فراج نے کنویسر کے نسل پرستانہ جملہ بازی کو چیلنج کردیا

July 05, 2024

لندن (پی اے) ریفارم یوکے پارٹی کے قائد نائجل فراج نے دوبارہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کی پارٹی کے ایک کارکن کی جانب سے نسل پرستانہ جملوں پر مبنی جو فوٹیج دکھائی جارہی ہیں، وہ جعلی ہیں۔گزشتہ روز بی بی سی پر سخت جملوں کا سامنا کرتے ہوئے، جس میں ریفارم یوکے کے ایک کنویسر کو وزیراعظم رشی سوناک کے بارے میں نسل پرستانہ جملے اداکرتے ہوئے دکھایا گیا تھا، انھوں ان جملوں کو طنزیہ الزام تراشی قرار دیا لیکن اس کے ساتھ ہی کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اس شخص کو اس کیلئے رقم ادا کی گئی ہو، انھوں نے ریفارم کے امیدواروں کے دیگر کمنٹس کو بھی چیلنج کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ ان کے ساتھ کچھ کرنا نہیں چاہتے اور کہا کہ انھوں نے ان لوگوں کی حمایت ترک کردی ہے۔ اسی پروگرام میں فراج سے پہلے گرین پارٹی کی شریک رہنما ایڈریان رامسے نے مسٹر پارکر کے کمنٹس کو خوفناک قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ اگر لوگوں نے ریفارم پارٹی کی حمایت کی کہ تو یہ اس مستقبل کی خوفناک شکل ہے، جس جانب ہم بڑھ رہے ہیں، جب ان کی اپنی پارٹی کے بعض امیدواروں کی جانب سے کئے گئے کمنٹس کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اس بارے میں بھرپور تحقیقات کی جائے گی۔ جمعہ کو رشی سوناک نے چینل 4کے فوٹیج کو تکلیف دہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس نے مجھے غصہ دلا دیا۔ انھوں نے کہا کہ ان کی 2 بیٹیاں ریفارم کے لوگوں کو،، جو نائجل فراج کیلئے کمپین چلا رہے ہیں اور ان کے خلاف نسل پرستانہ زبان استعمال کررہے ہیں، دیکھیں گی اور انھیں سنیں گی۔انھوں نے کہا کہ نائجل فراج کو چند سوالات کے جوابات دینا ہوں گے۔ وزیراعظم کے بارے میں نسل پرستانہ جملہ بازی کے علاوہ مسٹر پارکر کو یہ کہتے سنا گیا کہ اسلام انتہائی خوفناک مذہب ہے اور کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو برطانیہ لانے والی چھوٹی کشتیوں میں آنے والوں کو ہدف بنا کر گولی مارنے کیلئے فوج تعینات کی جائے۔ ایک بیان میں مسٹر پارکر نے کہا کہ اگر میرے ذاتی خیالات ان کو برے لگے ہیں اور اس سے ان کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے تو میرا یہ ارادہ نہیں تھا، اس پر وہ نائجل فراج اور ریفارم پارٹی سے معذرت کرتے ہیں۔ اسیکس پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کا فوری طورپر جائزہ لے رہی ہے کہ پروگرام میں اس طرح کے کمنٹس سے کوئی کرمنل جرم تو سرزد نہیں ہوا۔ یہ معاملہ سب سے پہلے رہنماؤں سے وقفہ سوالات کے دوران سامنے آیا، جب ایک سامع نے سوال کیا کہ آپ کا اپنی پارٹی کے بارے میں کیا خیال ہے جو نسل پرستوں کو راغب کر رہی ہے۔ نائجل فراج نے کہا کہ انھوں نے برطانوی سیاست سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد سے زیادہ خود کو انتہائی دائیں بازو سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک عشرہ قبل میں نے بی این پی کے ووٹروں سے کہا تھا کہ اگر یہ احتجاجی ووٹ ہے لیکن آپ ان کے نسل پرستانہ ایجنڈے سپورٹ مت کرو، ان کو ووٹ مت دو، ووٹ مجھے دو ان کو تباہ کردو۔ انھوں نے اپنے سابقہ دعوؤں کا دہراتے ہوئے کہا کہ مسٹر پارکر ایک اداکار تھے، جن کی ایک علیحدہ ایگو ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک حیرت انگیز تناسب کا سیاسی سیٹ اپ ہے، یہ ہمیں نقصان پہنچانے کیلئے بنایا گیا ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ بعض لوگ اس پر یقین کرتے ہیں۔ بی بی سی نے فراج کے کمنٹس پر مسٹر پارکر کے خیالات معلوم کرنے کیلئے ان سے رابطہ قائم کیا لیکن وہ جواب دینا نہیں چاہتے تھے۔چینل 4 نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ انتہائی سختی کے ساتھ غیر جانبدارانہ صحافت پر قائم ہے اور کہا کہ اس کی پہلی ملاقات مسٹر پارکر سے ریفارم پارٹی ہیڈکوارٹرز میں انھیں کوئی رقم نہیں دی گئی۔نائجل فراج سے ایڈورڈ Oakenfull سمیت، جنھوں نے سوشل میڈیا پر سب سہارا کے افریقیوں کے آئی کیو کے بارے میں قابل اعتراض باتیں لکھی تھیں، ریفارم یوکے پارٹی کے دیگر امیدواروں کی جانب کئے گئے کمنٹس کے بارے میں بھیسوالات کئے، ایڈورڈ Oakenfull نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے کمنٹس کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ فراج نے کہا کہ وہ اس امیدوار سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں، میں ان کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتا۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو ہر پارٹی میں اچھی اور بری باتیں کرنے والے مل جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے اچانک انتخابات کے اعلان کی وجہ سے جلدی میں امیدوار تلاش کرنے کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔ پارٹیاں اس انتخابی مہم کے دوران اپنے امیدواروں کی سپورٹ کرسکتی ہیں اور سپورٹ واپس بھی لے سکتی ہیں لیکن انتخابات میں حصہ لینے سے انھیں روکنے کا اب وقت نہیں ہے۔ گرین پارٹی کی شریک قائد ایڈریان رامسے سے بھی غزہ کے تنازعے پر ان کے بعض امیدواروں کی جانب سے کئےگئے تبصروں کے حوالے سے سوالات کئے گئے، جن میں جنگ عظیم دوم میں فرانس کے مزاحمتی جنگجوؤں سے حماس کا تقابل کیا جانا شامل ہے۔ رامسے نے کہا کہ میں ان خیالات کو سپورٹ نہیں کرتا اور درست طریقے سے اس کی بھرپور تفتیش کرائی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ یہ چینل قیادت سے الگ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ ان انتخابات میں تمام پارٹیوں کو ایسے امیدوار منتخب کرنا پڑے ہیں، جو زیادہ آگے تک نہیں جاسکیں گے۔