مجھے ٹکٹ کیوں نہیں دیا؟

July 04, 2018

پاکستان میں ان دنوں انتخابی گہماگہمی ہے۔ اس مر حلے پر اُمّیدواروں کے چناوکے مسئلے پر کئی سیاسی جما عتو ں میں شدید اختلافات سامنے آچکے ہیں۔جنہیں ٹکٹ مل گیا ہے وہ شاداں و فرحاں انتخابی مہم کا آغاز کرچکے ہیں اور جنہیں نہیں مل سکا ان میں سے بعض اپنی پارٹی کے رہنماوں پر شدید تنقید کررہے ہیں،کوئی پارٹی بدل رہا ہے اور کوئی اپنے حق میں مظاہرے کر وارہا ہے۔حد تو یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی میں بھی اس معاملے پر اختلافات پیدا ہو نے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں حالاں کہ اسے ایک منظم سیاسی جماعت کہا جاتا ہے۔اس ضمن میں جماعتِ اسلامی دِیر کے رہنماوں کی پریس کانفرنس کو کافی اہمیت حاصل ہے جنہوں نے امیرِجماعت کے خلاف باقاعدہ بغاوت کرتے ہوئے پریس کانفرنس کردی اور اپنا آزاد ا مید و ا ر امیرِجماعت اسلامی کے خلاف میدان میں اتا رنے کا فیصلہ کیا -

حقیقت یہ ہے پاکستان کی زیادہ تر سیاسی جماعتوں میں جمہوریت بہت ہی کم نظر آتی ہے۔چناں چہ انتخابی ٹکٹس کی تقسیم کے موقعے پر اُمّیدواروں کی پارٹی سے وابستگی،اخلاص اور جماعت کے لیے ان کی قربانیوں کو مدّنظر رکھنے کے بجائےان کی سیاسی و سماجی حیثیت ، دو لت ،اثر و رسوخ،جماعت کے قائدین سے ان کے تعلقا ت ذات،برادری وغیرہ کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔تاہم دیگر ممالک ،بالخصوص ترقّی یافتہ اور جمہوری ممالک میں اس کے لیے طے شدہ طریقہ کار موجود ہے۔آئیے الیکشن ٹکٹ کی تاریخ اور اسے دینے کے طریقۂ کار پر نظر ڈالتے ہیں۔

انتخابی ٹکٹ کی اصطلاح عرفِ عام میں کسی شخص کو کسی سیاسی جماعت کی جانب سے کسی سیاسی عہدے یا پار لیما ن کی رکنیت کے لیے اُمّیدوار نام زد کیے جانے کے لیے ا ستعمال کی جاتی ہے۔ لیکن امریکا اور آسٹریلیا میں اس کے کچھ مختلف معنیٰ بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً آسٹریلیا میں سینیٹ کے انتخابات کے موقعے پر دو یا زاید سیاسی جماعتیں کسی ا یک فرد کو اپنا مشترکہ امیدوار نام زد کرکے اسے ’’سنگل ٹکٹ‘‘ دے دیتی ہیں۔ اسی طرح امریکا میں صدر اور نا ئب صدر کے عہدے کے لیے انتخابات ایک ہی ٹکٹ پر لڑ ے جاتے ہیںکیوں کہ وہاں ایک ہی ووٹ پر ان دو نو ں عہدوں کے لیے شخصیات کا انتخابات کیا جاتا ہے۔ بعض ممالک میں امیدوار کے لیے NOMINEE کی بھی ا صطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن یہ اصطلاح اس وقت تک موثر رہتی ہے جب تک کو ئی سیاسی جماعت اپنے طریقےکے مطابق کسی شخص کو کسی سیاسی عہدے کے لیے حتمی طور پر نام زد نہیں کردیتی۔ ا میدوارکے لیےانگریزی زبان میں CANDIDATEکا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو ا نگر یز ی زبان میں لاطینی زبان کے لفظ CANDIDA سے آیا ہے۔ یہ لاطینی لفظ قدیم روم میں سفید رنگ کے ایک خاص لباس کے استعمال کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اس زمانے میں انتخابات میں حصہ لینے وا لے تقریر کرنے، مباحثے میں حصہ لینے اور کنونشن اور دیگر عوامی تقریبات میں شرکت کے موقعےپر مخصوص طرز کا بر ا ق سفید لباس زیب تن کرتے تھے۔

جب امیدوار کا لفظ سیاسی اور جمہوری نظام میں ا ستعما ل کیا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ سیاسی کارکن یا کسی جما عت کا نمائندہ ہوتا ہے جو کسی سیاسی عہدے یا پارلیمان کی رکنیت کے لیے انتخابی میدان میں کُودتا ہے۔ امریکا میں جب سیاسی فضا میں یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مرادقومی سطح پر نام زد کیے جانے والے شخص سے ہوتی ہے جسے بالخصوص ریاست یا قومی سطح پر کنونشنز میں عہدۂ صدارت کے لیے کسی سیاسی جماعت کا امیدوار نام زد کیا جاتا ہے۔

ہر ملک میں انتخابی امیدوار کی نام زدگی یا اسے پارٹی ٹکٹ دینے کے لیے بعض آئینی ضرورتیں پوری کرنا لازم ہوتی ہیں۔ مثلاً عمر، تعلیم، جنس،مذہب وغیرہ کے ضمن میں ۔ لیکن ہر ملک میں یہ تمام ضرورتیں پوری کرنا لازم نہیں ہو تا ۔ مثلاً کسی ملک میں امیدواروں کے لیے مذہب کی اور کسی ملک میں جنس کی قید نہیں ہوتی، وغیرہ، وغیرہ۔ اس کے بعد سیاسی جماعتوں کے قواعد و ضوابط کا مرحلہ آتا ہے۔اس مرحلے میں سیاسی جماعتیں یہ دیکھتی ہیں کہ جس شخص نے پا رٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے درخواست دی ہے اس کی جماعت سے وابستگی ہے یا نہیں، اس کی شہرت کیسی ہے، وہ آئینی تقاضے پورے کرتا ہے یا نہیں، اس کا تعلق زندگی کے کس شعبے سے ہے، اس کی نسلی اور شخصی شناخت کیاہے،اس کے حلقے کے زمینی حقائق کیا ہیں، وغیرہ و غیر ہ ۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کے انتخاب کا عمل قانونی طور پر ریاستی ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں اور الیکشن کمیشن اسی قانونی حیثیت کو مدنظر رکھ کر ا مید و ا ر و ں کی اسکروٹنی کرتا ہے۔ تاہم بہت سے ممالک میں آزاد امیدواروں کے بھی انتخابی عمل میں حصہ لینے پر کوئی پا بند ی نہیں ہوتی،مثلاً پاکستان میں۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کا عمل دراصل رائے دہندگان کو یہ مو قع فراہم کرتا ہے کہ وہ متعدد امیدواروں کے بجائے ایک یا دو بڑی اور معروف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں پر تو جہ مرکوز کریں۔تاہم بہت کم ممالک میں انتخابی ا مید و ا ر و ں کے چنائو کے لیے قانون سازی کی گئی ہے۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی ٹکٹ کے اجراء کے ضمن میں دو تصورات پائے جاتے ہیں۔ ایک تصور مرکزیت کا ہے جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ پارٹی میں اس عمل میں، مقامی، علاقائی اور قومی سطح پر کنٹرولز کس کے پاس ہیں اور مقامی، علاقائی اور قومی سطح پر متعلقہ لوگوں کی فیصلہ سازی کے عمل میں کس قدر شراکت ہوتی ہے۔ دوسرا نظریہ شراکت کا ہے جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جس سطح پر فیصلہ سازی کی جاتی ہے اس سطح پر جماعت کے عام رکن یا اعلیٰ سطح کی قیادت میں سے کون کس سطح پر معاملات کو کنٹرو ل کرتاہے۔انتہائی مرکزیت والے نظام (یاسیاسی جما عت) میں قومی سطح کی قیادت نچلی سطح کی قیادت اور شا خو ں سے مشاورت کیے بغیر امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہے۔ دوسری انتہا میں یہ ہوتا ہے کہ نچلی سطح کی قیادت یا شاخ ا علیٰ قیادت اور اپنے سے اوپر والی شاخ سے مشاورت کیے بغیر یہ عمل کرتی ہے۔ تاہم زیادہ ترجمہوری ممالک میں سیاسی جماعتیں نچلی سطح پر امیدواروں کا انتخاب کرتی ہیں اور اعلیٰ سطح کی قیادت اس کے حق میں یا خلاف رویہ ا ختیار کرسکتی ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں دوسری انتہا ملتی ہے۔ وہاں سیاسی جماعت کے اراکین اور بعض ر یاستوں میں رجسٹرڈ ووٹرز اپنے امیدوار کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے وہ پرائمریز کی سطح پر بہ راہ راست و و ٹنگ کا طریقہ اپناتے ہیں۔جو لوگ اپنے آپ کو کسی عہد ے کے لیے پیش کرتے ہیں ان تمام کے نام انتخابی عمل میں شریک ہوتے ہیں جس کی نگرانی حکومت کرتی ہے۔

امیدواروں کی نام زدگی کے ضمن میں کسی سیاسی جما عت کے نظریات، ملک کے جمہوری اور انتخابی نظام، سیا سی کلچر اور حکومت کے ڈھانچے کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ مثلاً ڈھانچے کے لحاظ سے انگلستان کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں پارلیمان کے دو ایوان ہیں، یعنی دارالامراء اور دارالعوام۔ وہاں تین بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ انہوں نے وقت کے ساتھ انتخابی ٹکٹ دینے کے طریقوں میں کا فی تبدیلی کی ہے۔ اب وہاں امیدواروں کا چنائو پارٹی کے اراکین کی حدود سے نکل کر عوام کے حلقوں تک جا پہنچا ہے ۔ مسلسل بہتر بنائے جانے والے طریقوں کی وجہ سے و ہا ں منتخب ہونے والے اراکینِ پارلیمان کے معیار میں تنو ع پیدا ہواہے اور وہاںخود کو امیدوار کے طور پر پیش کر نے والوں کی پروفیشنل انداز میں جانچ پرکھ کی جاتی ہے۔ انگلستان میں سیاسی جماعتوں میں پرائمری کی سطح تک کی جانے والی انتخابی اصلاحات کے نتیجے میں منفرد مظاہر د یکھنے میں آئے ہیں۔ مثلاً صنفی کوٹے، لیبر پارٹی کی جا نب سے تمام خواتین امیدواروں کے نام شارٹ لسٹ کر نا، کنزرویٹیو پارٹی کی جانب سے اے لسٹ جاری کرنا اور لبرل ڈیموکریٹ کی جانب سے کم نمائندگی والے گروہوں کے لیے لیڈر شپ پروگرام کا آغاز وغیرہ۔

کچھ عرصے سے انگلستان میں ایک غیر سرکاری تنظیم اس عمل کا جائزہ لیتی ہے کہ سیاسی جماعتیں کس طرح اپنے انتخابی امیدواروں کا چنائو کرتی ہیں اور جو لوگ چنے جا تے ہیں چنائو کے عمل سے ان کے چنے جانے پر کیا ا ثر ا ت مرتب ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں جو لوگ خود کو امیدوار کے طور پر پیش کرتے ہیں سیاسی جماعتیں ان کی جانب سے پُر کیے جانے فارمز اور ان کے کوائف نامے میں در ج تفصیلات پر غور کرکے ان میں سے معیار پر پورے ا تر نے والے افراد کو ہفتہ وار تعطیلات میں جماعت کے دفتر میںطلب کرتی ہیں۔ وہاں پہلے انہیں رجحانات کے ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے۔ پھر امیدواروں کے انتخاب کا شعبہ اوربعض اراکینِ پارلیمان جن افراد کے ناموں کی منظو ر ی دیتے ہیں انہیں جماعت کے امیدواروں کی باقاعدہ فہرست میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ اس کے بعدجماعت کی مقامی یا متعلقہ شاخ متعلقہ امیدواروں کو طلب کرکے ان سے سوال جواب کرتی ہے۔ اس نشست میں اس شاخ کے تمام اراکین امیدوار سے سوالات کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد تمام اراکین اپنے پسندیدہ ممکنہ امیدوار کے حق میں ووٹ دیتے ہیں اور کام یاب قرار پانے والا شخص ممکنہ پارلیمانی امیدوار قرار پاتاہے۔ بعد میںجماعت کی او پر ی سطح کے لوگ اپنا ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں اور جس ممکنہ امیدوار کو سب سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں اس کے چنا ئو کی تصدیق کردی جاتی ہے۔ وہاں کوئی جماعت اس کے بعد اجازت (APPROVAL)کے مرحلے سے گزر تی ہے (مثلاً لیبر پارٹی) اور کسی جماعت میں حلقے کے وا ر ڈز اور الحاقی بازو، مثلاً محنت کشوں کی تنظیمیں بھی کسی مرد یا عورت کو امیدوار کے طور پر نام زد کرسکتی ہیں۔ پھر اس حلقے کی جنرل کونسل ممکنہ امیدواروں کے ناموں کی حتمی فہر ست بناتی اور اسے جماعت کے تمام اراکین کو بھیج دیتی ہے۔ اراکین بہ ذات خود یا ڈاک کے ذریعے کسی ممکنہ ا میدوار کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرسکتے ہیں۔ اس مرحلے پر امیدواروں کے نام حتمی طور پر سامنے آجاتے ہیں۔ لیبر پارٹی میں ناموں کا حتمی اعلان نیشنل ایگزیکٹیو کمیٹی کرتی ہے۔ لبرل ڈیموکریٹس میں بھی یہ عمل مرکزی سطح پر ہوتا ہے۔

کینیڈا میں دارالامراء کا رکن بننے کے لیے جو شخص خو د کو امیدوارکے طور پر پیش کرتا ہے، اسے ایک ہزار کینیڈ ین ڈالرز کی رقم اور متعلقہ دستاویزات چیف ا لیکٹو ر ل آ فس میں جمع کرانا پڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ غیر استعمال شد ہ سرکاری ٹیکس کی رسید مقررہ مدت میں ریٹرننگ افسر کے پا س جمع کرانا ہوتی ہے۔ ڈنمارک، جرمنی، یونان، ایسٹونیا، نیدرلینڈ، سوئیڈن اور چیک ری پبلک میں (جو یورپی یو نین کے رکن ہیں) میں صرف سیاسی جماعتیں انتخابی ا مید وار نام زد کرسکتی ہیں۔ یورپی یونین کی پارلیمان کا رکن بننے کے لیے دیگر ممالک کے مختلف قوانین اور قاعدے ہیں۔درج بالا ممالک کے علاوہ دیگر ممالک میں ا مید و ا ر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص تعداد میں منتخب ا فر ا د کے دست خط والی دستاویز جمع کرائے۔ آئرلینڈ میں ا مید وار کے لیے ضروری ہے کہ اسے کوئی سیاسی جماعت نا م زد کرے یا 60 متعلقہ الیکٹوریٹ ایسا کریں۔ فرانس میں صدر کے عہدے کے لیے امیدوار بننے والے کے لیے لازم ہے کہ 500 منتخب افراد اس کے فارم پر دست خط کریں۔ یہ منتخب افراد میئرز، اراکینِ پارلیمان اور ر یجنل کونسلرز ہوسکتے ہیں۔ سوئیڈن میں یورپی پارلیمان کے رکن کی نشست کے لیے امیدوار بننے والے کے لیے ضروری ہے کہ کائونٹی کی کونسلزیا میونسپل کونسلز اپنی سیاسی جماعتوں کی شناخت کے ساتھ بیلٹ پیپر پر نمائندگی کرتی ہوں۔ سیاسی جماعتیں امیدواروں کی ایک یا زاید فہرستیں رکھ سکتی ہیں۔ وہاں آزادانہ نام زدگی کے حق کے تحت کوئی بھی شخص کسی بھی پارٹی کے لیے امیدوار نام زد کرسکتا ہے ۔ لہٰذا وہاں کوئی سیاسی جماعت بنانا اور اسے چلانا نسبتاً بہت آسان ہے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا میں جمہوریہ کے قیام کے ابتدائی ایام میں عہدۂ صدارت کے لیے کانگریس کے ا ر ا کین کا گروپ (کاکس) امیدوار نام زد کرتا تھا۔ لیکن 1820ء تک یہ طریقہ غیر مقبول ہوچکا تھا جس کے تناظر میں اینڈریو جیکسن کی جدوجہد اور عام آدمی کو اقتدار میں شریک کرنے کے لیے بلند کی جانے والی آواز تھی۔ وہاں 1824ء کے انتخابات کو بدعنوانوں کی دھاندلی قرار دے دیا گیا تھا۔ اس کے بعد امریکیوں میں نام زدگی کا طریقہ بدلنے کا نیا جذبہ پیدا ہوا اور سیاسی جماعتوں نے اپنے ڈ ھا نچے مستحکم کرنا شروع کیے۔ اس کے بعد قومی سطح پر سیاسی کنونشنز کے انعقاد کے نظریے کو تقویت ملی۔ تاہم اس و قت تک سیاسی کنونشنز صرف ریاستوں کی سطح پر ہوتے تھے۔ وہاںاینٹی میسونک پارٹی نے ستمبر 1831ء میں پہلا قومی سطح کا سیاسی کنونشن منعقد کیا تھا۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا میں انتخابات کے لیے ا میدواروں کی نام زدگی یا انتخاب کا طریقہ منفرد نوعیت کا ہے اور اس بارے میں بہت سا مواد موجود ہے۔ بہ ظاہر یہ طریقہ بہت پے چیدہ محسوس ہوتا ہے، لیکن اگر اس کا توجہ سے مطالعہ کیا جائے تو یہ زیادہ مشکل محسوس نہیں ہوتا کیوں کہ اس کے کئی حصے اور درجے ہیں۔ وہاں یہ سلسلہ کاکس اور پرائمریز سے شروع ہوتا ہے، یعنی نچلے درجے سے۔ کئی ممالک نے اس کی تقلید میں پرائمریز تو بنالی ہیں لیکن امریکا کی سیاسی جماعتوں کے اس طریقے کو مکمل طور پر کسی ملک نے نہیں اپنایا۔ پرائمریزکے طریقےمیں صد ر ، قومی سطح کے قانون سازوں اور مقامی یا ریاست کی سطح کے امیدواروں کا چنائو درجہ بہ درجہ کیا جاتا ہے۔ کو سٹا ر یکامیں پارٹی ڈوڈی لبریشن نیشنل (نیشنل لبریشن پارٹی) نے 1997ء فِن لینڈ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے 1999ء،میکسیکو کی ریوولوشنری انسٹی ٹیوشنل پارٹی نے 1999 ء،اسپین کی سوشلسٹ پارٹی نے 1998ء میں، ہنڈراس کی نیشنل پارٹی نے 1996ء، آئس لینڈ کی انڈی پینڈینس پارٹی نے 1995ء، اسرائیل کی لیکوڈ پارٹی نے 1999ء اور تائیوان کی ڈیموکریٹک پارٹی نے 1995ء میں اپنے صدارتی اور وزارتِ عظمیٰ کے امیدواروں کے انتخاب کے ضمن میں امریکا کی سیاسی جماعتوں سے ملتا جلتا طریقہ اپنالیا تھا۔

کاکس (CAUCUS) دراصل کسی سیاسی جما عت یا تحریک کے وابستگان یا اراکین کے اجتماع کو کہتے ہیں(بالخصوص ریاست ہائے متحدہ،امریکا میں)۔یہ ا صطلاح پہلے پہل انگلستان کے ایک ادیب لیوس کیرول نے اپنی کتاب ’’اے کاکس ریس اینڈ لانگ ٹیل‘‘ میں ا ستعمال کی تھی جس میں کاکس ریس میں حصہ لینے والے تما م افراد کو جیتنے والے قرار دے دیا جاتا ہے۔ تاہم اس لفظ کے آغاز اور ابتدائی استعمالات کے بارے میں مغرب میں کافی بحث کی جاچکی ہے اور اس بارے میں عام ا تفا ق اس بات پرہے کہ یہ لفظ پہلے پہل شمالی امریکا میں ا نگر یزی نوآبادیات میں استعمال ہواتھا۔ 1763ء میں اس با رے میں جان ایڈمز کی ڈائری کے مندرجات یہ پتا دیتے ہیں کہ کاکس کلب کا اس زمانے میں وجود تھاجہاں عام ا نتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کا نجی طور پر ا نتخا ب کیا جاتا تھا۔

جدید زمانے میں امریکا میںکاکس سے مراد وہ ا جتما ع ہوتا ہے جس میں صدارتی امیدوار نام زد کیا جاتا ہے اور وہاں اسے ایک ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم وہاں جمہوریت کے ابتدائی دنوں میں صدارتی امیدوار کی نام زدگی کے لیے بہت مختلف طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔ اٹھارہویں صدی کے ابتدائی حصے میں متعدد (CAULKERS) نے جو بوسٹن کے جنوبی سرے سے تعلق رکھتے تھے مشاورت کے لیے اجلاس منعقد کیا تھا ۔یہ ہی اجلاس دراصل کاکس کی جدید شکل کا نقطۂ آغاز تھا۔ یہ اصطلاح کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں بھی استعمال کی جاتی ہے۔ تاہم آسٹریلیا میں یہ اصطلاح صرف آسٹریلین لیبر پارٹی استعمال کرتی ہے۔ ان ممالک میں جب یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو عموماً اس سے مراد پارلیمان میں موجود کسی سیاسی جماعت کے تمام اراکین ہوتے ہیں جسے دیگر ممالک میں پارلیمانی گروپ کا نام دیا جاتاہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ آسٹریلین فیڈرل پارلیمنٹری لیبر پارٹی کو عموماً ’’لیبر کاکس‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈمیں یہ لفظ سب سے پہلے لیبر پارٹی کے پہلی وفاقی پارلیمان میں رکن کنگ اومیلے نے 1901ء میں استعمال کیا تھا۔ اور تقریباً اسی زمانے میں یہ لفظ نیوزی لینڈ میں استعمال ہونا شروع ہوا تھا۔ نیوزی لینڈ میں یہ اصطلاح تمام سیاسی جماعتیں استعمال کرتی ہیں۔

امریکا میں کاکس کے اراکین مختلف سیاسی عہدوں کے لیے پارٹی کے امیدوار چنتے ہیں۔ وہاں صدارتی ا میدوار چننے کے ضمن میں مختلف ریاستوں کی کاکس مختلف طریقے استعمال کرتی ہیں۔ اس ضمن میں آئیواکی کاکس کو سب سے پہلی اور سب سے بڑی کاکس قرار دیا جاتا ہے ۔اس کے بعد ٹیکسس کی کاکس کا نام لیا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر امریکا میں کاکسز صدارتی امیدوار کی نام زدگی کے طریقے کا بہت اہم جزو ہیں۔ یہ کاکسز پرائمری کے لیے پا رٹی کے ڈیلی گیٹس کا انتخاب کرتی ہیں جو نام زدگی کے ا گلے مرحلے میں اپنی کاکس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ المختصر، امریکا میں انتخابی نظام میں کاکس کا استعمال برطانوی سلطنت سے آزادی حاصل کرنے کے بعد شروع ہوا۔ و ہا ں 1800ء سے 1824ء کے درمیانی عرصے میں تقریباً تمام ریاستوں میں سیاسی جماعتوں نے صدر اور نائب صدر کے عہدوں کے لیے امیدوار نام زد کرنے کے لیے کاکسز کے انعقاد کا آغاز کردیا تھا۔پری سنکٹ، ڈسٹرکٹ اور کنٹری گروپ سیاسی جماعتوں میں کاکسز کا انعقاد کرتی ہیں۔تاہم مختلف ریاستوں میں کاکسز کے انعقاد اور ا مید و ار کی نام زدگی کے بارے میں مختلف قواعد ہیں۔ مثلاً بعض ریاستوں میں امیدوار کے لیے یہ لازمی ہے کہ اس سے قبل کہ قومی سطح پرانہیں نام زد کیا جائے وہ ریاست میں ہونے والے پارٹی کے کنونشن میں شرکت کریں۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا میں روایتی طور پر نومبر کا مہینہ انتخابات کا ہوتا ہے لہٰذا ملک بھر میں رائے دہندگان اپنے پسندیدہ امیدواروں کا چنائو اور انتخاب کرتے ہیں۔ وہاں جب ’’ڈیموکریٹک یا ری پبلکن ٹکٹ‘‘ کہا جاتا ہے تو اس سے مراد کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ان افرادکے ناموں کی فہرست ہوتی ہے جو مختلف سیاسی عہد و ں کے لیے امیدوار ہوتے ہیں۔ وہاں انتخابی ٹکٹ کی تا ر یخ انیسویں صدی سے شروع ہوتی ہے۔ ابتداءمیں امیدواروں کو جو انتخابی ٹکٹ جاری کیے جاتے وہ تھیٹر یا ریل کے ٹکٹ کی طرح کے اوربڑے بڑے ہوتے تھے جن پر امیدوار کا نام طبع ہوتا تھا۔ یہ ٹکٹ رائے دہندگان میں تقسیم کیے جاتے تھے جنہیں وہ اپنے ساتھ پولنگ بوتھ لے کر جاتے تھے تاکہ وہ اسے دیکھ کر اپنے پسندیدہ ا مید و ار کے حق میں رائے دے سکیں۔ امریکا میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قومی کنونشن میں جماعت کے اراکین اور عہدے دار حتمی طور پر انتخابات کے لیے پارٹی کے ا میدوار کا چنائو اپنی رائے کے اظہار کے ذریعے کرتے ہیں۔ تاہم یہ مرحلہ بہ تدریج کاکسز کی سطح سے شروع ہوتا ہے اور کافی پے چیدہ ہوتا ہے۔ وہاں ڈیموکریٹک پارٹی کا جون 1876ء میں مسی سپی دریا کے مغرب میں واقع سینٹ لوئس آڈیٹوریم میں منعقد ہونے والا کنونشن اپنی نوعیت کا پہلا سیاسی کنونشن تھا جس میں پانچ ہزار افراد نے شرکت کی تھی۔

آسٹریلیا کی لیبر پارٹی میں انتخابی امیدوار کے چنائو کا نظام عدم مرکزیت پر مبنی ہے۔ وہاں امیدوار کا چنائو اضلاع کی سطح پر جماعت کے اراکین کرتے ہیں اور قومی سطح کے رہنما یا ڈھانچا اس عمل پر کسی بھی طرح اثر انداز نہیں ہوتا۔ سوئیڈن کی لبرل پیپلزپارٹی میں مقامی سطح پر پارٹی کے اراکین کے تحت قائم انجمنوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے۔ برطانیہ کی لیبر پارٹی کا آئین اگرچہ یہ کہتا ہے کہ امیدواروں کا انتخاب حلقے کی سطح پر ہونا چاہیے، لیکن اس ضمن میں حتمی فیصلہ نیشنل ایگزیکٹیو کی سطح پر ہوتا ہے۔ سو یڈ ش ماڈریٹ پارٹی میں ہر ضلعے میں ضلعی سطح کے منتخب ا ر ا کین پر مشتمل ریکروٹمنٹ کمیٹی امیدواروں کی ایک فہر ست تجویز کرتی ہے جس پر جماعت کے ضلعی سطح کے ارا کین کے درمیان ووٹنگ ہوتی ہے اور پھر ناموں کو آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔ ہالینڈ کی لیبر پارٹی کی سب نیشنل کمیٹی ممکنہ امیدواروں کے نام تجویز کرتی ہے اور قومی سطح کے رہنما ان ناموں کی منظوری دیتے ہیں یا ان میں سے چند یا تمام کو رد کرسکتے ہیں۔ برٹش کنزرویٹیو پارٹی میں صورت حال اس کےبرعکس ہے۔اس پارٹی میں قومی سطح کی قیاد ت قابلِ قبول امیدواروں کے ناموں کی فہرست ترتیب دیتی ہے اور ضلعی شاخوںکو ان ناموں میں سے چند منظور کرنے ہوتے ہیں۔

برصغیر میں اگرچہ سیاسی جماعتوں میں مرکزیت کا بہت عمل دخل ہے۔ تاہم اب یہاں بھی مقامی سطح کی دا نش اور شاخوں کی تجاویز کو کسی حد تک اہمیت دی جانے لگی ہے۔اس کی بنیادی وجہ شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادیاں ہیں۔ شہروں کی آبادی میں تنوّع کی وجہ سے شہری سیا ست کی جہتیں دیہی سیاست کی جہتوں کے مقابلے میں کا فی مختلف ہوتی ہیں۔ شہروں میں جمہوریت اور مساوات کے رجحانات زیادہ ہوتے ہیں لہٰذا شہری علاقوں کے ا مید وار نام ز د کرتے وقت سیاسی جماعتوں کی قیادت کو جمہوری رجحانات کی نہ چاہتے ہوئے بھی کسی حد تک پاس داری کرنا پڑتی ہے۔لیکن حتمی فیصلہ جماعتوں کی اعلی قیادتیں ہی کرتی ہیں۔