ہالی ووڈ کی ’’بلیک بیوٹیز‘‘

June 22, 2018

’بلیک پینتھر‘ ہالی ووڈکی اب تک کی سب سے کامیاب سپرہیرو فلم بن چکی ہے۔ اس فلم نے دنیا بھر میں باکس آفس پر کئی نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ اس فلم نے ہالی ووڈ کے کئی بڑے بڑے فلم اسٹوڈیوز، جو Black Storytelling کے شدید مخالف رہے ہیں، انھیںجتا دیا ہے کہ ’کالی رنگت‘ پر مبنی کہانیوں پر بنائی گئی فلمیں بھی شائقین کو اتنی بڑی تعداد میں سنیما گھروں تک کھینچ کر لاسکتی ہیں، جس کا شاید اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا گیا تھا۔ ہالی ووڈمیں رنگت کی بنیاد پر تعصب صرف فلموں کی کہانیوںتک محدود نہیں، بلکہ یہ تعصب فنکاروں خصوصاً اداکاراؤں کو لے کر زیادہ پایا جاتا ہے۔

اگر ہالی ووڈکی صاف جلد کی ہیروئنز اپنے ہیروز کے مقابلے میں 50فی صد معاوضہ حاصل کرپاتی ہیں، تو گہرے رنگت کی اداکاراؤں کو اس 50فی صد کا بھی ایک چوتھائی حصہ بطور معاوضہ بمشکل ملتا ہے۔یہاں ہم ہالی ووڈ کی گہرے رنگت کی کچھ سرکردہ خواتین کا ذکر کریںگے، جو صرف اپنے لیے ہی نہیں، بلکہ اپنی کمیونٹی کی دیگر خواتین کے لیےبھی دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری میں مساوی حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کررہی ہیں۔

زوئی سالڈانا

زوئی سالڈانا ہالی ووڈ شائقین کے لیے نیا نام نہیں۔ Guardians of the Galaxy سے شہرت حاصل کرنے والی یہ بلیک بیوٹی ’اسٹار ٹریک‘ اور ’اَیوٹار‘ جیسی بلاک بسٹر فلموں میں کام کرچکی ہیں۔وہ ایک ڈانسر، ماڈل اور اداکارہ ہیں اور تینوں شعبوں میں کمال صلاحیتیں رکھتی ہیں۔ زوئی سالڈانا خوبصورتی میں بھی بے مثال ہیں۔ انھیں دیکھ کر کسی کو گماں تک نہیں ہوتا کہ یہ جڑواں بچوں کی ماں ہیں۔

جیڈا پِنکٹ اسمتھ

جیڈا پِنکٹ اسمتھ کا شمار ہالی ووڈ کی باصلاحیت اور خوددار فنکاراؤں میں ہوتا ہے۔ وہ بیک وقت اداکارہ، ڈانسر، گلوکارہ، نغمہ نگار اور کاروباری خاتون ہیں اور انھوں نے ہر شعبہ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔جیڈا، ہالی ووڈ اداکار وِل اسمتھ کی بیگم ہیں اور ان کی ایک اور وجہ شہرت 2016 کے آسکر ایوارڈز کا بائیکاٹ کرنا بھی ہے۔ اس بائیکاٹ کی وجہ ان کا یہ مؤقف تھا کہ آسکر میں فنکاروں کے ساتھ ان کی جلدی رنگت کی بنیاد پر تعصب برتا جاتا ہے۔

ویئولا ڈیوس

’ہاؤ ٹو گیٹ اَوے وِدھ مرڈر‘ جیسی ڈرامہ سیریز میں ایمی ایوارڈ جیتنے والی پرفارمنس اور ’ڈاؤٹ‘ اور ’دی ہیلپ‘ جیسی فلموں کے باعث ویئولا ڈیوس حالیہ برسوں میں ہالی ووڈمیں تیزی سے مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھنے والی ’بلیک ایکٹریس‘ رہی ہے۔ ہر چند کہ ویئولا کا ہالی ووڈ کیریئر ابھی شروع ہوا ہے، وہ شوبز انڈسٹری میں ایک عرصے سے خود کو منوانے کی کوششوں میں مصروف رہی ہے۔ ہالی ووڈ میں آنے سے پہلے وہ ’براڈوے‘ میں کام کررہی تھی، تاہم اس کی گہری رنگت کے باعث ہالی ووڈ نے اس کا بہت دیر سےنوٹس لیا۔ ویئولا ڈیوس نے ثابت کردِکھایا ہے کہ صلاحیتیں اور کچھ کردِکھانے کا جذبہ موجود ہو تو گہری رنگت زیادہ عرصے کامیابی اور شہرت کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔

لوپیتا نیئونگو

میکسیکومیں پیدا ہونے اور کینیا میں پرورش پانے والی، ہالی ووڈکی اس ’بلیک ایکٹریس‘ کا 2013 میں ریلیز ہونے والی فلم 12 Year a Slaveسے پہلے شاید کم ہی لوگوں نےنوٹس لیا تھا۔ وہ اس فلم پر دیگر کئی ایوارڈز کے لیے نامزدگی حاصل کرنے کے علاوہ وہ آسکر میں بھی ’بہترین معاون اداکارہ‘ کے لیے نامزدگی حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھیں۔ اس کے بعد 2014میں ’پیپل میگزین‘ نے انھیں ’موسٹ بیوٹی فل وومن‘ اور گلیمر میگزین نے ’وومن آف دی ایئر‘ کا خطاب دیا۔

ہالی بیری

ہالی بیری نے ہالی ووڈ میں اپنا مقام انتہائی محنت اور ذہانت سے بنایا ہے۔ وہ خوب جانتی ہے کہ خود کو منوانے کے لیے اگر پردے کے پیچھے رہ کر بھی کام کرنا پڑے تو اسی میں بہتری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ’ایکس مین‘ اور ’مانسٹرز بال‘ جیسی فلمیں پروڈیوس کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ ایچ بی او فلم Lackawana Blues اور 2010میں ریلیز ہونے والی فیچر فلم ’فرینکی اینڈایلیس‘ ہیلی کی اسی سوچ کا تسلسل تھیں۔

ناومی کیمبل

ناومی کیمبل کا شمار گہری رنگت کے ساتھ ٹاپ پر پہنچنے والی چند اولین ماڈلز میں ہوتا ہے۔ ان کا شمار دنیا کی ان چھ ماڈلز میں ہوتا ہے جنھیں امریکی فیشن انڈسٹری نے ’سپرماڈل‘ کا خطا ب دیا تھا۔ ناومی کی کامیابی نے دیگر کئی گہرے رنگت والی خواتین کے لیے فیشن انڈسٹری کے دروازے کھولے، جو اس سے پہلے ان کے لیے بند تصور کیے جاتے تھے۔

بیونسے

متعدد پلاٹینم البمز، اپنی فیشن لائن اور ’آسٹن پاورز اِن گولڈمیمبر‘ اور ’ڈریم گرلز‘ جیسی ہالی ووڈ فلموں کے ساتھ بیونسے کو سچ مچ امریکی میڈیا انڈسٹری کی بے تاج مہارانی کا خطاب دیا جاسکتا ہے۔