فوجی عدالتوں کے ٹرائل

August 31, 2016

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پیر کے روز 16 دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں کی جانب سے دی جانے والی سزائے موت کے خلاف دائر کردہ اپیلوں کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں نے شفاف ٹرائل کے تمام تقاضے پورے کئے ہیں۔ فوجی عدالتوں میں چلائے جانے والے مقدمات کی قانونی حیثیت کے بارے میں عدالت عظمیٰ کی اعلیٰ ترین سطح پر کیا جانے والا یہ پہلا فیصلہ ہے جو غیرمعمولی حالات میں عمومی طریق کارسے ہٹ کر دہشت گردی ایسے سنگین جرائم کے خاتمے کے لئے ہنگامی اور فوری اقدامات کا صرف جواز ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ انہیں ضروری قرار دیتا ہے اور یہ صرف پاکستان ہی میں نہیں ہورہا بلکہ دنیا بھر کے تمام جمہوری ممالک بھی اسی طریق کار کو اختیار کرتے ہیں امریکہ گوانتاناموبے میں جو کچھ کررہا ہے وہ بھی یہی ہنگامی طرز عمل ہے۔ تاہم جونہی ان حالات میں مثبت تبدیلی آئے گی تو اس نوع کے سارے مقدمات معمول کے مطابق سول عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے 182 صفحات پر مشتمل فیصلے میں فوجی عدالتوں سے دہشت گردی کے مجرموں کو دی جانے والی سزائوں کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے دوران عدالت کے کسی جج کی کسی ملزم کے ساتھ ذاتی دشمنی کی بنا پر کسی تعصب کے مظاہرے کے کوئی شواہد عدالت کے سامنے نہیں لائے گئے۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے کیا جانے والا یہ فیصلہ وطن عزیز سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کی جانے والی کوششوں میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس نے فوجی عدالتوں کے قیام کی نہ صرف قانونی حیثیت بلکہ ان میں چلائے جانے والے مقدمات کی شفافیت کی بھی توثیق کی ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ اس فیصلے کے بعد ملک میں دہشت گردوں ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کے عمل میں تیزی آئیگی اور انصاف کا بول بالا ہوگا۔
.