مجھ سے کنارہ کر گیا، اندر کا آدمی

April 11, 2018

غزل: عارف شفیق

مجھ سے کنارہ کر گیا، اندر کا آدمی

تالاب میں تھا قید، سمندر کا آدمی

سائے کو اپنے قد سے بڑا دیکھ کے ہوں خوش

میں ڈھونڈتا تھا، اپنے برابر کا آدمی

ہے ٹوٹ کے بکھرنا ہی، اُس کے نصیب میں

شیشے کا آدمی ہو کہ پتھر کا آدمی

حق مار کے ہمارا، سکندر بنا تھا وہ

خود کو جو کہہ رہا تھا، مقدر کا آدمی

کیسے بھلا بچے گا وہ، اندر کے تیر سے

ہر وار روک سکتا ہے، خنجر کا آدمی

کٹھ پتلیوں کا کھیل ہے، یہ دھوپ چھائوں کا

ہر آدمی ہے، اپنے مقدر کا آدمی

اُڑتا ہے آگ، پانی کی تاثیر، اوڑھ کر

اپنی ہوا میں، خاک کے پیکر کاآدمی

انجام زندگی کا، ہمیشہ سے موت ہے

آغاز سے اسیر ہے، اس کا ڈر کا آدمی

عارف شفیق، کھوکھلی بنیاد، جس نے کی

سب جانتے ہیں وہ تھا، اُسی گھر کا آدمی