انڈس یونیورسٹی میں ’’بجلی کا بحران‘‘ کے موضوع پر منعقدہ جنگ فورم کی رپورٹ

April 30, 2018

رپورٹ:طلعت عمران

عکّاسی:اسرائیل انصاری

کے الیکٹرک نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے، جو مسابقتی کمیشن کی خلاف ورزی ہے، اسے بلا تعطل معیاری بجلی فراہم کرنے کے معاہدے پر عملدرآمد کرنا چاہیے،یہ عدالتی فیصلوں کو بھی تسلیم نہیں کرتی، معاہدے کی خلاف ورزی پر نیپرا کو کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ کر دینا چاہیے،لوڈ شیڈنگ کا حالیہ بحران شروع ہونے سے قبل کے الیکٹرک کے 6یونٹس فرنس آئل سے بھرے ہوئے تھے،

حکومت کو کسی صورت واجبات ادا نہیں کرنے چاہئیں،کے ای نے 10ماہ بعد بھی اپنا 2017ء کا اکائونٹ آڈٹ عام نہیں کیا، حالاں کہ قانونی طور پر وہ اپنی بیلنس شیٹ شایع کرنے کی پابند ہے، حکومت کو بھی کے الیکٹرک کی شنگھائی الیکٹرک کوفروخت کی تفصیلات کا علم نہیں، سندھ حکومت صرف ایسے منصوبے شروع کرتی ہے، جب عدالتوں میں عوامی مسائل پر مبنی مقدمات کی سماعت جاری ہو، تو عوام بھی اس میں حصہ لیں

ناظم ایف حاجی

لوڈ شیڈنگ کا سبب بجلی کی پیداوار میں کمی نہیں، بلکہ ترسیل و تقسیم کا ناقص نظام ہے، مسئلے کی جڑ گردشی قرضے ہیں، جو ایک ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں، کے ای اور ایس ایس جی سی کے درمیان تنازع تاحال برقرار ہے اورکسی بھی وقت بجلی کا بحران جنم لے سکتا ہے،

لگتا ہے کراچی کا کوئی والی وارث نہیں،پاور پلانٹس کو پورے پیسے چاہئیں اور جب انہیں پوری رقم نہیں ملتی، تو وہ بجلی کی پیداوار روک دیتے ہیں، درآمدی ایندھن پر انحصار کی وجہ سے ہمارا انرجی مکس درست نہیں، ہمیں مقامی وسائل سے بجلی تیار کرنا ہوگی،مسابقت کی فضاقائم کی جانی چاہیے، ٹرانسمیشن لائنز اور گرڈ اسٹیشن کی درستی میںدو سال سے زاید کا عرصہ لگ سکتا ہے

اسامہ قریشی

صرف بجلی پیدا کرنا مسئلے کا حل نہیں، بلکہ معیاری بجلی کی مناسب قیمت پر مستقل فراہمی ضروری ہے، کراچی میں بجلی کا حالیہ بحران خاصا پیچیدہ ہے، صنعت کار بجلی کی ضروریات اپنے سرمائے سے پوری کر رہے ہیں،

کے ای اور ایس ایس جی سی کے تنازعے سے پورے صنعتی شعبے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کے الیکٹرک کے پاس بجلی کی کھپت کے 20برس پرانے اعداد و شمار ہیں، ڈیٹا درست نہ ہونے کی وجہ سے بھی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے،کے ای فرنس آئل کے نرخ پر بجلی فراہم کر رہی ہے،ایل این جی کی فراہمی نقصان دہ ہے، بجلی کی چوری بڑا مسئلہ ہے،ہمیں ڈیمز بنانے چاہئیں اور چھوٹے پاور پلانٹس رکھنے والوں کو بجلی فروخت کرنے کی اجازت دینی چاہیے

ڈاکٹر قاضی احمد کمال

ان دنوں بجلی کی لوڈ شیڈنگ انتہا پر ہے، صنعتی علاقوں میں رات 10سے صبح 6بجے تک بجلی نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے انڈسٹری بند پڑی رہتی ہے،

گزشتہ ایک دہائی سے جاری بجلی کے بحران کی وجہ سے ہماری صنعتیں غیر ملکی صنعتوں کے ساتھ مقابلے سے قاصر ہیں،لوڈ شیڈنگ کے تدارک کے لیے بجلی چوری کرنے والے اور بل ادا نہ کرنے والے شہریوں میں آگہی پیدا کرنی چاہیے

خالد امین


حکومت نے دسمبر 2017ء تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن اس کے برعکس گزشتہ چند ہفتوں سے پورے ملک بالخصوص کراچی میں بجلی کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔اطلاعات کے مطابق، رواں ماہ کے آغاز میں ایس ایس جی سی نے واجبات کی عدم ادائیگی پر کے الیکٹرک کو گیس دینے سے انکار کر دیا، جس پر کے ای نے لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کر دیا۔ لوڈ شیڈنگ میں اضافے کے سبب جہاں شدید گرمی میں کراچی کے شہریوں کو شدید ذہنی و جسمانی اذیت کا سامنا کرنا پڑا، وہیں انڈسٹری بند ہونے سے صنعت کاروں کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ شہر میں بجلی کا بحران عروج پر پہنچنے کے بعد وزیرِ اعظم، شاہد خاقان عباسی کراچی پہنچے اور ان کے کے الیکٹرک کو اضافی گیس فراہم کرنے کے حکم پر لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں کچھ کمی واقع ہوئی۔ تاہم، کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک ’’عارضی بندوبست‘‘ ہے اور چوں کہ دونوں اداروں کے درمیان تاحال تنازع برقرار ہے، لہٰذا کسی بھی وقت دوبارہ لوڈ شیڈنگ کا جن بے قابو ہو سکتا ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافے پر گزشتہ دنوں انڈس یونیورسٹی میں ’’ بجلی کا بحران‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں ہمددر کے ایم ڈی اور سی ای او، او ایسز انرجی کے ڈائریکٹر اور ایف پی سی سی آئی کی انرجی کمیٹی کے چیئرمین، اسامہ قریشی، سائٹ کے سابق چیئرمین اور سی پی ایل سی کے سابق سربراہ، ناظم ایف حاجی اور کے سی سی آئی کے پاور اینڈ گیس کے مشیر، ڈاکٹر قاضی احمد کمال اور انڈس یونیورسٹی کے وائس چانسلر، خالد امین نے اظہارِ خیال کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

جنگ :آپ کراچی سمیت ملک بھر میں جاری بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے بارے میں کیا کہیں گے؟

خالد امین :ان دنوں بجلی کی لوڈ شیڈنگ انتہا پر ہے۔ صنعتی علاقوں میں رات 10سے صبح 6بجے تک بجلی نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے انڈسٹری بند پڑی رہتی ہے اور مجبوراً ڈیزل پر جنریٹرز چلانا پڑتے ہیں۔ جب صنعت کاروں کا یہ حال ہے، تو غریبوں کا کیا حال ہو گا۔ ڈیفنس، کلفٹن جیسے شہر کے پوش علاقوں میں بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ حکومت کو اس سنگین بحران پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے جاری بجلی کے بحران کی وجہ سے ہماری صنعتیں غیر ملکی صنعتوں کے ساتھ مقابلے کی سکت نہیں رکھتیں۔ صنعتیں بند ہونے کی وجہ سے لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔ میں نے خود نہایت مجبوری کے عالم میں سیکڑوں ملازمین کو فارغ کیا اور 60روپے کلو کے حساب سے اپنی مشینری فروخت کی۔ جب صنعت کاروں کا یہ حال ہے، تو ایک آدمی کتنی اذیت کا شکار ہو گا۔ میں یہاں ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔ میری یونیورسٹی میں پنکھا خراب ہو گیا، تو اس کی جگہ نیا پنکھا منگوایا گیا۔ جب پرانا پنکھا ٹھیک ہو گیا، تو ایک فیکلٹی ممبر میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے وہ پنکھا کسی کو دینے کی اجازت مانگی۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ پنکھے کی ضرورت کسے ہے، تو انہوں نے بتایا کہ ایک غریب بوڑھی خاتون کو۔ میں نے وہ پنکھا لے جانے کی اجازت دے دی۔ کچھ عرصے بعد اس بوڑھی خاتون کی مجھ سے ملاقات ہوئی، تو اس نے بتایا کہ اسے 55برس بعد پنکھے کی ہوا نصیب ہوئی تھی۔ اس سے قبل اس کے گھر میں بجلی تک نہیں تھی اور اس نے پڑوسی سے بجلی کا کنکشن لیا تھا۔ یعنی اس شہر میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ جنہیں بجلی جیسی بنیادی سہولت تک دستیاب نہیں اور جب بجلی مل جاتی ہے، تو لوڈ شیڈنگ سکھ کا سانس نہیں لینے دیتی۔

جنگ :حکومت نے گزشتہ برس نومبر میں دعویٰ کیا تھا کہ رواں برس ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا اور 14ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہو چکی ہے، لیکن اس وقت کراچی سمیت ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ آخر سی پیک میں شامل انرجی پراجیکٹس سمیت بجلی کے دیگر منصوبوں کا کیا نتیجہ نکلا؟

اسامہ قریشی :ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر بجلی ہم تک پہنچتی کس طرح ہے؟ ہم اکثر و بیش تر میگا واٹس اور نئے بجلی گھروں کی بات کرتے ہیں، لیکن اگر نیا بجلی گھر لگ گیا، تو وہاں سے ٹرانسمیشن لائنز کے ذریعے بجلی کی ترسیل کرنا ہوتی ہے۔ یہ ٹرانسمیشن لائنز، ڈسٹری بیوشن لائنز کے ذریعے گھروں تک بجلی پہنچاتی ہیں۔ کراچی کے علاوہ باقی پورے ملک میں بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کا کام الگ الگ کمپنیز انجام دیتی ہیں، جب کہ یہاں ایک ہی کمپنی یہ تینوں کام انجام دیتی ہے۔ ان دنوں نئے بجلی گھروں اور میگا واٹس کے ساتھ گردشی قرضے بھی زیرِ بحث ہیں اور یہ سوال بھی عام ہے کہ جب نئے بجلی گھر لگ رہے ہیں، تو بجلی کہاں جا رہی ہے۔ دراصل، بجلی پیدا ہونے کے بعد ترسیل کے عمل سے گزرتے ہوئے صارفین تک پہنچتی ہے ۔اگر ایک ہزار روپے میں پیدا ہونے والی بجلی صارف تک پہنچی اور اس کے بدلے کمپنی کو 700روپے وصول ہوئے، تو اس کے نتیجے میں کمپنی کو 300روپے کا نقصان ہوا۔ یعنی 300روپے کی بجلی غائب ہو گئی، جو ایک بڑا مسئلہ ہے، کیوں کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنی کو ایک ہزار روپے ہی ادا کیے جانے ہیں، جب کہ تقسیم کار کمپنی کے پاس 700روپے جمع ہوئے۔ اس میں سے اس نے اپنے 200روپے رکھ لیے اور باقی رقم تقسیم کار کمپنی کو بھیج دی۔ یوں نقصان 500روپے کا ہو گیا۔ یہی خسارا بڑھتے بڑھتے گردشی قرضوں کی صورت اختیار کرتا ہے، جو اس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر یعنی 1000ارب روپے سے تجاوز کر گئے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئے بجلی گھر کس قیمت پر بجلی پیدا کر رہے ہیں؟ اور جب بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے دوران ہونے والے نقصانات پر قابو نہیں پایا جا رہا، تو یہ نقصانات سامنے آ رہے ہیں۔ جب حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس نے لوڈ شیڈنگ ختم کر دی ہے، تو اس کا مطلب یہ تھا کہ جن علاقوں میں لائن لاسز نہیں تھے، وہاں لوڈ شیڈنگ ختم کر دی گئی ہے، جب کہ میڈیا میں یہ خبر عام ہو گئی کہ ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی ہے، حالاں کہ صرف 50سے 60فی صد علاقوں سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ بجلی فراہم کرنا کمپنی کی ذمہ داری ہے، لیکن پھر یہ بھی کوئی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ وہ بجلی چوری کرتا ہے، تو پھر مسئلہ کہاں ہے؟ اب ہر جگہ نئے بجلی گھر لگانے کی بات کی تو جا رہی ہے، لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ بجلی کی ترسیل و تقسیم کے ناقص نظام کی نئے پاور پلانٹس کے ساتھ مطابقت کیسے پیدا کی جائے۔

جنگ:کیاآپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس بجلی موجود ہے، لیکن یہ مختلف وجوہ کی بنا پر صارفین تک پہنچ نہیں پا رہی؟

اسامہ قریشی:کراچی میں طلب کے مطابق بجلی فراہم کی جا سکتی ہے، لیکن اس کی ترسیل و تقسیم میں مسئلہ ہے اور اس کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ پھر اربوں روپے کی مالیت سے لگنے والے نئے پاور پلانٹس کو پورے پیسے چاہئیں اور جب انہیں پورے پیسے نہیں ملتے، تو وہ بجلی کی پیداوار روک دیتے ہیں۔ میں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت تمام پاور پلانٹس ساورن گارنٹی پر لگ رہے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ بجلی گھر چلنے یا نہ چلے، حکومت انہیں معاوضہ ادا کرے گی۔

جنگ :اس وقت ملک میں بجلی کی کتنی طلب ہے؟

اسامہ قریشی:تقریباً 18سے 20ہزار میگا واٹ۔ خیال رہے کہ ابھی ملک کے کئی علاقوں میں موسم سرد ہے اور جونہی گرمی عروج پر پہنچے گی، بجلی کی مانگ مزید بڑھ جائے گی۔ میں ایک بار پھر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اصل مسئلہ میگاواٹ کا نہیں ہے۔

جنگ:اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نے بجلی کی پیداوار بڑھانے پر تو کام کیا، لیکن ترسیل اور تقسیم کا نظام میں پائی جانے والے نقائص دور کرنے پر کوئی توجّہ نہیں دی؟

اسامہ قریشی:جی بالکل۔ اور اسی وجہ سے گردشی قرضے بڑھ رہے ہیں۔ پھر اس وقت پاکستان کا انحصار درآمدات پر ہے، جس کے لیے ڈالرز کی ضرورت ہے۔ ہمارا انرجی مکس بھی زیادہ بہتر نہیں ہے۔ اس وقت بجلی کا سب سے سستا ذریعہ ہائیڈل پاور اور ہمارے ہاں ڈیموں پر سیاست ہوتی ہے۔

جنگ :بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کراچی کی صنعتوں کی کیا صورتحال ہے؟ نیز، گزشتہ دنوں آپ کے کے ای انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات بھی ہوئے، تو ان کا کیا نتیجہ نکلا؟

ڈاکٹر قاضی احمد کمال:میں اس سوال کا حتمی جواب نہیں دے سکتا اور پھر صرف بجلی موجود ہونا ہی ضروری ہے، بلکہ اس کے ساتھ ہی معیاری بجلی کی مستقل فراہمی اور اس کی قابلِ برداشت قیمت بھی ضروری ہے۔ سو، صرف بجلی کی فراہمی مسئلے کا حل نہیں، کیوں کہ اگر یہ مہنگی ہو گی، تو پھر چوری ہو گی اور اگر اس کا معیار بہتر نہیں ہوگا، تو پھر صنعتیں نہیں چل پائیں گی کہ ہماری مشینیں کمپیوٹرائزڈ ہیں اور وولٹیج کی کمی بیشی سے یہ خراب ہو جاتی ہیں ۔ یوں ہمارا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ انڈسٹری نے یہ دونوں ضروریات اپنے سرمائے سے پوری کیں، کیوں کہ حکومت یہ فراہم نہیں کر سکی۔ اس مقصد کے لیے انڈسٹری نے حکومت سے ایک خاص ٹیرف پر گیس کے کنکشنز لیے، جسے ’’کیپٹیو پاور‘‘ کہا جاتا ہے ، جو صرف ایک ہی جگہ، ایک ہی مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اب ایک ہی ذریعے سے گھروں میں بھی گیس فراہم کی جا رہی ہے اور صنعتوں کو بھی، مگر ہمیں ہرگز گیس خریدنے کا شوق نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہمیں گیس فراہم کرے۔ کراچی میں بجلی کا حالیہ بحران خاصا پیچیدہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی نے گیس کی فراہمی کے بدلے کے الیکٹرک سے اپنے واجبات ادا کرنے کا مطالبہ کیا، جب کہ واجبات کا معاملہ عدالت میں ہے اور فیصلہ نہ ہونے تک ایس ایس جی سی کے الیکٹرک سے واجبات کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔ کے الیکٹرک کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت اسے واجبات نہیں ادا کر رہی اور حکومت ادا بھی کیوں کرے؟ دراصل، جب کے ای کی نجکاری ہوئی تھی، تو معاہدے میں اسٹرٹیجک اداروں کی ایک فہرست بھی شامل کی گئی، جس میں اسپتال، پولیس اسٹیشنز، ججز کے گھر اور دیگر ادارے شامل ہیں۔ اگر یہ ادارے دیوالیہ ہو جاتے ہیں، تو واجبات کی ادائیگی حکومت کرے گی۔ کے الیکٹرک کا کہنا تھا کہ اگر یہ ادارے اس کے بقایا جات ادا نہیں کر پا رہے، تو حکومت انہیں ادا کرے اور اگر حکومت یہ نہیں کر سکتی، تو سوئی سدرن گیس کمپنی کے واجبات ادا کر دیے جائیں۔ اس تنازعے کے نتیجے میں پورے صنعتی شعبے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس دوران تقریباً ہر انڈسٹری کو اپنی ایک شفٹ بند کرنا پڑی۔ یعنی صنعت کاروں کو ملازمین کے تمام حقوق اور تمام ٹیکسز ادا کرنے کے باوجود بھی پیداوار میں کمی کا سامنا ہے۔ اب ہم گھریلو صارفین کی بات کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے آج سے 20برس قبل گھر تعمیر کیا تھا، تو تب اس کی بجلی کی ضرورت 5کلو واٹ تھی، جو گھروں کا سائز بڑھنے کی وجہ سے اس وقت کم و بیش 20کلو واٹ تک پہنچ چکی ہے، جب کہ کے الیکٹرک کے پاس وہی 5کلو واٹ درج ہے اور وہ اپنے اعداد و شمار کی روشنی میں یہی کہتی ہے کہ اب لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی۔ اب صارفین کے لیے اپنی کھپت کو درست کروانا ضروری ہے، کیوں کہ جب تک ڈیٹا ٹھیک نہیں ہو گا، اسے ٹھیک طرح بجلی نہیں ملے گی۔ کہا جاتا ہے کہ کے الیکٹرک کو 650میگا واٹ بجلی فراہم کی جارہی ہے، لیکن یہ فراہم نہیں کی جا رہی، بلکہ لی جا رہی ہے، کیوں کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں پانی سے بجلی تیار نہیں ہوتی۔

جنگ :کہا جا رہا ہے کہ کے ای کو فرنس آئل پر بجلی مہنگی پڑتی ہے، لہٰذا وہ گیس سے بجلی بنا رہی ہے، تو اس کی کیا وجہ ہے؟

ڈاکٹر قاضی احمد کمال:اس کے دو پہلو ہیں۔ پہلا پہلو مشین کی کارکردگی سے متعلق ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم سی این جی پر اپنی گاڑی چلاتے ہیں، تو اس سے ہمارے پیسوں کی بچت تو ہوتی ہے، لیکن کہا جاتا ہے کہ اس سے انجن کو نقصان پہنچتا ہے۔ اسی طرح کے ای کے تمام پلانٹس Dual Firedہیں۔ یعنی انہیں گیس اور فرنس آئل دونوں پر چلایا جا سکتا ہے، لیکن کارکردگی سی این جی کی زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح اب جو نئے یونٹس لگ رہے ہیں، انہیں ڈیزل پر بھی چلایا جا سکتا ہے، لیکن اس پر 20سے 25روپے لاگت آئے گی اور عام آدمی اسے برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ فرنس آئل پر بھی 24گھنٹے بجلی فراہم کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے سبب بجلی کے نرخ بڑھ جائیں گے۔ نیپرا کا کہنا ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال ہونے والے ایندھن کے ثمرات پوری طرح صارفین تک منتقل ہوں۔

جنگ :بجلی کے نرخ تو فرنس آئل پر طے ہوئے تھے اور کے الیکٹرک گیس سے بجلی تیار کر رہی ہے، تو پھر فرنس آئل سے بجلی تیار کرنے سے اس کے نرخ کیوں بڑھ جائیں گے؟

ڈاکٹر قاضی احمد کمال:جی بالکل۔ جب کے ای کی نجکاری کی جا رہی تھی، تو معاہدے میں یہ شرط شامل تھی اور تب اسے ڈسکو اسٹیٹس بھی نہیں ملا تھا، جس کے تحت انہیں بہت کم نرخوں پر 650میگاواٹ بجلی ملتی ہے۔ نیپرا کی جانب سے کے ای کو ڈسکو اسٹیٹس ملنے پر اس کے منافع میں اضافہ ہوا ہے۔

جنگ:آپ نے کراچی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اس مسئلے کی حقیقت کیا ہے اور اسے کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟

ناظم ایف حاجی:اس وقت کے الیکٹرک نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے، جو پاکستان کے مسابقتی کمیشن کی خلاف ورزی ہے۔ میں خود کو صارف کے بہ جائے ایک گاہک سمجھتا ہوں۔ کے الیکٹرک نے معاہدہ کیا ہے کہ وہ ہمیں بلا تعطل معیاری بجلی فراہم کرے گی اور اسے اس پر عملدرآمد کرنا چاہیے۔ ہمارا اس سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ کیسے بجلی پورا کرے گی۔ کے الیکٹرک بجلی کی فراہمی میں امتیازی سلوک کر رہی ہے اور میں اس پر عدالت بھی جا چکا ہوں۔ یعنی یہ کیسا انصاف ہے کہ میں پورا بل ادا کر رہا ہوں ، لیکن مجھے اس وجہ سے لوڈ شیڈنگ برداشت کرنا پڑ رہی ہے کہ جس علاقے میں میں رہتا ہوں، وہاں بجلی چوری ہوتی ہے۔ یہ نو آبادیاتی دور کی سزا ہے۔ اس دور میں جب کوئی قاتل نہیں ملتا تھا، تو اس کی سزا پورے علاقے کو دی جاتی تھی۔ ہمارے پاس سندھ ہائی کورٹ کا مئی 2017ء کا عدالتی فیصلہ موجود ہے اور کے الیکٹرک مستقل اس کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ کے الیکٹرک نے بڑے بڑے قانون دانوں کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں اور کسی عدالتی فیصلے کو تسلیم نہیں کرتی۔ 24گھنٹوں میں 4گھنٹے یعنی شام 6سے رات 10بجے تک پیک آورز ہوتے ہیں اور اگر کوئی کسٹمر 300یونٹس استعمال کرتا ہے، تو پیک آورز کے نوٹیفائڈ ریٹس 18روپے اور آف پیک آورز کے 12.5روپے ہیں، لیکن کے الیکٹرک آف پیک آورز کے بھی18روپے چارج کرتی ہے۔ میں نے اس بارے میں آگہی پیدا کی، تو انڈسٹری نے شور مچایا، اب انہیں صحیح ٹیرف پر بجلی مل رہی ہے، لیکن گھریلو صارفین کو نہیں مل رہی اور نہ ہی اس شہر میں گھریلو صارفین کی کوئی نمایندگی موجود ہے۔

جنگ :شہر میں کنزیومرز ایسوسی ایشنز موجود ہیں، وہ کیا کر رہی ہیں؟

ناظم ایف حاجی :یہ منظم نہیں ہیں۔ اگر شہری مل کر ایک منظم ایسوسی ایشن بنائیں، تو نہ صرف بجلی کی لوڈ شیڈنگ بلکہ پانی کی قلت سمیت دیگر مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں نیٹ میٹرنگ کا نظام بھی وجود میں آچکا ہے۔ اس سسٹم میں یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ بجلی کا کوئی متبادل ذریعہ استعمال کر رہے ہیں، تو فالتو بجلی گرڈ کو دے سکتے ہیں۔ اس کے ریٹ میں تو فرق ہو گا، مگر اس سے شہریوں کو فائدہ ضرور ہو گا، لیکن کے الیکٹرک اس پر آمادہ نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ جب لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی تھی، تو اس سے پہلے ہی کے الیکٹرک کے بن قاسم میں موجود 6یونٹس فرنس آئل سے بھرے ہوئے تھے اور قانونی طور پر بھی یہ اس بات کے پابند ہیں۔ میں کے الیکٹرک اور ایس ایس جی سی کے تنازعے میں نہیں پڑھنا چاہتا، لیکن حکومت کو واجبات ادا نہیں کرنے چاہئیں۔ اس نے کم و بیش 10ماہ بعد بھی اپنا 2017ء کا اکائونٹ آڈٹ عام نہیں کیا، حالاں کہ قانونی طور پر وہ اپنی بیلنس شیٹ شایع کرنے کی پابند ہے۔ 2016ء میں بھی ایسا ہوا تھا اور تب میں نے ایس ای سی پی سے رجوع کیا تھا۔ اس وقت کے ای کا کہنا تھا کہ ان کا ملٹی ٹیرف متعین نہیں ہو رہا۔ اس وقت بھی اتنی بڑی ٹرانزیکشن ہو رہی ہے اور یہ شنگھائی الیکٹرک کو بیچنے جا رہی ہے، لیکن اس بارے میں حکومت تک کو کوئی معلومات نہیں کہ اس کی کیا پوزیشن ہو گی۔

جنگ :یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کے الیکٹرک کی نجکاری کا معاہدہ بھی خفیہ رکھا گیا ہے؟

ناظم ایف حاجی :صرف شیئر ہولڈرز ٹرانسفرز کو عام کیا گیا تھا اور وہ بھی میں نے کے الیکٹرک یونین کے ذریعے حاصل کی تھیں، لیکن باقی تفصیلات کو عام نہیں کیا گیا۔ دنیا میں کہیں بھی یوٹیلٹیز میں اجارہ داری قائم نہیں کی جاتی۔ اس ضمن میں نیپرا اپنا کردار ادا کر سکتی ہے، لیکن وہ بھی کے الیکٹرک سے ملی ہوئی ہے اور میرے پاس اس کے ثبوت موجود ہیں۔ نیپرا قانون کی خلاف ورزی کرنے پر کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ کر سکتی ہے اور اس وقت معاہدے پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے نیپرا کو کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ کر دینا چاہیے۔

جنگ:کسی ادارے کی نجکاری اس لیے کی جاتی ہے کہ اس کی کارکردگی بہتر ہو، لیکن کے الیکٹرک کی نجکاری کے بعد تو لوڈ شیڈنگ میں مزید اضافہ ہو گیا؟

اسامہ قریشی:دراصل، دو اداروں کی لڑائی میں عوام پس گئے اور اس وقت تنازعے کا جو حل نکلا ہے، وہ پہلے بھی نکل سکتا تھا۔ یعنی اگر پہلے ہی ایل این جی پر سمجھوتا کر لیا جاتا، تو عوام کو اس اذیت سے نہ گزرنا پڑتا۔ پھر ایک مہینے بعد وزیرِ اعظم نے کہا کہ ’’میں نے کہہ دیا ہے کہ گیس فراہم کی جائے۔‘‘ وہ تو ایک ماہ پہلے بھی یہ کہہ سکتے تھے۔

جنگ:اس مسئلے کا حل کیا ہے؟

اسامہ قریشی :اس سارے مسئلے کی جڑ گردشی قرضے ہیں۔ ایس ایس جی سی کا پہلے کہنا تھا کہ اس کے پاس گیس نہیں ہے اور پھر گیس فراہم کر دی۔ تاہم، یہ بات درست ہے کہ ہماری مقامی گیس میں کمی واقع ہو رہی ہے اور ہمیں ایل این جی جیسے دیگر متبادل ذرایع پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اگرچہ دونوں ہی قدرتی گیس ہیں، لیکن ایل این جی کے نرخ 1100اور سی این جی کے 400روپے ہیں اور اب کے الیکٹرک کو سی این جی کے ساتھ ایل این جی بھی فراہم کی جا رہی ہے۔

ناظم ایف حاجی:میں یہاں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کے الیکٹرک کو 90ایم ایم سی ایف ڈی گیس دینے کے دوران نوری آباد میں اومنی گروپ کا ایک پلانٹ لگا ۔ اس سے 20ایم ایم سی ایف ڈی گیس مل رہی ہے اور اس کی بجلی بھی کے الیکٹرک کو مل رہی ہے۔ یعنی کے الیکٹرک کو 110ایم ایم سی ایف ڈی گیس مل رہی ہے۔

اسامہ قریشی :یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیرِ اعظم ایک ماہ پہلے یہ مسئلہ حل نہیں کروا سکتے تھے؟ کیا پہلے ایل این جی دستیاب نہیں تھی اور اگر دستیاب تھی، تو اسے فراہم کیوں نہیں کیا گیا؟ پھر ایل این جی، فرنس آئل کے مقابلے میں 20فی صد سستی ہے اور پاور پلانٹس کو اس کی مدد سے بھی چلایا جا سکتا ہے۔کے ای 190ایم ایم سی ایف ڈی مقامی گیس طلب کر رہی تھی، لیکن اسے 130ایم ایم سی ایف ڈی مقامی اور 60ایم ایم سی ایف ڈی ایل این جی فراہم کی گئی۔ یہ ایک عارضی بندوبست ہے، کیوں کہ کے ای اور ایس ایس جی سی کے درمیان تنازع تاحال برقرار ہے اور پھر بحران کھڑا ہو سکتا ہے۔

جنگ:کراچی کی طلب کتنی ہے اور کے ای کے پاس کتنی بجلی ہے؟

اسامہ قریشی:کراچی کی بجلی کی طلب 3ہزار سے 3300میگاواٹ ہے اور کے ای کم و بیش 2900میگاواٹ بجلی بنانے کی استعداد رکھتی ہے۔ بعض پلانٹس کی کارکردگی کم ہو گئی ہے اور وہ استعداد کے مطابق بجلی تیار نہیں کر رہے۔ یہ بحران ایک انتہائی نازک وقت پر پیدا ہوا کہ جب کنزیومر انڈسٹری کو اپنی پیداوار بڑھانے کی ضرورت تھی، کیوں کہ رمضان المبارک قریب ہے۔ اس کی وجہ سے جہاں صنعت کاروں کا نقصان ہوا، وہیں شہریوں کو ایک ماہ تک اذیت برداشت کرنی پڑی، حالاں کہ کراچی کے عوام باقاعدگی سے بل ادا کر رہے ہیں، لیکن اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک ماہ بعد بڑے آرام سے یہ بحران ختم بھی کر دیا گیا، تو پہلے ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ اس وقت کراچی لوڈ شیڈنگ اور پانی کی قلت سمیت دیگر کئی مسائل کا شکار ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی کراچی کی ذمہ داری لینے والا ہی نہیں ہے۔

ڈاکٹر قاضی احمد کمال:میں یہاں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ایل این جی کی قیمت خام تیل کی قیمت سے جڑی ہوئی ہے اور جوں جوں عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھے گی یا ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو گا، ایل این جی کی قیمت بھی بڑھ جائے گی اور اس کے نتیجے میں ہمیں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ہمارے پاس گیس کے متبادل ذرایع موجود ہیں، لیکن ان پر کوئی غور ہی نہیں کرتا۔ ہمارے ملک میں شیل گیس سمیت دوسری گیسز کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جن کا تخمینہ 154ٹریلین کیوبک فٹ لگایا گیا ہے، مگر ہم ان میں دلچسپی نہیں لیتے اور باہر والے آکر انہیں تلاش کر رہے ہیں۔

اسامہ قریشی:قاضی صاحب نے بالکل درست فرمایا۔ اس وقت ہماری توانائی کی پیداوار انحصار درآمد شدہ ایندھن پر ہے۔ چاہے وہ فرنس آئل ہو یا گیس۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا انرجی مکس درست نہیں ہے اور ہمیں اس میں ہائیڈل انرجی اور سولر انرجی کو بھی شامل کرنا چاہیے۔

جنگ: لیکن توانائی کے متبادل ذرایع پر کام تو جاری ہے؟

اسامہ قریشی:کام تو جاری ہے، لیکن ان کا ہمارے انرجی مکس میں حصہ کتنا ہے۔ ہمارے پاس ہوا اور سورج کی روشنی وافر مقدار میں موجود ہے۔ ان کا شیئر کم از کم 20فی صد ہونا چاہیے۔ چلیں ونڈ انرجی تو مہنگی ہے، لیکن سولر انرجی تو سستی ہے ناں۔ ہمیں اسے استعمال میں لانا چاہیے۔

ناظم ایف حاجی:ہم قطر سے بحری جہاز کے ذریعے ایل این جی درآمد کر رہے ہیں، لیکن ایران سے گیس نہیں خرید رہے، حالاں کہ پائپ لائن بھی بچھ چکی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر حیدر عباس:گزشتہ برس جنگ فورم ہی میں ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل نے دعویٰ کیا تھا کہ دسمبر 2017ء میں ملک میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ کراچی سمیت ملک بھر میں بجلی کا بحران پیدا ہو گیا؟ کہیںیہ سیاسی معاملہ تو نہیں؟

اسامہ قریشی:میں نے شروع ہی میں یہ بتا دیا تھا کہ اس وقت گردشی قرضے ایک ہزار ارب تک پہنچ چکے ہیں۔ جس کمپنی کو اپنا پاور پلانٹ چلانا ہے، اسے پیسوں کی ضرورت تو ہو گی اور اگر اسے رقم نہیں ملے گی، تو وہ بجلی بنانا بند کر دیں گے۔ حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جن علاقوں میں لائن لاسز نہیں ہیں، وہاں لوڈ شیڈنگ ختم کر دی گئی ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پورے ملک میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی۔

ڈاکٹر ظفر ناصر:پوری دنیا توانائی کے سستے ذرایع استعمال کر رہی ہے اور ہم مہنگی بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟

اسامہ قریشی:جی بالکل۔ ہمارے ملک میں بھی دوسرے ذرایع موجود ہیں، لیکن شاید ہمارا ویژن ہی نہیں ہے کہ ہم ان سے فائدہ نہیں اٹھا پارہے۔ تھر کول پلانٹ ایک اچھی کاوش ہے اور ہمیں اس منصوبے کو سراہنا چاہیے۔ اسی طرح ہمیں نئے ڈیم بنا کر پانی سے سستی بجلی پیدا کرنی چاہیے۔

جنگ :اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو 50میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، تو صوبے اس سلسلے میں کام کیوں نہیں کر رہے؟

ناظم ایف حاجی: سندھ حکومت کا کوئی ویژن ہی نہیں ہے۔ وہ صرف ایسے منصوبے شروع کرتی ہے، جس سے اس کے مفادات پورے ہوں۔

ڈاکٹر مدثر: کہا جا رہا ہے کہ سندھ انرجی بورڈ اور نیپرا کے درمیان تنازع کی وجہ سے بجلی کا بحران پیدا ہوا؟

اسامہ قریشی :میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں۔

ڈاکٹر قاضی احمد کمال :نیپرا کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ ٹیرف کو موخر کرتی ہے، جس کی وجہ سے سرمایہ کار ڈھیلا پڑ جاتا ہے۔

اسامہ قریشی:پاور پلانٹ لگنے سے قبل ہی ٹیرف مل چکا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر قاضی احمد کمال :اس وقت سارے سولر پلانٹس شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ ابھی تک ٹیرف کے مسائل برقرار ہیں۔

ناظم ایف حاجی:ہو سکتا ہے کہ نیپرا پہلے ہی ٹیرف کا تعین کر دیتی ہو، لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔

سید فیصل :ہم ایسی عمارتیں کیوں نہیں تعمیر کرتے کہ جن میں توانائی کا استعمال کم سے کم ہو؟

اسامہ قریشی :ہمارے ہاں ایسی کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں کی جاتی اور نہ ہی عوام میں شعور بیدار کیا جاتا ہے۔ البتہ بعض مقامات پر انرجی ایفیشنٹ ہائوسنگ سوسائٹیز اور شاپنگ مالز بن رہے ہیں۔

غلام صدیق: لائن لاسز کو کس طرح کم کیا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر قاضی احمد کمال:ہمارے ہاں بجلی کی ترسیل سے زیادہ بجلی کی چوری زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ جب کے ای کی نج کاری ہوئی تھی، تو اس کے لائن لاسز 37فی صد تھے، جو اس وقت کم و بیش 20فی صد ہیں اور ایک فی صد ڈیڑھ ارب کے مساوی ہے۔ یعنی کے ای نے لائن لاسز کم کر کے اپنی بچت کی۔

جنگ: بجلی چوری پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟

اسامہ قریشی:اس میں کمی آ رہی ہے اور اب بجلی چوری کا تناسب40فی صد سے کم ہو کر 20فی صد تک پہنچ چکا ہے۔اب ایریل بنڈل کیبلز اور اسمارٹ میٹر نصب کیے جا رہے ہیں، جن کے نتیجے میں بجلی چوری نہیں کی جا سکتی، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کے ای کی نگرانی کے لیے بنایا گیا ادارہ اپنا کام کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ حکومت کا کام کاروبار چلانا نہیں ہے اور اس میدان میں مقابلے کی فضا قائم ہونی چاہیے۔

جنگ :صرف کراچی ہی میں بجلی کے نظام کی نج کاری کیوں کی گئی؟

اسامہ قریشی: لیکن اس کے نتیجے میں شہر میں بہتری بھی تو آئی ہے۔

جنگ: کیا اب کے الیکٹرک کو شنگھائی الیکٹرک کو فروخت کیا جا رہا ہے؟

اسامہ قریشی:جی یہ اطلاعات درست ہیں۔ کے ای کو شنگھائی کو فروخت کرنا چاہیے، لیکن میں اس بات کا بھی اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ ٹرانسمیشن لائنز اور گرڈ اسٹیشن درست کرنے میں دو سال سے زاید کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

ڈاکٹر قاضی احمد کمال :ہمیں خود بھی بجلی کی بچت کرنی چاہیے۔ ہم اکثر ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی اشیا کا سوئچ آف آف نہیں کرتے، جس کی وجہ سے بجلی ضائع ہوتی رہتی ہے۔ اسی طرح ہم کسی بھی وقت استری کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔

ناظم ایف حاجی:ہمیں پیک آورز میں استری اور واشنگ مشین سمیت زیادہ بجلی پر چلنے والی اشیا کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر قاضی احمد کمال:اس وقت کراچی کی آبادی 2.5کروڑ کے لگ بھگ ہے اور جب نیپرا کی میٹنگ ہوتی ہے، تو کراچی کے صرف دو نمایندے موجود ہوتے ہیں۔ شہریوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے آگے آنا چاہیے۔ نیز، کراچی کی صنعتوں کو بلاتعطل اور معیاری بجلی فراہم کی جائے۔

اسامہ قریشی:میں یہ تجویز دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں درآمدی ایندھن کے بہ جائے مقامی وسائل تلاش کر کے ان پر انحصار کرنا چاہیے، کیوں کہ ڈالر کی قدر میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمیں ڈیمز بنانے چاہئیں اور چھوٹے پاور پلانٹس رکھنے والوں کو بجلی فروخت کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔ اس وقت ہمیں مستقل طور پر معیاری بجلی اور معیاری کسٹمر سروس کی ضرورت ہے۔

ناظم ایف حاجی :میں شہریوں سے درخواست کرتا ہوں کہ جب عدالتوں میں عوامی مسائل پر مبنی مقدمات کی سماعت جاری ہو، تو وہ بھی اس میں حصہ لیں، کیوں کہ عوام کی آواز ججز پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں عدالت جرآت مندانہ فیصلے بھی کرتی ہے۔ اس وقت جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں واٹر کمیشن بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

جنگ: کیا بجلی کے بحران پر چیف جسٹس سومو ٹو نوٹس نہیں لے سکتے؟

ناظم ایف حاجی:اس وقت چیف جسٹس صاحب نے سوموٹو نوٹس لینے پر پابندی عاید کر رکھی ہے۔

خالد امین: ہمیں بجلی چوری کرنے والے اور بل ادا نہ کرنے والے شہریوں میں آگہی پیدا کرنی چاہیے۔