پاپولر بجٹ

May 14, 2018

میزبان:محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ:طلعت عمران

عکّاسی:اسرائیل انصاری

عوام کی خوشحالی کے لیے ہمیں ٹیکس نیٹ بڑھانا اور پبلک سیکٹر میں اصلاحات کرنا ہوں گی،تعلیم و صحت کے لیے مختص بجٹ اتنا کم ہے کہ اگر اسے دس گنا بڑھایا جائے، تو پھر کوئی بات بنے گی،اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم و صحت کے شعبے میں کچھ بہتری ضرور آئی ہے،

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی کامیاب رہا ، لیکن ہم مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکے اور اس کے لیے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے، ہنر مند افرادی قوت نہ ہونے کے سبب کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، پاکستان اس دنیا میں سب سے بڑا’’ پاناما‘‘ ہے، ہمیں اپنی معیشت کو دستاویزی شکل دینی چاہیے، ایمنسٹی اسکیم کی حمایت کرتا ہوں،ملک کی بہتری اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بہتر طرزِ حکمرانی، پبلک سیکٹر میں اصلاحات اور اداروں کا آزادانہ کام کرنا بہت ضروری ہے

امین ہاشوانی

حالیہ بجٹ حکومت کی گزشتہ پانچ سال کی پالیسی سے یکسر مختلف ہے، حکومت نے ثابت کر دیا کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران اس نے درست پالیسی نہیں بنائی،حکومت نے 184ارب کے ٹیکسز کم کیے ،

لیکن آئل لیوی کی مد میں 300ارب کے ٹیکسز کا اضافہ کر دیا،موجودہ حکومت کی جانب سے لیے گئے ہوش ربا قرضوں کے پیشِ نظر بعض معاشی ماہرین مستقبل میں مالیاتی ایمرجنسی کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں،ایمنسٹی اسکیم میں اثاثے ظاہر نہ کرنے والوں کی سزا کا تعین نہ کرنے سے کرپشن کا نیا دروازہ کھل گیا،ہر سال ایک سو ارب ڈالرز کی منی لانڈرنگ ہو رہی ہے،دنیا بھر میں کہیں بھی 17فی صد سیلز ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا ،جب تک بلاواسطہ ٹیکسز نہیں لگائے جاتے، مسائل حل نہیں ہوں گے

سردار محمد اشرف خان

انتخابات سے چند ماہ قبل اس قسم کا بجٹ پیش کر کے عوام کی ہمدردیاں اور ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ٹیکس ریٹ بڑھانے سے لاکھوں ٹیکس گزار ٹیکس نیٹ سے نکل جائیں گے،

جس سے حکومت کی آمدنی میں خاصی کمی واقع ہو گی اور نئی حکومت کو آمدنی میں اضافے کے لیے نئے ٹیکس گزار تلاش کر نا ہوں گے، اپوزیشن جماعتیں بجٹ کی مخالفت کر رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد نیا بجٹ پیش کریں گی یا ترجیحات بدل دیں گی،ہمیں اپنے بنیادی ڈھانچے کو درست کرنا ہو گا،ہمیں نئی نسل کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کی ضرورت ہے

ہما بخاری

پہلی مرتبہ کوئی شہری متوسط طبقے کا بجٹ آیا،نیا بجٹ بنیادی طور پر ایک پاپولر بجٹ ہے، آگے چل کر اس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ،

بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کمرشل بینکوں سے ایک ہزار 15ارب روپے قرضہ لیا جائے گا،جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے،نئی حکومت کے لیے بجٹ میں تبدیلی مشکل ہو گی،ہمیشہ کی طرح اس بجٹ میں بھی عوام کو تعلیم و صحت کی سہولتیں فراہم نہیں کی گئیں،ہماری 60فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے، بجٹ میں نج کاری کے لیے رقم مختص نہیں کی گئی، زرعی سیکٹر کو سبسڈی نہ دینے کی وجہ سے اجناس مہنگی اور ان کی پیداوار کم ہو سکتی ہے

ڈاکٹر ایوب مہر

گزشتہ دنوں پوسٹ بجٹ فورم کے سلسلے کا دوسرا فورم نیو پورٹس انسٹی ٹیوٹ آف کمیونی کیشنز اینڈ اکانومکس میں ’’ملکی بجٹ سے گھر کے بجٹ تک‘‘ کے موضوع پر منعقد کیا گیا۔ اس فورم میں شرکا کے سامنے یہ سوالات رکھے گئے کہ نئے بجٹ میں عام آدمی کو کتنا ریلیف دیا گیا ہے؟ گزشتہ پانچ برس کے دوران عوام کی مشکلات بالخصوص غربت میں کتنی کمی واقع ہوئی؟ حکومت کی ترجیحات درست تھیں یا غلط؟ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صحت و تعلیم کے شعبے میں صوبوں کی ذمے داریوں میں اضافہ ہوا اور انہوں نے اس ضمن میں کتنا کردار ادا کیا؟ موجودہ دور حکومت میں فی کس آمدنی میں کتنا اضافہ ہوا اور اس سلسلے میں کیا حکمتِ عملی اپنائی گئی؟ غربت کے خاتمے میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کس قدر معاون ثابت ہوا اور موجودہ حکومت نے اس پروگرام کو کتنی توسیع دی؟ فورم کے شرکا میں ہاشوانی گروپ آف کمپنیز کے ڈائریکٹر اور پاکستان، انڈیا سی ای اوز بزنس فورم کے صدر، امین ہاشوانی، معروف کاروباری شخصیت اور ماہر معیشت، سردار محمد اشرف خان، ایف پی سی سی آئی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے سابق ڈائریکٹر اور ماہر معیشت، ڈاکٹر ایوب مہر اور نیو پورٹس انسٹی ٹیوٹ آف کمیونی کیشنز اینڈ اکانومکس کی چیئر پرسن اور کنزیومر فورم کی صدر، ہما بخاری نے اظہار خیال کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

جنگ:آیندہ مالی سال کے بجٹ سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟

ہما بخاری:نئے بجٹ میں سالانہ 12لاکھ سے کم آمدن والوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے کر اچھا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے تنخواہ دار طبقے کو ریلیف ملے گا۔ اسی طرح ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو گا۔ اگرچہ یہ بجٹ کسی حد تک عوامی امنگوں پر پورا اترتا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ انتخابات سے چند ماہ قبل اس قسم کا بجٹ پیش کر کے عوام کی ہمدردیاں اور الیکشن میں عوام کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پھر ہمیں اس بات کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ کیا نگراں سیٹ اپ یا نئی حکومت اس بجٹ کو برقرار رکھ پائے گی۔ یعنی یہ بجٹ قابلِ عمل بھی ہے یا نہیں۔ اس وقت اپوزیشن جماعتیں بجٹ کی مخالفت کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد نیا بجٹ پیش کریں گی یا ترجیحات بدل دیں گی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ٹیکس ریٹ بڑھانے سے لاکھوں ٹیکس گزار ٹیکس نیٹ سے نکل جائیں گے، جس سے حکومت کی آمدنی میں خاصی کمی واقع ہو گی۔ اب آیندہ حکومت کو آمدنی میں اضافے کے لیے نئے ٹیکس گزار تلاش کر کے اپنا ٹیکس نیٹ بڑھانا ہو گا۔

جنگ :موجودہ حکومت نے اپنا چھٹا بجٹ پیش کر دیا، لیکن پچھلے 5برس کے دوران حکومت غربت کی شرح کم کرنے میں کس قدر کامیاب رہی؟ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے افراطِ زر کو قابو میں رکھا۔ یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے؟

ڈاکٹر ایوب مہر:موجودہ بجٹ بنیادی طور پر ایک پاپولر بجٹ ہے۔ ایسے بجٹ عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں، لیکن آگے چل کر ان کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور پھر یہ دیرپا بھی نہیں ہوتے۔ اس بجٹ میں عوام اور کارپوریٹ سیکٹر کو ٹیکس میں چھوٹ دی گئی، بونس اور منافع پر ٹیکس کم کیا گیا اور تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا۔ سو، پہلی مرتبہ کوئی شہری متوسط طبقے کا بجٹ نظر آیا۔ اس حد تو درست ہے، لیکن جب اخراجات بڑھائے جا رہے ہوں اور آمدن میں کمی کی جا رہی ہے، تو پھر کسی نہ کسی طریقے سے تو اخراجات پورے کیے جائیں گے۔ بجٹ سامنے آنے کے بعد حکومت کی بقیہ مدت پر تو بات کی جا رہی ہے، لیکن اس پہلو پر کوئی غور نہیں کر رہا کہ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کمرشل بینکوں سے ایک ہزار 15ارب روپے قرضہ لیا جائے گا، جب کہ گزشتہ 7،8برس سے کمرشل بینکوں سے قرضہ لینے کا ہدف 300سے 350ارب روپے رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ برس 300ارب کا ہدف رکھا گیا تھا، لیکن 500ارب روپے کا قرضہ لیا گیا، جب کہ اس مرتبہ تو ہدف ہی 10کھرب روپے رکھا گیا ہے اور نہ جانے کتنا قرض لیا جائے گا۔ یہ قرضہ حکومت کو ملنے کی وجہ سے کمرشل بینکوں سے کارپوریٹ سیکٹر کو قرض نہیں مل سکے گا، جس کی وجہ سے یہ سیکٹر متاثر ہو گا۔ اس سے بینکوں کو فائدہ ہو گا کہ انہیں نہ ہی کسی فزیبلٹی رپورٹ کا مطالعہ کرنا ہو گا اور نہ ہی رسک مینجمنٹ کرنا ہو گی۔ اب جب حکومت کو کمرشل بینکوں کو قرض کی ادائیگی کرنا ہو گی، تو وہ اس مقصد کے لیے بالواسطہ ٹیکسز میں اضافہ کرے گی، جس کے نتیجے میں افراطِ زر میں اضافہ ہو گا اور اشیا کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ نئی حکومت اس بجٹ کو آسانی کے ساتھ تبدیل نہیں کر سکتی، کیوں کہ کوئی بھی سیاسی حکومت تنخواہیں بڑھنے کے بعد انہیں کم نہیں کر سکتی اور نہ ہی ختم کیے گئے ٹیکسز دوبارہ لاگو کر سکتی ہے۔ جب نئی حکومت اسی بجٹ پر عمل درآمد کرے گی، تو اگلے دو، تین برسوں میں معیشت شدید دبائو کا شکار ہو جائے گی۔ اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر میں افراطِ زر کی شرح کم ہے، لیکن یہ بجٹ پیش کرتے وقت حکومت نے خود ہی بتا دیا کہ نئے مال سال کا آغاز ہوتے ہی افراطِ زر بڑھ جائے گا، جو 6فی صد ہو گا۔ پاکستان میں غربت کی کمی کے لیے آبادی اور فی کس آمدنی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہماری شرحِ نمو کم از کم جی ڈی پی کی 7فی صد ہونی چاہیے۔ غربت میں کمی کے لیے بالواسطہ ٹیکسز میں کمی لانا پڑتی ہے۔ ہمارے پڑوسی ممالک میں 70فی صد بلا واسطہ اور 30فی صد بالواسطہ ٹیکسز عاید ہیں، جب کہ پاکستان میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں بالواسطہ ٹیکسز کم کرنے کی پالیسی پیش کی تھی، لیکن ابھی تک پرانی پالیسی ہی برقرار ہے۔

جنگ:ہر حکومت عوام کو صحت اور تعلیم سمیت دوسری سہولتیں فراہم کرنے کے دعوے تو کرتی ہے، لیکن ان پر عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور پھر اس بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لیے بہت کم رقم مختص کی گئی ہے۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

ڈاکٹر ایوب مہر :پلاننگ کمیشن اور اکنامک سروے کی دستاویزات بجٹ سے متعلق ہونی چاہئیں۔ ہر چار سال بعد حکومت ہائوس ہولڈ انکم اینڈایکسپنڈیچر سروے جاری کرتی ہے، جس میں معاشرے کے مختلف طبقات کے اخراجات کی تفصیل بیان کی جاتی ہے۔ اس سروے کے مطابق، نچلا طبقہ اپنی آمدنی کا 90فی صد خوراک پر خرچ کرتا ہے، جب کہ بالائی طبقہ اپنی آمدنی کا صرف 10فی صد خوراک پر خرچ کرتا ہے اور 90فی صد دوسرے چیزوں پر۔ ان دنوں موبائل فون، انٹرنیٹ اور لیپ ٹاپ سمیت دیگر اشیا پر رقم خرچ کی جا رہی ہے اور تعلیم بھی خاصی مہنگی ہو چکی ہے۔ لہٰذا، جب افراطِ زر میں اضافہ ہو گا، تو کم آمدنی والا طبقہ اپنی خوراک کو ترجیح دیتے ہوئے دیگر مدوں میں اخراجات کم کر دے گا اور اس کا سب سے زیادہ منفی اثر تعلیم پر مرتب ہوتا ہے۔نیز، سروے کے مطابق، متوسط طبقے یا نچلے متوسط کی نچلے طبقے میں تنزلی کی عموماً پانچ وجوہ ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی وجہ علاج معالجے پر آنے والے اخراجات ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی نچلے متوسط یا متوسط طبقے والے گھرانے کا کوئی فرد کسی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے، تو اس کے علاج معالجے پر اٹھنے والے اخراجات کے نتیجے میں وہ گھراناغریب ہو جاتا ہے، مگر افسوس کی بات ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بجٹ میں بھی عوام کو تعلیم و صحت کی سہولتیں فراہم نہیں کی گئیں۔

جنگ:حالیہ بجٹ سے عام افراد کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ نیز، موجودہ حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کیسی رہی؟

امین ہاشوانی:اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے، تو ہمارے بجٹ کا بہت بڑا حصہ دفاعی اخراجات، قرضوں کی ادائیگی اور سرکاری اداروں کا خسارہ پورا کرنے میں صرف ہوجاتا ہے اور پھر ہم اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مزید قرضے لیتے ہیں، لیکن اگر ہم اپنے ملک کو خوش حال اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ ہمارے ملک میں پراپرٹی بلیک منی کا پارکنگ لاٹ بن چکی ہے۔ ارب پتی افراد تک ٹیکس ادا نہیں کرتے اور بالواسطہ ٹیکسز عاید کر کے عوام کا خون نچوڑا جا رہا ہے۔ ہمیں ایک ترقی یافتہ ملک بننے کے لیے نہایت سخت فیصلے کرنا پڑیں گے۔ اس ضمن میں صرف حکومت ہی نہیں بلکہ ہمارا معاشرہ بھی قصور وار ہے۔ مشرف دورِ حکومت میں جب معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی کوشش کی گئی، تو تاجر و صنعت کار احتجاج کرنے لگے اور انہوں نے عوام کی نظروں میں ہیرو بننے کی کوشش کی، حالانکہ کسی دوسرے ملک میں ٹیکس چوروں کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ وہ کہا جاتا ہے ناں کہ جنت میں تو ہر فرد جانا چاہتا ہے، لیکن مرنا کوئی نہیں چاہتا۔ ہمارے ملک کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ہم نعرے بازی تو کرتے ہیں، لیکن اقدامات نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں جب خسارے میں چلنے والے اداروں کی نج کاری کی کوشش کی جاتی ہے، تو کہا جاتا ہے کہ ہم قومی اثاثوں کو کوڑیوں کے مول فروخت نہیں ہونے دیں گے، حالاں کہ گزشتہ برسوں کے دوران خسارے کے شکار دو بینکوں کی نج کاری کی گئی، جو آج منافع بخش ادارے بن چکے ہیں اور حکومت کو ان سے اربوں کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ جب سرکاری ادارے بوجھ بن جائیں، تو پھر ان سے نجات حاصل کرنا پڑتی ہے۔ البتہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کے 30فی صد شیئرز اور انتظامی امور اپنے پاس رکھے۔ ہمیں تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک قومی ایجنڈا تشکیل دینا چاہیے۔

جنگ:ایسا لگتا ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کسی حکومت کا ایجنڈا نہیں؟

امین ہاشوانی:میں یہاں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر سیاسی رہنما اپنے معاشرے کا عکس ہوتا ہے۔ ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن ہم میں لا تعداد خامیاں پائی جاتی ہیں، تو جیسا معاشرہ ہو گا، لیڈر بھی ویسے ہی ہوں گے۔ ہمیں پہلے اپنی اصلاح کرنا ہو گی۔ بہر کیف، میں بجٹ کی طرف واپس آتا ہوں۔ ہمیں ٹیکس نیٹ بڑھانا ہو گا اور پبلک سیکٹر میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ اسی طرح سرکاری اداروں کی نج کاری بھی کوئی برا عمل نہیں۔ اگر ہم قواعد و ضوابط بنائیں اور ان اداروں پر کڑی نظر رکھیں، تو کوئی بھی ملازمین کا استحصال نہیں کرتا۔ اس معاملے پر عوام کو مشتعل کرنا درست نہیں۔ معروف ماہر معیشت، ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ملکی معیشت کے زوال کا بنیادی سبب اہم سرکاری اداروں کا زوال ہے۔ تمام اداروں کو کسی سیاسی جماعت کے زیرِ اثر آئے بغیر اپنا کام کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں میڈیا بھی اپنا کردار ادا کر سکتا ہے، لیکن آج کل میڈیا میں بھی حقیقی مسائل پر بات کرنے کے بہ جائے سنسنی پھیلانے پر زور ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرانے کے بہ جائے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہو گا اور اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا۔ جب تک ہم ایسا نہیں کرتے، یہ ملک خوش حال نہیں ہو سکتا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم و صحت کا شعبہ صوبائی حکومتوں کے دائرۂ اختیار میں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کے لیے مختص بجٹ دگنا کر دیا گیا ہے، لیکن اس بجٹ کا حجم اتنا کم ہے کہ اگر اسے دس گنا بڑھایا جائے، تو پھر کوئی بات بنے گی۔ پھر یہ بھی دیکھیں کہ صوبائی حکومتیں صحت اور تعلیم کے لیے جو بجٹ مختص کرتی ہیں، وہ پورا استعمال ہی نہیں ہوتا۔ اگرچہ سرکاری تعلیمی اداروں میں بعض اصلاحات کی گئی ہیں، لیکن ہمارا تعلیمی معیار اب بھی خاصا کمزور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔

جنگ:ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اختیارات کی نچلے درجے تک منتقلی کے باوجود بھی عوام کو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں نہیں مل سکیں۔

امین ہاشوانی:اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت کے شعبے میں کچھ بہتری ضرور آئی ہے۔ اس کے علاوہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی کامیاب رہا ہے، لیکن ہم مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکے اور اس کے لیے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ بہتری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر صوبے میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہونے کی وجہ سے مسابقت کی فضا پیدا ہو گئی ہے، لیکن شہروں کی آبادی میں اضافے، وسائل کی کمی اور آلودگی اور الجھنیں بڑھنے کی وجہ سے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چوں کہ پاکستان صدقات، خیرات کے اعتبار سے دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، جس کی وجہ سے عوام کو کسی حد تک ریلیف مل جاتا ہے، ورنہ حکومت پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے عوام کو ذات اور برادری کی بنیاد پر ووٹ دینے کے بہ جائے ایسے افراد کو پارلیمنٹ میں لانا چاہیے، جنہوں نے اپنے حلقے میں تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کی ہوں۔

جنگ:اس بجٹ میں زرعی شعبے بالخصوص کسانوں کو کسی قسم کی مراعات نہیں دی گئیں۔ کیا مستقبل میں ایک مرتبہ پھر ملک میں گندم کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ نیز، اس وقت ہمارے ملک میں فی کس آمدنی کیا ہے؟

ڈاکٹر ایوب مہر:ہماری فی کس آمدنی 1600ڈالرز سالانہ ہو چکی ہے اور اس اعتبار سے ہماری 60فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران جب مزدور کی کم سے کم تنخواہ میں اضافہ کیا گیا تھا، تو اس پر صنعت کاروں نے احتجاج کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے اداروں میں صرف لوگوں کی دل جوئی کے لیے طلب سے زیادہ افرادی قوت کو بھرتی کر لیا جاتا ہے، حالانکہ ان کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ وہ کوئی کام کرتے ہیں۔ ایسے افراد کو 10ہزار پر بھرتی کر لیا جاتا تھا، لیکن جب کم سے کم تنخواہ 13ہزار روپے مقرر کی گئی، تو ایسے افراد متاثر ہوئے۔ بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ وہ زراعت کی ان پٹ پر تو سبسڈی دے رہے ہیں، لیکن آیندہ وفاقی حکومت آئوٹ پٹ پر کسی قسم کی سبسڈی نہیں دے گی، کیوں کہ زراعت صوبائی حکومت کا معاملہ ہے اور اب صوبائی حکومت یہ کہے گی کہ وفاق کو سبسڈی دینی چاہیے۔ اس تنازع کے نتیجے میں یا تو ان اشیا کی پیداوار کم ہو گی یا پھر ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ اس وقت کپاس اور گنے کی پیداوار مسائل کا شکار ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران سرکاری اداروں کی نج کاری کے لیے بجٹ مختص کیا گیا تھا، لیکن اس مرتبہ اس مد میں کوئی رقم نہیں رکھی گئی۔ یعنی اس سال کسی ادارے کی نج کاری نہیں کی جائے گی۔ ہمارے ہاں یہ کہہ کر عوام کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے کہ قومی اداروں کی نج کاری کی جا رہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے تحت چلنے والے ادارے زیادہ منافع بخش ہوتے ہیں اور پھر ویسے بھی ایک نجی ادارہ بھی قومی ادارہ ہی ہوتا ہے۔

جنگ :موجودہ حکومت گزشتہ پانچ برس کے دوران کس قدر عوام دوست ثابت ہوئی اور موجودہ بجٹ کتنا عوام دوست ہے؟

سردار اشرف خان:حالیہ بجٹ حکومت کی گزشتہ پانچ سال کی پالیسی سے یکسر مختلف ہے۔ یعنی حکومت نے یہ ثابت کر دیا کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران اس نے درست پالیسی نہیں بنائی۔ اس بجٹ کے ذریعے حکومت نے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے دور میں جتنے قرضے لیے، اتنے پچھلے 66برس کے دوران نہیں لیے گئے۔ اس حکومت نے منہ مانگی شرحِ سود پر قرضے لیے۔ پھر ہماری درآمدات بھی بڑھتی جا رہی ہیں، جو اب 60ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہیں۔ اگرچہ حکومت نے اس بجٹ میں 184ارب کے ٹیکسز کم کیے ، لیکن آئل لیوی کی مد میں 300ارب کے ٹیکس کا اضافہ کر دیا۔ پھر اس حکومت نے نعرہ لگایا تھا کہ وہ اس ملک کو توانائی کے اعتبار سے خود کفیل بنا دے گی، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور اس کے بہ جائے بجلی کو تین گنا مہنگا کر دیا گیا۔ اسی طرح چین سمیت دیگر ممالک سے توانائی کے جتنے بھی معاہدے کیے گئے ہیں، وہ درآمد شدہ کوئلے کی بنیاد پر ہیں، جب کہ پوری دنیا میں کول انرجی کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے ۔ اگر حکومت کو کوئلے سے بجلی تیار ہی کرنی تھی، تو اس کے لیے تھر کول کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ عوام بجلی کے بل ادا نہیں کر پا رہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے لیے گئے ہوش ربا قرضوں کے پیشِ نظر بعض معاشی ماہرین مستقبل میں اقتصادی ایمرجنسی کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ پھر حکومت ایمنسٹی اسکیم کے تحت بیرونِ ملک موجود سرمایہ ملک میں لانا چاہتی ہے، لیکن اس میں اس بات کا تعین نہیں کیا گیا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں کیا سزا دی جائے گی۔ آج کل یہ خبر عام ہے کہ سابق وزیر اعظم،میاں نواز شریف نے 4.8ارب ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی۔ اس سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ میرے خیال میں ہر سال ایک سو ارب ڈالرز کی منی لانڈرنگ ہو رہی ہے۔

جنگ:حکومت نے ڈیوٹیز عاید کر کے درآمدات کم کرنے کی کوشش تو کی ہے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں؟

سردار اشرف خان:جب تک بلاواسطہ ٹیکسز نہیں لگائے جاتے، مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ہمارے ملک میں عوام سے بالواسطہ ٹیکسز وصول کیے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی 17فی صد سیلز ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا ، لیکن پاکستان میں ایسا ہو رہا ہے۔ مفتاح اسمٰعیل ایک قابل شخص ہیں، لیکن انہیں بڑی تاخیر سے کام کرنے کا موقع دیا گیا اور اب ان کے پاس اپنی پالیسیز پر عمل درآمد کروانے کا وقت بھی نہیں بچا۔ حکومت نے بجٹ میں جو ٹیکس کٹوتی کی ہے، اس پر جولائی سے عمل درآمد ہو گا، جب کہ جو نئے ٹیکسز لگائے گئے ہیں، ان کا اطلاق ابھی سے ہو گیا ہے۔ اس وقت پاکستان کے قرضے جی ڈی پی کے 67فی صد سے زیادہ ہے، جو نہایت تشویش ناک صورتِ حال ہے۔ اس ضمن میں یونان اور دیگر یورپی ممالک کی قرضوں کی سطح کو مثال کے طور پیش کیا جاتا ہے، لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر یہ ممالک یورپی یونین کا حصہ نہ ہوتے، تو کب سے ان کا دیوالیہ نکل چکا ہوتا۔ یونان کو بیل آئوٹ پیکیج بھی مل چکا ہے، لیکن ہمیں کون بیل آئوٹ پیکیج دے گا۔ چین بھی ہمیں مفت میں امداد نہیں دے گا۔ اب جہاں تک ایمنسٹی اسکیم کی بات ہے، تو اثاثے واپس نہ لانے والے افراد کی سزا کا تعین نہ کر کے کرپشن کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا گیا۔ یہ بیرون ملک موجود اثاثے ملک میں لانے کا آخری موقع ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

جنگ:پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ کیا انہیں ملک میں روزگار کے مواقع مل رہے ہیں؟

امین ہاشوانی:کسی بھی ملک کے نوجوان اس کے لیے اثاثہ بھی بن سکتے ہیں اور بوجھ بھی۔ ایک جانب ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے، تو دوسری طرف اداروں کو مطلوبہ ہنر رکھنے والے قابل نوجوان نہیں مل رہے۔ اس کا سبب ہمارا تعلیمی نظام ہے۔ اگر ہماری نئی نسل کو معیاری تعلیم فراہم کی جائے، تو ہمارے ملک میں کاروباری سرگرمیوں کو مزید فروغ مل سکتا ہے، جب کہ ہنر مند افرادی قوت نہ ہونے کے سبب ہمارے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ آج پاکستانی ہنرمند کی پیداوار یورپی ہنر مند کے مقابلے میں 6گنا کم ہے، لیکن جب یہی پاکستانی بیرون ملک جا کر جدید ٹیکنالوجی حاصل کرتا ہے، تو اس کی پیداواری صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ صرف جی ڈی پی میں اضافہ ہی کافی نہیں، کیوں کہ اگر امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہو رہا ہے، تو یہ بھی مستحسن عمل نہیں اور اس سے معیشت کو بھی فائدہ نہیں ہو گا۔ اگر کسی ایک فرد کے پاس 5کروڑ ڈالرز آگئے ، تو وہ اسے تقسیم کرنے کے بہ جائے اس میں مزید اضافے کی کوشش کرے گا، لیکن اگر یہی رقم لاکھوں افراد میں تقسیم ہو جائے، تو اس سے ان سب کا معیارِ زندگی بہتر ہو گا۔ میں اس بات سے بھی اختلاف کرتا ہوں کہ دنیا بھر میں کول انرجی کی حوصلہ شکنی جا رہی ہے۔ اس وقت بیش تر ممالک توانائی کے لیے 60سے 70فی صد کوئلے پر انحصار کرتے ہیں، جب کہ پاکستان توانائی کے حصول کے لیے ایک فی صد سے بھی کم کوئلے کا استعمال کرتا ہے۔ ہمیں اپنے انرجی مکس میں کوئلے کا تناسب بڑھانا چاہیے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ اسے 22فی صد تک بڑھایا جائے گا، تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ جب ہم تھر کا کوئلہ استعمال کریں گے، تو ہمارا درآمدی بل بھی کم ہو جائے گا اور آلودگی میں بھی کمی واقع ہو گی۔ اب جہاں تک ایمنسٹی اسکیم کا تعلق ہے، تو مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ یہ اسکیم ریونیو کے لیے نہیں بلکہ معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے لیے لائی جا رہی ہے۔ یوں جتنی معیشت کو دستاویزی شکل دی جائے گی، اتنا ہی ٹیکس ملے گا۔ اسی طریقے سے ہی ہم اپنی آمدن اور جی ڈی پی بڑھا سکتے ہیں، کیوں کہ آخر ہم بالواسطہ ٹیکسز پر کب تک گزارا کریں گے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ پاکستان اس دنیا میں سب سے بڑا پاناما ہے، تو ہمیں اپنی معیشت کو دستاویزی شکل دینی چاہیے۔ میں اس ایمنسٹی اسکیم کی حمایت کرتا ہوں۔

ڈاکٹر ایوب مہر:میں یہاں یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ ساہیوال کول پاور پلانٹ میں درآمد شدہ کوئلہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ پھر قرضوں کے معاملے پر یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ بھارت یا ترکی وغیرہ میں قرضوں کا تناسب جی ڈی پی کا 130فی صد ہے، جب کہ پاکستان میں یہ 65فی صد ہے، لیکن ان ممالک کے قرضوں کا بڑا حصہ پرائیویٹ سیکٹر کا ہے اور یہاں سرکار نے قرضے لیے ہیں، جو خطرناک اور اسی لیے مالیاتی ایمرجنسی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ان ممالک میں کارپوریٹ سیکٹر نے جو قرضہ لے رکھا ہے، وہ اس کا مفید استعمال کر رہا ہے۔ پھر میں اس نکتے کو بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا رہتا ہے اور یہ زیادہ بڑی بات نہیں ہے، مگر ہمیں اپنی جی ڈی پی کو بڑھانا ہے اور اس مرحلے تک پہنچنا ہے کہ اس کے ثمرات عوام تک منتقل ہو سکیں۔ میرے خیال میں ارتکازِ دولت سے زیادہ بڑا مسئلہ غربت ہے اور ہمیں اسے ختم کرنا ہو گا۔ اب جہاں تک صحت کی بات ہے، تو کے پی گورنمنٹ اور وفاقی اور سندھ حکومت کی جانب سے متضاد حل بتائے جا رہے ہیں۔ وفاق اور سندھ حکومت کا ماننا ہے کہ بجٹ کو بڑھایا جائے،حالاں کہ یہ پورا استعمال ہی نہیں ہوتا، جب کہ کے پی حکومت کا کہنا ہے کہ صحت کا نظام پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا جائے گا اور ہر گھرانے کی ساڑھے پانچ لاکھ روپے کی انشورنس ہو گی۔ یہ طریقہ کار بھی درست نہیں، کیوں کہ اگر ایک گھرانا پرائیویٹ اسپتال سے علاج کروائے گا، تو اس کے لیے ساڑھے پانچ لاکھ کی رقم بہت کم ہے اور یہ ٹالنے والی بات لگتی ہے۔

سردار اشرف خان:میں مقامی کوئلے کے استعمال کے حق میں ہوں۔ حکومت نے درآمدی کوئلے سے مہنگی بجلی تیار کی، لیکن عوام کو پھر بھی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ جب تک معیشت کو دستاویزی نہیں بنایا جاتا، ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں ہو گا۔ حکومت کو بالواسطہ ٹیکسز کم کر کے بلا واسطہ ٹیکسز عاید کرنا ہوں گے۔ ہمارا مذہب ارتکازِ دولت کو مسترد کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے امریکا اور یورپ میں بھی ارب پتی افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، لیکن چین میں سوشلسٹ نظام کی وجہ سے سرمایہ کاری کے ثمرات عوام تک منتقل ہو رہے ہیں۔ ہمارے لیے ان دونوں نظاموں کے امتزاج پر مشتمل نظام ہی بہتر ہے۔ پھر ہمارے ملک میں کالا دھن اور غیر دستاویزی معیشت بھی بہت بڑا مسئلہ ہے اور جب تک یہ ختم نہیں ہوتا، یہ ملک گرداب میں پھنسا رہے گا۔

امین ہاشوانی:ملک کی بہتری اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بہتر طرزِ حکمرانی، پبلک سیکٹر میں اصلاحات اور اداروں کا آزادانہ کام کرنا بہت ضروری ہے اور اس مقصد کے لیے ہمیں غیر مقبول فیصلے کرنا پڑیں گے۔ اگر ہم ایسے فیصلے نہیں کرتے، تو پانچ برس بعد بھی ایسا ہی بجٹ پیش کیا جائے گا اور ہم انہی موضوعات پر گفتگو کر رہے ہوں گے۔ ملک کو خوشحال بنانے کے لیے ہم سب کو اپنے اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر اپنے قومی مفاد کو ترجیح دینا ہو گی۔

جنگ:کئی اخراجات بجٹ خسارے میں شامل نہیں کیے گئے، جن میں گردشی قرضے اور سرکاری اداروں کا خسارہ قابلِ ذکر ہے ۔ اگر انہیں شامل کیا جائے، تو بجٹ خسارے کی شرح میں نمایاں اضافہ ہو جائے گا۔

ڈاکٹر ایوب مہر:جی بالکل۔ حکومت نے نج کاری کے لیے بھی بجٹ میں کوئی رقم مقرر نہیں کی اور گردشی قرضوں کو بھی یہ کہہ کر بجٹ میں شامل نہیں کیا کہ ان کا تعلق کارپوریشنز سے ہے۔

ہما بخاری:ہمیں اپنے بنیادی ڈھانچے کو درست کرنا ہو گا۔ اگر ہمارے پاس تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت ہو گی، تو ہمیں بجٹ خسارے کا سامنا نہیں ہو گا۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو معیاری تعلیم فراہم کرنی چاہیے ۔