذئب (بھڑیا) جیسے برے نام تجویز کرتے ہو، جب کہ اپنے غلاموں کے لیے مرزوق (رزق دیا ہوا)، رباح (نفع پانے والا) جیسے عمدہ اور اچھے نام رکھتے ہو؟ ابوالرقیش اعرابی نے جواب میں کہا: بیٹوں کے نام دشمنوں کے لیے اور غلاموں کے نام اپنے لیے رکھتے ہیں، یعنی غلام تو اپنی خدمت اور فائدہ حاصل کرنے کے لیے رکھے جاتے ہیں، اس لیے ان کے یہ نام رکھے گئے۔ اولاد چونکہ دشمنوں کے خلاف سینہ سپر ہو کر جنگ کرتی ہے، اس لیے ان کے لیے یہ نام تجویز کیے گئے، تاکہ ان کے نام سنتے ہی دشمن مرعوب ہوجائے۔(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام: ۱/۲)

بہرحال عرب معاشرے میں شرکیہ اور دیگر برے معانی پر مشتمل نام رائج ہو چکے تھے، چنانچہ عبدالعزیٰ(عزیٰ بت کا بندہ)، عبد الکعبۃ(کعبہ کابندہ)، عبد الشمس (سورج کا بندہ)، غراب (کوا)، عاص(گنہگار) جیسے برے نام ان میں عام ہو چکے تھے۔ اپنی بہادری اور بڑائی جتانے کے لیے بعض اوقات وہ جنگلی درندوں کے نام بھی رکھ دیتے تھے، مثلاً: لیث(شیر)،اسد (شیر)، ذئب (بھڑیا) وغیرہ۔

اسلام جو توحید اور امن و سلامتی کا دین ہے، تکبر و نخوت جیسے برے اوصاف سے بیزار ہے، اس لیے اس سلسلے میں حضور پاک ﷺ کا عام معمول یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی اسلام قبول کرتا اور اس کا نام قابلِ اصلاح ہوتا تو آپ ﷺ نہایت اہتمام سے اس کے نام کی اصلاح فرماتے ، چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’حضوراکرم ﷺ برے ناموں کو اچھے ناموں سے بدلتے تھے‘‘۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپﷺ کی خدمت میں ایک وفد حاضر ہوا، اس وفد میں ایک صاحب کا نام ’’أصرم ‘‘تھا۔

آپﷺ نے اسی آدمی سے پوچھا، تیرا کیا نام ہے؟ اس نے کہا: ’’أصرم‘‘ ۔آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم ’’زُرعۃ‘‘ ہو۔ (ابوداؤد :۷/۳۰۸، باب فی تغییر الاسم القبیح)

أصرم کا معنی ہے: کاٹنے والا، قطع کلام و تعلق کرنے والا، جو کہ ایک منفی اور غلط معنی ہے، زُرعۃ کا معنی کھیتی یا بیج کے ہیں، یعنی دوسرے کو نفع پہنچانے والا جو ایک اچھا اور مثبت معنی ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے ایک لڑکی کا نام جمیلہ رکھ دیا، جس کا پہلا نام عاصیہ (گناہگار) تھا۔ غزوۂ حنین کے موقع پر آپ ﷺ نے ایک شخص سے پوچھا: آپ کا کیا نام ہے؟ اس نے کہا : غراب۔(غراب کوے کو کہتے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا: آج سے تم غراب نہیں ،بلکہ مسلم ہو:(الادب المفرد باب/ ۱/۸۲۴)

ان چند مثالوں پر اکتفا کرتا ہوں، ورنہ کتبِ احادیث میں اس جیسی بہت سی مثالیں ہیں ،جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی نظر میں ناموں کی غیر معمولی اہمیت تھی، جو نام قابلِ اصلاح ہوتا آپ ﷺ نہایت اہتمام سے اس کی اصلاح فرماتے۔

شخصیت پر اچھے اور برے ناموں کے اثرات

یوں تو دیکھنے میں نام رکھنا ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے، بلکہ بعض لوگ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ’’نام میں کیا رکھا ہے؟‘‘ حالانکہ یہ انتہائی غلط بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کی شخصیت اور کردار پر اچھے نام کے اچھے اثرات پڑتے ہیں، جبکہ برے نام کے ممکنہ برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اس لیے شریعت نے معنی و مفہوم کے اعتبار سے اچھا نام رکھنے کا حکم دیا، تاکہ بچے کی زندگی کی شروعات کی پہلی اینٹ درست طور پر رکھی جائے۔

مشہور محدث اور فقیہ ملّا علی قاریؒ مرقات شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں: اپنی اولاداورخادم وغیرہ کے لیے اچھے نام کا انتخاب کرنا سنت ہے، کیونکہ بسااوقات برا نام تقدیر کے موافق ہو جاتا ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کا نام خسار (جس کے معنی گھاٹے اور نقصان کے ہیں) رکھے تو ہو سکتا ہے کہ کسی موقع پرخود وہ شخص یا اس کا بیٹا تقدیرِ الٰہی کے تحت خسارے میں مبتلا ہو جائے اور اس کے نتیجے میں لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ اس کا خسارہ اور نقصان میں مبتلا ہونا نام کی وجہ سے ہے اور بات یہاں تک پہنچ جائے کہ لوگ اسے منحوس جاننے لگیں اور اس کی ہم نشینی سے احتراز کرنے لگ جائیں۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: ۷/۲۹۰۰، باب الفال والطیرۃ۔ وکذا فی مظاہر حق: ۵/۳۰۰)

سیدنا فاروق اعظم ؓ کے متعلق منقول ہےکہ وہ صحابۂ کرامؓ کو باقاعدہ ہدایت فرمایا کرتے تھے کہ: لوگوں کے پاس ایسے آدمیوں کو قاصد بناکر بھیجا کرو، جو خوبصورت اور اچھے نام والے ہوں۔ علماء لکھتے ہیں: ’’اس کا سبب نفسیاتی تھا، اچھے نام اور اچھی صورت کا مخاطب پر اچھا اثر پڑتا ہے۔‘‘ (احیاء علوم الدین: ۴/۱۰۶، بیان حقیقۃ النعمۃ)

لہٰذا جس طرح والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگہداشت و حفاظت کریں، ان کی نشوونما اور بہترین تعلیم و تربیت کی فکر کریں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ والدین بچوں کے لیے اچھے نام تجویز کریں۔ غرض انسان کی شخصیت پر نام کا اثر پڑتا ہے۔ اچھے ناموں کے اچھے اور برے ناموں کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، چنانچہ ایک روایت میں یہ واقعہ منقول ہے: حضرت عبد الحمید ابن جبیرؒ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت سعیدبن مسیبؒ کی خدمت میں حاضر تھا۔ انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ میرے دادا جن کا نام حزن تھا، وہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: تمہارا کیا نام ہے؟

انہوں نے کہا: میرا نام حزن(جس کا مطلب ہے سخت اور دشوار گزار زمین) ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: حزن کوئی اچھا نام نہیں ہے، لہٰذا میں تمہارا نام تبدیل کر کے حزن کے بجائے سھل رکھ دیتا ہوں۔ (سھل کا معنی ہے کہ نرم اور ہموار زمین جہاں انسان کو آرام ملے) اس پر میرے دادا نے کہا کہ میرے باپ نے میرے لیے جو نام رکھا ہے ، میں اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔ حضرت سعید بن مسیبؒ فرماتے ہیں : ’’اس کے بعد سے ہمارے خاندان میں ہمیشہ سختی رہی۔‘‘ (صحیح بخاری: ۲/۹۱۴/فی الادب: باب اسم الحزن۔ وکذا فی سنن ابو داؤد: ۲/۶۷۷ /باب فی تغییر الاسم القبیح) (جاری ہے)