دہشت گردی:پاکستان اور افغانستان مشترکہ حکمت عملی بنائیں

January 17, 2017

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اتوار کو افغان صدر اشرف غنی کو ٹیلی فون کر کے افغانستان میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات سے ہونے والے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس سنگین مسئلے کے حل کے لئے الزام تراشی کی بجائے دونوں ملکوں کے درمیان بارڈر مینجمنٹ بہتر بنانے کی تجویز کا اعادہ کیا ہے دہشت گردوں کے حملوں سے حالیہ دنوں میں دارالحکومت کابل سمیت افغانستان کے کئی مقامات پر سو سے زیادہ افراد جاں بحق ہو گئے افغان حکومت ان حملوں کے لئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے اور بھارت جارحانہ انداز اور امریکہ سفارتی زبان میں اس کی تائید کر رہا ہے اس سے شہ پا کر بعض عناصر نے کابل میں پاکستانی سفارتخانے پر حملے کی کوشش کی اور ہرات میں مخالفانہ مظاہرہ کیا گیا جنرل باجوہ نے افغان صدر سے اپنی ٹیلی فونک گفتگو میں پاکستان پر لگائے جانے والے بے سروپا الزامات کی سختی سے تردید کی آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کا کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں آپریشن ضرب عضب کے دوران ایسے تمام ٹھکانے تباہ کئے جا چکے ہیں انہوں نے اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی کہ پاکستان اور افغانستان کے عوام کئی سال سے دہشت گردی کا شکار ہیں انہیں ضرب عضب کی کامیابیوں کو مل کر مضبوط بنانا چاہئے افغان صدر نے پاک فوج کے سربراہ کے ٹیلی فون کا شکریہ ادا کیا اور خطے میں امن و استحکام کے لئے دونوں ملکوں کے مل کر کام کرنے کی تائید کی تاریخی حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال خطے پر بالادستی کے لئے امریکہ اور روس کی رسہ کشی کے مابعد اثرات کا نتیجہ ہیں ان بڑی طاقتوں نے افغانستان میں ’پراکسی وار‘ لڑی جس سے دہشت گردی نے جنم لیا جو سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہو گئی اور یہاں کا امن و سکون درہم برہم کر ڈالا پاکستان نے دہشت گردی سے 60 ہزار انسانی جانوں اور اربوں ڈالر کا مالی نقصان اٹھایا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ پاک فوج نے اپنے علاقوں میں آپریشن کر کے اس ناسور کو بڑی حد تک جڑ سے اکھاڑ پھینکا افغانستان کو اس مہم میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دینا چاہئے تھا اس کی بجائے اس نے پاکستان سے فرار ہونے والے شدت پسندوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور پہلے سے موجود پاکستانی دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کے ساتھ انہیں بھی تحفظ فراہم کیا یہ لوگ اب بھی پاکستان کے لئے خطرات پیدا کئے ہوئے ہیں افغان طالبان کابل حکومت کا اپنا درد سر ہیں جن کے ساتھ مفاہمت کی کوششیں جاری ہیں گلبدین حکمت یار گروپ نے مصالحت کر لی ہے جبکہ دوسرے گروپ ابھی تک خونی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں افغانستان میں ہونے والے واقعات پاکستان پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گرد دونوں ملکوں کے خلاف لڑ رہے ہیں آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والے افغانستان ہی سے آئے تھے امریکہ نے حقانی نیٹ ورک کا ہوّا کھڑا کر کے افغانستان کو پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا موقع دیا پاکستان بار بار یقین دلا چکا ہے کہ وہ تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف یکساں کارروائی کر رہا ہے حقانی نیٹ ورک بھی ان میں شامل ہے تا ہم مخالف قوتوں کے پراپیگنڈہ کی وجہ سے باقی دنیا بھی اس معاملے میں شکوک و شبہات ظاہر کر رہی ہے یہ صور ت حال پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہے ہمیں خود فریبی میں مبتلا ہونے کی بجائے خود احتسابی پر توجہ دینی چاہئے جنرل باجوہ نے نہایت پرخلوص انداز میں اس طرح کے الزامات کی سختی سے نفی کی ہے لیکن اپنا کیس مضبوط کرنے کے لئے پاکستان کو کھلے دل سے یہ دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں کہ ایسے الزامات کیوں لگائے جا رہے ہیں تا کہ کہیں کوئی خامی نظر آئے تو اسے دور کر لیا جائے کابل حکومت بھی حقیقت پسندی سے کام لے اور غیروں کے اکسانے پر پاکستان کے خلاف الزام تراشی سے گریز کرے دونوں ملکوں کو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانی چاہئے اس سلسلے میں انٹیلی جنس شیئرنگ اور اعتماد سازی کے اقدامات اولین ضرورت ہیں۔

.