دن بھر بوریاں ڈھوتا، شام کو پریکٹس کرتا ہوں

July 21, 2024

انٹرویو: فرخ شہزاد ملک، کوئٹہ

دنیا بَھر میں تعلیمی اور پروفیشنل شعبہ جات کے ساتھ کھیلوں کو بھی خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ سرکاری سطح پر کھیلوں کے لیے خصوصی گرانٹس کے ساتھ، تربیت یافتہ افراد کے زیرِ نگرانی کوچنگ کی بہترین سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ نیز، دنیا بَھر میں ہونے والے مقابلوں میں اپنے بہترین کھلاڑیوں کی شرکت یقینی بنانے کے بھی اقدامات کیے جاتے ہیں تاکہ مُلک و وقوم کا نام روشن ہو سکے۔

اِس مقصد کے لیے حکومتوں کی زیرِ نگرانی ٹریننگ اکیڈیمیز قائم ہوتی ہیں، جہاں غیر مُلکی کوچز اور انسٹرکٹرز کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ پاکستان اُن خوش نصیب ممالک میں سے ایک ہے، جہاں سہولتوں کی کمی بھی کھیلوں کے فروغ میں آڑے نہیں آئی۔ حکومتی عدم توجّہی کے باوجود مختلف کھیلوں کے باصلاحیت کھلاڑی سامنے آ رہے ہیں۔

اِس ضمن میں اگر بلوچستان کی بات کی جائے، تو یہ سرزمین بھی کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، اسکواش، باکسنگ، تن سازی اور دیگر کھیلوں کے بے شمار جگمگاتے ستاروں سے بَھری پڑی ہے اور اُنھوں نے اپنی صلاحیتوں کی بدولت مُلک اور صوبے کا نام دنیا بَھر میں روشن بھی کیا۔ اِن میں سے کچھ کھلاڑی اپنی ذاتی محنت، شوق اور لگن کے بَل بوتے پر کام یابی کے جھنڈے گاڑ کر شائقین اور بین الاقوامی دنیا کی توّجہ کا مرکز بنے، تو کئی ایسے بھی ہیں، جو سہولتوں کی عدم فراہمی، وسائل کی کمی اور حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے سبب گم نامی کے اندھیروں میں کھو گئے۔

ایسا ہی ایک نام کوہلو سے تعلق رکھنے والے 29سالہ باکسر، شیر باز مری کا بھی ہے، جو ہزار گنجی سبزی مارکیٹ میں لوڈنگ اَن لوڈنگ کا کام کرتے ہیں۔غربت بھی اُن کے شوق میں حائل نہیں ہو سکی اور وہ دن بَھر کی محنت مزدوری کے ساتھ باقاعدگی سے باکسنگ کی پریکٹس کرتے ہیں اور قومی سطح کے کئی مقابلوں میں کام یابیاں بھی حاصل کر چُکے ہیں۔ اُنہوں نے گزشتہ برس لاہورمیں منعقد ہونے والے مقابلوں میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔

گزشتہ دنوں ہم نے اُن سے ایک خصوصی ملاقات کی، جس کے دَوران نوجوان باکسر، شیر باز مری نے بتایا کہ’’ مجھے بچپن ہی سے باکسنگ کا شوق تھا۔ محمّد علی کلے، مائیک ٹائی سن اور امریکی باکسر مے ویدر میرے پسندیدہ کھلاڑی ہیں اور اُنھیں ہی دیکھ کر مَیں اس فیلڈ میں آیا۔ 56 کے جی کیٹیگری کے مقابلوں میں اپنی مدد آپ کے تحت شریک ہو رہا ہوں۔ وفاقی یا صوبائی حکومتوں سمیت کسی بھی اسپورٹس ایسوسی ایشن یا مخیّر شخص سے کوئی تعاون نہیں ملا۔ گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

والد بے روزگار ہیں، جب کہ میرا چھوٹا بھائی کیڈٹ کالج، کوہلو میں ملازمت کررہا ہے۔ یوں ہم دونوں بھائی بہت مشکل سے گھریلو اخراجات پورے کرتے ہیں۔‘‘ 9بہن، بھائیوں میں چھٹے نمبر کے شیر باز مری کا مزید کہنا ہے کہ’’مَیں نے مالی مشکلات کو اپنے شوق کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔ باکسنگ میں اپنے صوبے اور مُلک کی عالمی سطح پر نمائندگی کرنا چاہتا ہوں۔

دو مرتبہ عالمی مقابلوں میں شرکت کی کوشش بھی کی، لیکن مالی مشکلات کے باعث اپنی خواہش پوری نہ کر سکا۔ 13سال سے باکسنگ کر رہا ہوں اور والدین نے میرے شوق کی کبھی حوصلہ شکنی نہیں کی، لیکن اب والد کہنے لگے ہیں کہ ’’اِس کھیل کا کوئی فائدہ نہیں، لہٰذا زیادہ محنت نہ کرو۔‘‘ مگر والدہ اب بھی ہمّت اور حوصلہ بڑھاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ’’ نا اُمیدی انسان کی صلاحیتوں کو نگل جاتی ہے۔ کھیل کے میدان میں کوئی چیز نا ممکن نہیں۔ اللہ تعالی ایک دن محنت کا صلہ ضرور دے گا۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں قومی باکسر، شیر باز مری نے بتایا کہ’’ غربت کی وجہ سے تعلیم پر توجّہ نہیں دے سکا۔ مِڈل کے بعد تعلیمی سلسلے کو خیر باد کہہ کر والد کے ساتھ محنت مزدوری کر کے گھر کا چولھا جلاتا رہا۔ تاہم، اب پرائیوٹ طور پر میٹرک کے امتحان کی تیاری کر رہا ہوں۔ باکسنگ کے لیے روزانہ چار سے پانچ گھنٹے کی پریکٹس کے ساتھ اچھی خوراک بھی ضروری ہے۔ دودھ اور پھلوں کے علاوہ پروٹین بھی لینا ہوتا ہے، لیکن ہم دو وقت کی روٹی ہی پوری کرلیں، تو غنیمت ہے۔

تاہم، اِس کے باوجود مَیں نے قومی سطح کے مقابلوں میں حریفوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اُنہیں شکست دی۔ گزشتہ سال کراچی میں منعقدہ نیشنل جمپ روپ اینڈ روپ اسکیپنگ چیمپئن شپ میں گولڈ میڈل حاصل کیا، جب کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ اور بلوچستان اسپورٹس بورڈ کے زیرِ اہتمام مختلف مقابلوں میں بھی شرکت کر چُکا ہوں۔ کئی سرکاری ادارے مجھے کارکردگی کی بنیاد پر تعریفی سرٹیفیکیٹس دے چُکے ہیں، لیکن ان میں سے کسی نے بھی ملازمت کی پیش کش نہیں کی۔

کئی وزرا (جو اب سابق ہو چُکے ہیں) اور باکسنگ ایسوسی ایشن کے نمائندوں سے ملاقاتیں کر کے سرپرستی کی درخواست کر چُکا ہوں، لیکن کسی نے حوصلہ افزائی نہیں کی، حتیٰ کہ ایک سابق وزیرِ کھیل نے تو افسوس کا اظہار بھی کیا کہ صوبے کا ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے۔ اگر مجھے کسی محکمے میں چھوٹی موٹی ملازمت دے دی جاتی، تو مَیں مزید بہتر انداز میں اپنا کھیل جاری رکھ سکتا تھا، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔مجھے قدم قدم پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔‘‘

اُنہوں نے شکوہ کیا کہ’’ تعلیم، صحّت، بنیادی ضروریاتِ زندگی کی عدم فراہمی اور دیگر شعبہ جات میں تو عوام کو حکومت اور متعلقہ اداروں کی عدم دل چسپی کا سامنا ہے ہی، اسپورٹس بھی ایک ایسا شعبہ ہے، جس میں حکومت کی دل چسپی محض بورڈز بنانے اور ان میں مَن چاہے افراد کی تعیّناتی ہی تک محدود نظر آتی ہے۔ کرکٹ جیسا کھیل، جس میں پاکستانی عوام سب سے زیادہ دل چسپی لیتے ہیں، جب وہاں بھی تنازعات نظر آتے ہوں، تو باقی کھیلوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔

بلوچستان میں بھی مختلف ایسوسی ایشنز ہیں، جن میں سے اکثر برائے نام یا کاغذات پر ٹورنامنٹس کروا کر پیسے بٹورتی ہیں۔ اگر یہ ایسوسی ایشنز باصلاحیت کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کریں، تو کوئی وجہ نہیں کہ ٹیلنٹ کُھل کر سامنے نہ آئے۔‘‘ نوجوان باکسر نے اپنے مستقبل کے خوابوں سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ’’ مَیں مایوس نہیں ہوں۔ مُلک میں ہر کھیل کا ٹیلنٹ موجود ہے، ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اپنے نوجوان کھلاڑیوں کو مواقع فراہم کریں۔ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے قومی سطح کے مقابلوں میں حصّہ لیتا ہوں اور میری اب تک کی کارکردگی تسلّی بخش بھی ہے۔

اگر مجھے بین الاقوامی معیار کی تربیت فراہم کی جائے، تو قوم کو مایوس نہیں کروں گا۔ پاکستان کے پہلے پروفیشنل باکسر، محمّد وسیم کی طرح میں بھی پاکستان کا نام پروفیشنل باکسنگ میں روشن کرنا چاہتا ہوں۔ کوئٹہ میں واقع باکسنگ کلب میں باقاعدگی سے ٹریننگ کر رہا ہوں۔ اپنے اساتذہ، اقرا ٹائیگر اور محبوب درّانی سے بہت کچھ سیکھا اور اپنی بھرپور محنت سے اُن کی توقّعات پر پورا اُترنے کی کوشش بھی کر رہا ہوں۔

رواں سال ازبکستان کے شہر، تاشقند میں منعقدہ باکسنگ چیمپیئن شپ کے لیے تیاری کر رہا ہوں۔ اگر پیسوں کا انتظام ہو گیا، تو ان مقابلوں میں ضرور حصّہ لوں گا۔ میرا یہی ہدف ہے کہ قومی کے ساتھ، بین الاقوامی مقابلوں میں بھی مُلک کا نام روشن کروں۔ بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ ، میر سرفراز بگٹی اپنے پیش روئوں سے کافی مختلف ہیں، تو اُن سے بھی گزارش ہے کہ میری ماضی کی کارکردگی مدّ ِنظررکھتے ہوئے حکومتی سطح پر میری معاونت کی جائے۔‘‘

بلاشبہ، کھیل کا شعبہ کسی بھی صحت مند معاشرے کا ایک اہم حصّہ ہے۔کھیل ہی معاشرے میں مثبت رجحانات اور صحّت مند مقابلے کو پروان چڑھاتے ہیں، اِسی لیے دنیا بَھر کے ممالک اور اقوام کھیلوں کے فروغ میں نہ صرف خاص دل چسپی لیتے ہیں، بلکہ اپنے مُلک کو اِس شعبے میں آگے بڑھانے کے لیے قابلِ قدر کارنامے بھی انجام دیتے ہیں، اس کے برعکس، پاکستان میں اِس ضمن میں بہت کم کام دیکھنے میں آتا ہے۔

باکسنگ اور دیگر کھیلوں کی باقاعدہ تربیت کے لیے ایسے ٹریننگ کیمپس اور ادارے بنانے کی ضرورت ہے، جن سے نوجوان استفادہ کر سکیں۔ ہمیں اسپورٹس کے پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو ایک روشن خیال، پُرعزم، اور مثبت معاشرے کے طور پر دنیا کے سامنے لانا ہوگا۔ اِس ضمن میں شیر باز مری کا کہنا ہے کہ’’ بلوچستان کو’’ باکسنگ کا گڑھ‘‘ کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا۔

نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے…(عکّاسی: رابرٹ جیمس)

تاہم، باکسنگ ایک منہگا کھیل ہے، جس میں گلوز،بینڈ جز، مائوتھ گارڈ سمیت دیگر اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے اور اکثر غریب کھلاڑی یہ سامان خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان، خاص طور پر بلوچستان نے باکسنگ میں بڑے نام پیدا کیے ہیں۔

جیسے کہ حسین شاہ نے اولمپک میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا، جب کہ شہید ابرار حسین، اظہر علی، ڈی ایس پی اصغر علی چنگیزی، مہرﷲ اور اصغر علی شاہ کے علاوہ کئی باکسرز نے دنیا بَھر میں پاکستانی پرچم بلند کیا۔ بلوچستان میں اِس سخت جان کھیل کے کھلاڑی غیر یقینی مستقبل کا شکار ہیں۔ کوئٹہ سمیت صوبے بَھر میں سرکاری سطح پر کوئی باکسنگ اکیڈمی نہیں، جب کہ نجی طور پر قائم اکیڈیمیز کرائے کی عمارتوں میں کام کر رہی ہیں اور اُن میں سے بھی اکثر کرایہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے بند ہو جاتی ہیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے بتایا کہ’’ پاکستان میں باکسنگ کی ترقّی میں حکومت کا اہم کردار رہا ہے۔ ماضی میں مختلف سرکاری محکمے بہترین باکسرز تیار کیا کرتے تھے، کیوں کہ اُن کے پاس تجربہ کار کوچ تھے، جو ریٹائر ہوگئے، تو اب یہ ادارے خود باکسرز تیار کرنے کی بجائے اُنھیں مختلف جگہوں سے حاصل کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی جانب سے کوئی ورلڈ کلاس باکسر سامنے نہیں آیا۔

کراچی پورٹ ٹرسٹ، کے ای، پاکستان اسٹیل ملز، سندھ گورنمنٹ پریس اور واپڈا وغیرہ میں باکسنگ کی مضبوط ٹیمز ہوا کرتی تھیں، جو غیر مُلکی ٹورنامنٹس میں بھی حصہ لیتی تھیں، لیکن ان اداروں نے اب وہ ٹیمز ختم کردیں۔ صوبائی سطح پر باکسنگ کبھی منظّم تھی، لیکن اب وہ بھی بکھر چُکی ہے۔ ڈسٹرکٹ اور ڈویژنل باکسنگ کلبز کے ذریعے ہر صوبے کو باصلاحیت باکسرز ملا کرتے تھے، جو قومی سے بین الاقوامی سطح تک مُلک کا نام روشن کرتے، لیکن اب یہ سلسلہ بھی غیر مؤثر ہوتا جا رہا ہے۔

سرکاری محکموں اور اداروں کو مُلک میں کھیلوں کے فروغ میں اپنا حصّہ ڈالنا ہوگا۔ باکسنگ سمیت مختلف کھیلوں کی ٹیمز تیار کر کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی، کیوں کہ اس سے نہ صرف کھلاڑیوں کو معاشی پریشانی سے نجات مل سکتی ہے، بلکہ وہ بہتر انداز میں اپنے کھیل کےذریعے مُلک اور قوم کا نام روشن کر سکتے ہیں۔‘‘

شیر بازمری نے نوجوانوں کے نام پیغام میں کہا کہ’’کھیلوں کے میدان آباد کر کے ہی نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں سے دُور رکھا جا سکتا ہے۔ صحت بخش ماحول کی فراہمی اور کھیلوں کے فروغ کے لیے انقلابی بنیادوں پراقدامات کرنے ہوں گے۔ بلوچستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، تاہم اسے پاکستان اور باقی دنیا میں متعارف کروانے کے لیے میرٹ کو فروغ دینا ہوگا۔ محکمہ اسپورٹس میں چیک اینڈ بیلنس کا نفاذ اور باصلاحیت کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی، تب ہی ہم مختلف کھیلوں میں اپنا کھویا ہوا مقام بحال کر سکتے ہیں۔‘‘