پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ

July 04, 2018

تیل کی پیداوار کی عالمی منظر نامہ میں ایک ڈرامائی تبدیلی رونما ہو رہی ہے جو تیسری دنیا کے لئے بہت سے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ سعودی عرب جو دنیا کا سب سے بڑا خام تیل برآمد کرنے والا ملک ہے اس پرامریکا کا خام تیل کی پیداوار بڑھانے کا زبردست دبائو ہے نہ صرف امریکا بلکہ وی آنا میں جو کانفرنس ہو رہی ہے اس میں روس نے اوپیگ کے تمام ممالک سے کہا ہےکہ عالمی سطح پر تیل کی طلب بڑھ رہی ہے، لہٰذا تیل پیدا کرنے والے تمام ممالک اس کی پیداوار بڑھائیں۔ اس کانفرنس میں ایسے دس ممالک بھی شامل ہیں جو اوپیگ میں شامل نہیں ہیں۔ انگولا کے تیل کے وزیر نےکہا ہے کہ ’’ہم اس بات سے متفق ہیں کہ تیل کی پیداوار میں اضافہ ہو‘‘۔ اوپیگ کے 14 ممالک نے بھی گرین سگنل دے دیا ہے ان کی رائے ہے کہ جولائی 2018 سے ایک ملین بیریل روزانہ پیدا وار میں اضافے کا آغاز کر دیں گے لیکن سعودی عرب ابھی تک اس بات پر اتفاق نہیں کر رہا ہے کہ وہ تیل کی پیداوار میں اضافہ کرے۔ وہ اس بات کا خطرہ مول لے رہاہے کہ اس مزاحمت میں اپنے گروپ سے بیگانہ ہو جائے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ اس تنازع سے نکلنے کے لئے مختلف تیل پیدا کرنے والے ممالک کے درمیان توازن قائم کیا جائے۔ پاکستان کے پس منظر میں دیکھیں تو تیل کی قیمتوں کے اضافے سے پاکستان کو زبردست نقصان ہو سکتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ 16 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور تیل کی قیمتوں کے بڑھنے سے نہ صرف کرنٹ اکائونٹ میں مزید اضافہ ہو گا بلکہ تجارتی خسارہ جو اس وقت 35 ارب ڈالر ہے اس میں بھی اضافہ ہو گا۔ پاکستان اس وقت معاشی طورپرایسے مسائل میں پھنس چکا ہے جس سے نکلنا دشوار ہے۔ پاکستان میں انتخابات کی تیاریاں بھی ہو رہی ہیںاور مسئلہ یہ بھی ہے کہ نگران حکومت کوئی طویل مدتی اقدامات بھی نہیں کر سکتی۔ گزشتہ دنوں نگران وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی علی ظفر اور نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میںاس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ ماضی کی پالیسیوں پر تبصرہ نہیں کریں گے ورنہ الزام دھر دیا جائے کہ نگران حکومت کسی کی طرف داری کر رہی ہے لیکن پاکستان کے معاشی حالات ایسے ہیں جن پر اگر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا تو یہ کرنا بھی جائز ہو گا کہ نگران حکومت کرنٹ اکائونٹ، تجارتی خسارے اور گردشی قرضے جو اس وقت ایک ہزر ارب روپے ہو گئےہیں ان میںبہتری کے لئے پاکستان کے مستند معیشت دانوں کو بلا کر ان سے تجاویز لیں کہ پاکستان زرمبادلہ کی کمی اور قرضوں کے مسائل سے کس طرح نکل سکتا ہے، تاکہ آنے والی حکومت کو ان مسائل کے بارے میں جانکاری ہو۔ اگر نگران حکومت پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر سکتی ہے تو معاشی حالات بہتر کرنے کے لئے ابتدائی اقدامات بھی کر سکتی ہے۔ پیٹرولیم پروڈکٹس کی قیمتوں میں اضافے کے بارے میں ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ ان کی قیمتوں میں نگران حکومت نے اضافہ نہیں کیا ہے بلکہ ریگولیٹری باڈی ’’اوگرا‘‘ نے طے شدہ فارمولے کے تحت ان میں اضافہ کیا ہےلیکن پریس کانفرنس میں یہ کہا گیا ہے کہ سابق وزیر مفتاع اسماعیل نے ٹیکسوں میں جو کمی کی ہے وہ نہیں کرنی چاہیے تھی اس سے ریونیو میں مزید کمی ہو گئی ہے اور جون کے بعد جو بجٹ بنایا جائے گا اس میں ٹیکسوں کا خسارہ مزید بڑھ جائے گا۔ ادھر ’’مودی‘‘ نےکریڈٹ ریٹنگ میں کمی کر دی ہے۔ تیل کی قیمتوں کے بڑھ جانے کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا اور آنے والی حکومت کو ملک چلانے میں بہت زیادہ دشواری ہو گی۔ یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ نگران حکومت گیس کی قیمتوں میں 300فیصد اضافہ کر رہی ہے اگر وہ ایساکر رہی ہے تو پھر اس بات سے بھی آگاہ کرناچاہیے کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار 28000 میگا واٹ ہونے کے باوجود اس کی ترسیل طلب سے کم کیوں ہے؟ وجہ بتانے کے ساتھ مناسب اقدامات اٹھانے بھی ضروری ہو جائیں گے اگر یہ مسئلہ طویل مدتی ہے تو یہ رائے دی جائے کہ اس سلسلے میں آنے والی حکومت اولین اقدامات کیا کرے جس سے طلب و رسد دونوں متوازن ہو جائیں۔ بجلی کے بلوں میں سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں پر سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا ہے اس بارے میں ڈاکٹر شمشاد اختر اپنی آراء سے مستفید کر سکتی ہیں۔ اس بات کا ہر باشعور فرد کو علم ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے فرنس آئل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جس سےانرجی کے ٹیرف میں مزید اضافہ ہو گا جو عوام کی برداشت سے باہر ہو گا۔ اسی سلسلے میں نائیجریا کے تیل کے وزیر امانیل نے کہاںہے، 700,000bPd تیل میں اضافہ کرنا عجلت میں بہت سے ملکوں سے نہیں ہو سکے گا اگر پیدا وار میں اضافہ ہوا اور رسد کم ہوئی تو خام تیل مزید مہنگا ہو جائے گا جو پاکستان کے لئے زبردست مصیبت کا باعث بنے گا۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے کم ہو رہے ہیں، دوسری جانب پانی کا مسئلہ بھی منہ کھولے کھڑا ہے لیکن ابھی تک اس بارے میں نگران حکومت اور سیاست دانوں نے کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس کے حل کے بارے میں ہندوستان سے بات چیت کرنے کا اظہار کیا ہے۔ کے پی کے میں دریائے کابل بہہ رہا ہے ۔ گزشتہ حکومت اور اس سے پہلے کی حکومتوں نے بھاشا ڈیم ،نیلم جہلم ڈیم اور داسو ڈیم میں تاخیر کی ہے اور اس کی وجہ نہیں بتائی ہے اور اب موجودہ ڈیموں میں پانی بھی خطرناک حدتک کم ہو گیا ہے ان سب مسائل کی طرف گزشتہ دو عشروں سے کیوں دھیان نہیں دیا گیا۔ اس لئے اب ضروری ہو گیا ہے کہ کابل دریا پر بھی چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے شروع کر دینے چاہیں۔ اس وقت پانی اور خام تیل پاکستان کی معیشت کے لئے اہم مسائل ہیں جن کو فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو عام صنعت اور زراعت کے شعبے مزید عذاب کا سامنا کریں گے۔ پاکستان کی برآمدات بڑھانے کے لئے نگران حکومت پاکستان کےمعیشت دانوں کو اکٹھا کر کے ان سے آراء اور تجاویز تو لے سکتی ہے۔ معاشی صورتحال میں بہتری کرنا نگران حکومت کا فرض تو نہیں لیکن جب حالات بہت خراب ہوں انہیں مزید خراب ہوتے دیکھنا بھی جائز نہیں ہے۔ اس وقت بجلی کےتکنیکی ایشوز جو در پیش ہیں اس کے سدھار کے لئے ماہرین سے رائے لینے میں کیا حرج ہے۔

نگران حکومت یہ تو کر سکتی ہے کہ پاکستان اگلے دو ماہ میں درخت کاٹنا ممنوع قرار دے اور مزید درخت لگانے کی مہم شروع کر دے۔ آب پاشی میں پانی کے استعمال کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے سے آئین کی خلاف ورزی نہیں ہو گی، کیونکہ موجودہ مسائل ایسے ہیں ان میں تاخیر بہت خطر ناک ثابت ہو گی۔

پاکستان کے مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے ہر دن گزرنے کے ساتھ بڑھ رہے ہیں اور اہل بست و کشاد اور اقتدار اس کا احساس نہیں کر رہے ہیں کہ پاکستان کی درآمدات جو روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ویلیو کی تناسب سے بڑھ رہی ہے، اس میں نیا رجحان یہ سامنے آرہا ہے کہ مشینری کی درآمد کم ہو رہی ہے اور تیل کی درآمد بڑھ رہی ہے پاکستان کے درآمدی بل میں تین آئٹمز بڑے حجم کے ہیں جن میں تیل، فوڈ اور ٹرانسپورٹ ہیں جس کے نتیجے میں 22فیصد ہر سال درآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ آمدنی کا بڑا ذریعہ برآمدات بہت کم ہیں۔ رواں مالی سال میں 22ارب ڈالر کی درآمدات پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ ہوئی ہیں اس میں تیل کی درآمد میں 30.4فیصد اضافہ ہوا ہے دوسرےمعنوں میں 12.9 ارب ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے ،حالانکہ تیل کے حجم کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہ 9.5 ملین ٹن ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں بڑھا نہیں لیکن خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اس میں گروتھ ہوئی ہے اگر سیال گیس (LNG) کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس کی درآمدات میں 84.6 فیصد اضافہ ہوا ہے ،جس کی قیمت 2.2ارب ڈالر بنتی ہے اور سیال پیٹرولیم گیس 20.3فیصد بڑھی ہے، جس کی لاگت 257.9ملین ڈالر ریکارڈ کی گئی ہے پاکستان کی برآمدات، ترسیلات زر اور زرمبادلہ کے ذخائر کو ملا کر بھی دیکھا جائے تو پاکستان کا تجارتی خسارہ انتہائی سطح پر، 36ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جب کہ قرض 95ارب ڈالر سے زائد گراف میں بلندی کی طرف جا رہا ہے ،یہ حالات نہایت خرابی کا باعث بن رہے ہیں، اس طرف دھیان بہت ضروری ہے۔ ادھر عالمی سطح پر امریکا اور دیگر بڑے ممالک اوپیگ اور سعودی عرب پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ خام تیل کی پیداوار بڑھائیں۔ روس کے تیل کے وزیر الیگذینڈر نویک کا کہنا ہے کہ، ویزویلا اور میکسیکو کی پیداوار تقریباً زمین بوس ہو گئی ہے ، صدر ٹرمپ محسوس کر رہے ہیں کہ رسد کی کمی کی وجہ سے امریکا میں پیٹرول کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ اور امریکا محسوس کرتا ہے کہ کہ اوپیگ تیل کی قیمتوں میں ضرورت سے زیادہ اضافہ کر رہا ہے جو صدر ٹرمپ کے لئے خطر ناک رجحان ہے ،کیونکہ جلد ہی امریکا میں مڈٹرم انتخابات ہونے والے ہیں۔ ٹرمپ پر اس بات کا بھی دبائو ہے کہ وہ ایران کے ساتھ نیو کلیئر ڈیل جاری رکھے تاکہ ایران بھی عالمی اوپن مارکٹ میں تیل فروخت کر سکے۔

ادھر پاکستان میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں اور معاشی حالات ناگفتہ یہ ہیں ۔ آج کمرشل ازم کے مادی دور نے مادی حاصلات، دولت اکٹھی کرنا کریکٹر کا سنگ بیناد بنا دیا ہے۔ کریکٹر کی ماہیت قلب میں یہ تبدیلی کیسے ہوئی ،اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ پھر آج کے جمہوری دور میں جب حکومت سازی کے لئے ہر آدمی کا ووٹ شامل ہوتا ہے توووٹر کی یہ شکایت کہ سیاسی قیادت باکردار نہیں،خود ووٹر کے کریکٹر کو مشکوک بنا دیتی ہے اگر ووٹر باکردار ہو تو حکومت کیسے بے کردار ہو سکتی ہے ،اس کنفیوژن کے اسباب تلاش کرنا بھی ضرویر ہیں، کیونکہ حکومت کی معاشی، سیاسی اور سماجی پالیسیاں درست نہ ہوں تو ریاست کا بحران بڑھتا جاتا ہےاُس وقت پاکستان عصر حاضر میں خرابی کی گہری کھائی کے کنارے پر کھڑا ہے ،اس لئے مستقبل کا فیصلہ عوام درست لیڈر شپ ہی کر سکتی ہے۔ پاکستان آج جن قومی اور بین الاقوامی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے اس سے پہلے ایسے حالات کبھی نہ تھے ،اس لئے پاکستان کی معاشی مشکلات درو کرنے کے لئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔