’سائیکل یاری‘مہم ، شہری مسائل سے عالمی مسائل کے حل تک کارگر

March 14, 2017

این ای ڈی یونیورسٹی کے احاطے میںپھیلی چھوٹی موٹی سڑکوں کا جال ۔۔اس پر چلتےطلبہ و طالبات کا رش ۔۔اور انہی سب کے دوران ایک نوعمر پتلی دبلی سی جسامت والی تن تنہا سائیکل چلاکر ایک ڈپارٹمنٹ سے دوسرے ڈپارٹمنٹ تک آنے جانے والی لڑکی۔۔۔

ایک لمحے کے لئے تصورکیجئے کہ جس شہر میںسائیکل چلانا ہی معیوب سمجھا جاتا ہو وہاں لڑکی کا سائیکل چلانا تو اور بھی دوبھر ہوگا۔۔۔مگر داد دینی چاہئے اس لڑکی کو جس نے وہ سب کر دکھایا جس کے لئے بہت ہمت کی ضرورت تھی۔

یہ ہیںکنزہ بتول۔۔۔جن کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوںنے این ای ڈی میں’سائیکل یاری‘ مہم متعارف کرائی ہے ۔ اس مہم کی کامیابی کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اب یونیورسٹی میں شٹل سروس ختم ہوگئی ہے اور زیادہ سے زیادہ طلبہ و طالبات سائیکلوں پر ایک جگہ سے دوسری جگہ آتی جاتی ہیں۔

یہ ایک منفردسروس ہے ۔ کنزہ بتول نے جنگ کی نمائندہ سےخصوصی گفتگو میں بتایا کہ سروس کا آغاز 3 سائیکلوں سے ہوا تھا یعنی سائیکلیںاستعمال کرنے والے بھی کم ہی تھے لیکن بعد میں یہ تعداد بڑھتے بڑھتے30 سائیکلوں تک پہنچی اور آج 10ہزاراسٹوڈنٹس سائیکلیں استعمال کررہے ہیں جبکہ ہر ماہ اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

وہ منظر بہت ہی سہانا لگتا ہے جب زیادہ تعداد میںرنگ برنگی اور جدید سائیکلیں ایک ساتھ ادھر ادھر دوڑتی نظر آتی ہیں۔ کیمرے کی آنکھ سے دیکھیں تو بھی یہ نظارہ بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔

اس سروس کی بدولت پیٹرول کے ساتھ ساتھ قیمتی زرمبادلہ بچانے کا آغاز ہوگیا ہے۔ ماحولیات پر مثبت اثرات پڑرہے ہیں۔ یہ ایسا چراغہے جس نے گویا عالمی حدت کی کمی میں اپناچھوٹا سا ہی صحیح قابل ذکر کردار اداکرنا شروع کردیا ہے۔

کیمیکل انجینئر نگ سے گریجویٹ ہونے والی کنزہ بتول 3 سال پہلے این ای ڈی یو نیورسٹی میں سائیکل چلانے والی پہلی لڑکی تھیں لیکن آج اسی چراغسے کئی نئے چراغروشن ہورہے ہیں۔

جنگ کی نمائندہ سے تبادلہ خیال میںکنزہ کا کہنا تھا ’’چونکہ میرا ڈپارٹمنٹ داخلی راستے سے کافی فاصلے پر تھا اورجسے طے کرنے میں مجھے بہت مشکل محسوس ہو تی تھی اس لئے ایک دن میں نے اپنی مشکل کا حل سائیکل کی شکل میںڈھونڈ نکالا ۔ اس کے بعد میںنے سوچا کہ یہ سہولت ہر طالب علم کو مہیا ہونی چاہئے چنانچہ ’سائیکل یاری‘ مہم کا آغاز کیا۔‘‘

کنزہ کہتی ہیں’’میں سائیکل کلچر کو فروغ دینا چاہتی ہوں جو ہمارے معاشرے سے تقریباًختم ہوچلاہے ۔نیدر لینڈ ، چین ، بلجیم ، سوئٹزرلینڈ ، جاپان ، فن لینڈ ، جرمنی ، ناروے ، سوئیڈن اور دنیا کے بہت سے دیگر ممالک میں آج بھی اس روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے‘‘ ۔

یہ پہلو ہوسکتا ہے آپ کو حیرت انگیز لگے لیکن سچ یہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک کے سربراہان کے سائیکل پر دفتر آنے اور گھر جانے کی مثالیںآج بھی موجود ہیں۔

چین میں37فیصد اور نیدر لینڈ یعنی ہالینڈ میں99فیصد لوگ سائیکلوں کا استعمال کرتے ہیں۔

کنزہ انہی اعداد شمار کا حوالے دیتے ہوئے کہتی ہیں’’جب دنیا کے اتنے بڑے بڑے اور ترقی یافتہ ممالک میںسائیکل عام ہے تو ہمارے یہاںکیوںنہیںہوسکتی؟سائیکلنگ کا ایک فائدہ یہ بھی تو ہے کہ اس سے جسمانی ورزش ہوتی ہے اور ورزش انگنت بیماریوںکا حل ہے ۔‘‘

سائیکل سروس سےطلبہ تو مستفید ہوہی رہے ہیں اس کے فوائد دیکھتے ہوئے اساتذہ بھی اس مہم کا حصہ بن گئے ہیںجو اور بھی زیادہ خوش آئند بات ہے۔