کوئٹہ میں پھر دہشت گردی

October 06, 2016

کوئٹہ میں نامعلوم دہشت گردوں کی جانب سے ایک مسافر بس کے اندر داخل ہوکر ہزارہ برادری کی چار خواتین کو فائرنگ کا نشانہ بنائے جانے کی واردات انتہائی تشویشناک ہونے کے علاوہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کے نتیجے میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے جو عناصر غیرفعال ہوگئے تھے وہ ایک بار پھر سراٹھارہے ہیں۔ چند سال پہلے تک کوئٹہ کی ہزارہ برادری مسلسل خوفناک بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا نشانہ بنتی رہی ہے ۔ تاہم منگل کا واقعہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ دہشت گردوں نے خواتین کے کمپارٹمنٹ میں گھس کر فائرنگ کی اور حملے کا ہدف صرف خواتین کو بنایا گیا۔گزشتہ سال کے وسط میں کراچی میں صفورا چوک کے قریب آغاخانی برادری کی ایک بس کے اندر مسلح دہشت گردوں کی ایسی ہی کارروائی میں پچاس کے قریب افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ اس واردات کے چار ملزمان کی گرفتاری گزشتہ سال دسمبر میں عمل میں آئی تھی جن کے بارے میں پولیس اور حکومت سندھ کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ وہ سب جدید تعلیم یافتہ اورصاحب حیثیت لوگ ہیں۔ ان ملزمان سے تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی دین کے نام پر فرقہ وارانہ منافرت اور جہاد کے نام پر دہشت گردی کو فروغ دینے والی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ان رجحانات کے حامل افراد کا پاکستان دشمن قوتوں اور غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے بھی اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جانا عین ممکن ہے۔ظاہر ہے کہ اس قسم کی دہشت گردی کا خاتمہ محض قانونی کارروائی اور سزاؤں کے نفاذ سے ممکن نہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایسے عناصر کو قانون کی گرفت میں لانے کے ساتھ ساتھ علمائے کرام کے تعاون سے معاشرے میںدین کے نام پر پھیلائی جانے والی گمراہیوں کے ازالے پوری انسانیت کی خیرخواہی پر مبنی اسلام کی حقیقی تعلیمات کے فروغ کا اہتمام بھی پوری توانائی کے ساتھ کیا جائے۔

.