سنسر شپ

November 22, 2017

بھوٹان میں پہلے ہر کتاب سنسر ہوتی تھی۔
اس کام کے لیے محکمہ تھا۔
کئی سال قبل میں وہاں گیا تھا۔
ایک دوست نے اس بارے میں آگاہ کیا۔
ہر مسودہ وہاں جمع کرانا پڑتا تھا۔
منظوری ملتی تو کتاب چھپتی تھی۔
ایسی ویسی بات ہوتی تو مسودہ ضبط ہو جاتا۔
کئی سال بعد میں دوبارہ گیا تو صورت حال مختلف پائی۔
اس محکمے کا وجود نہیں۔
ہر طرح کی کتابیں چھپ رہی ہیں۔
ایسی ویسی باتیں بھی چھپ رہی ہیں۔
میں نے پوچھا،
’’اب کتابیں سنسر کیوں نہیں کی جاتیں؟‘‘
دوست نے کہا،
’’اب کتابیں کوئی پڑھتا جو نہیں۔‘‘