نظام عدل وانصاف

July 05, 2024

عدالتی نظام کا بنیادی مقصد ہر شہری کو بروقت، بلا امتیاز اور فوری انصاف کی فراہمی ہے۔ تاریخ میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ بعض ملک معاشی طور پر جنگوں اور دیگر وجوہات پر تقریباً تباہی کے کنارے پہنچ گئے لیکن انصاف کی فوری فراہمی اور بلا امتیاز فیصلوں کی وجہ سے وہ متاثرہ ممالک نہ صرف اس بحرانی دور سے باہر نکلے بلکہ بعض تو آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہیں۔ تاہم وہ ممالک جہاں عدالتی نظام میں یہ اوصاف ختم ہوجائیں، وہ برباد ہو جاتے ہیں۔ یہ نظام قدرت ہے کہ انصاف کی کرسی کے معاملات بہت حساس اور باریک ہیں اور روز قیامت قاضی کو ایسے معاملات اور ذمہ داریوں کے بارے میں ایسے ہی باریکی سے حساب دینا ہو گا۔ اور جوقاضی فرض ِمنصبی میں انصاف کے ترازو کوبرابر رکھے گاقیامت کے دن اس کیلئے بہت آسانیاں اور سہولیات ملنے کی خوشخبریاں بیان کی گئی ہیں۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی نہیں بلکہ واضح حقیقت ہے کہ ہمارا نظام انصاف بحران کا شکار ہے۔ جج صاحبان کی کمی، مقدمات کی بھرمار اور قانون کا فرسودہ طریقہ کار انصاف کی فوری اور بلا امتیاز فراہمی میں رکاوٹوں کے بنیادی اسباب ہیں۔ حکومتیں معاشی صورتحال کو سدھارنے کیلئے ملکی آمدن مقامی ذرائع سے بڑھانے کے بجائے باہر سے بھاری سود اور ناقابل برداشت شرائط پرقرضے لینے کو اپنی عظیم کامیابی سمجھتی ہیں جن کا خمیازہ پہلے سے مالی مشکلات کے دلدل میں پھنسی قوم کو بھگتنا پڑتا ہےلیکن اس صورتحال سے نکلنے کیلئے اہم ترین اور بنیادی نکتے یعنی نظام عدل کی درستی اور وقت کے ساتھ ضروری اور ہم آہنگ قوانین بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

ہمارے ہاں نظام انصاف پر سے عام آدمی کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے جو کہ ایک سنگین اور پر خطر مستقبل کی طرف اشارہ ہے۔ طاقتور تو قانون وانصاف کو جیب میں لئے پھرتا ہے اور غریب وکمزور تھانے میں ایف آئی آر بھی درج نہیں کروا سکتا اور اگر ایف آئی آر ’’ کسی ذریعے‘‘ سے درج ہوبھی جائے تو ملزمان کی گرفتاری کیلئے پھر کوئی ’’ذریعہ‘‘ استعمال کرنا پڑتا ہے وہ بھی ہوجائے تو پھر کچہری اور عدالتوں کے نہ ختم ہونیوالے اخراجات اور چکر کاٹنے کا ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ کیس دادا کرتا ہے اور فیصلہ پوتوں کی زندگی میں آتاہے۔ جیلوں میں اکثریت غریب اور کمزور بے گناہوں کی ہے۔ بعض اوقات بریت اور رہائی کے ایسے فیصلے بھی ہوتے ہیں کہ رہائی کے احکامات جیل پہنچ جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ شخص تو کب کا زندگی کی قید سے رہائی پا چکا ہے۔اکثر ایسے مقدمات بھی عدالتی فائلوں میں دبے ہوئے ہیں کہ سالہا سال عدالت میں تاریخ ہی نہیں لگتی اور اگر کبھی تاریخ یا پیشی لگ بھی جائے تو بغیر فوری فیصلے کے پھر اگلی تاریخ لگنے میں سال گزر جاتے ہیں۔ اور یوں یہ گھن چکر چلتا رہتا ہے۔ تو سوچئے کہ ایسی صورتحال میں فوری انصاف کا تصور بھی کیسے کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف کچھ خاص لوگوں کے کیس نہ صرف روزانہ کی بنیاد پرسنے جاتے ہیں بلکہ پورا پورا دن ایسے کیسز کی سماعت جاری رہتی ہے اور مختلف ’’وجوہات‘‘ کی بنیاد پر فیصلے فوری اور ملزم کے حق میں بھی کئے جاتے ہیں پھر بلا امتیاز انصاف اور فیصلوں کا عام آدمی کیسےسوچ سکتا ہے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو گا کہ اب ملک میں قانون کو موم کی ناک بنا دیا گیا ہے۔

کراچی کےعلاقہ ڈیفنس میں شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں نے تلخ کلامی پر شاہ زیب نامی نوجوان کو قتل کیا، ٹرائل کورٹ نےشاہ رخ جتوئی اور اس کےساتھی سراج تالپور یعنی مرکزی ملزمان کو سزائے موت جبکہ تیسرے ملزم غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزاسنائی۔ سندھ ہائی کورٹ نے2019میں ملزمان کی بریت کی اپیل مسترد کردی لیکن سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس فیصلے کےخلاف مجرمان نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی اور کہا کہ فریقین میں ’’صلح‘‘ ہوچکی ہے اس بنیاد پرتمام مجرمان کو بری کر دیا گیا۔ تو پتہ چلا کہ طاقتور کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا وہ پیسے اور طاقت کے بل بوتے پر مدعی سے زبردستی صلح بھی کرا سکتا ہے اور انصاف بھی اسی کو ملتا ہے۔ اسی طرح ایک کیس شکیل تنولی نامی غریب مقتول کا بھی ہے 8جون 2022کو دو غریب نوجوان شکیل تنولی اور حسنین علی آدھی رات کو گھر جا رہے تھے کہ سوہان پل کے قریب ایک تیز رفتار کار نے ان کو کچل دیا اور ان کی موت ہوگئی۔ کار ایک خاتون چلا رہی تھی جو موقع سےفرار ہو گئی تھی۔ اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ بااثر شخصیت کی بیٹی ہے۔ مقتول شکیل کے والد رفاقت تنولی نے تمام تر دباؤ، لالچ اور دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے دسمبر2023میں انصاف کیلئے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا لیکن اس کو انصاف نہ مل سکا اگرچہ تمام شواہد بھی موجود تھے۔ گزشتہ روز لاہور پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رفاقت تنولی نے کہا کہ اب اس کی نظریں انصاف کیلئے سپریم کورٹ کی طرف ہیں اگر وہاں سے بھی انصاف نہ ملا تو وہ سپریم کورٹ کے سامنے خود کو آگ لگا لے گا۔ جوان مقتول بیٹے کاباپ تمام شواہد کے ساتھ دوسال سے انصاف تلاش کر رہا ہے ایسے اور کئی انصاف کے متلاشی دھکے کھا رہے ہیں۔ یہ ہے ہمارا نظام عدل وانصاف ۔کس سے منصفی چاہیں۔