الیکشن کے بعد

July 24, 2018

سید محمد جعفری

اک دوسرے کو کررہے ہیں آدمی ذلیل

اور آبرو بچانے کی ملتی نہیںسبیل

روشن ہوئی ہے آتشِ نمرود بے دلیل

ملتے نہیں ہیں آگ میںگرنے کو پھر خلیل

پھر شیخ و رند و رہروِ شب ایک ہوگئے

اچھا نہیں ہے جن کا نسب ایک ہوگئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیں سدھے سادے وقتوں کے سب کاروبار بند

اکثر گدھے کھلے ہوئے ہیں اور کمہار بند

آزاد اشتہاری ہیں، با اقتدار بند

بلبل بھی پالیسی پہ ہیں کوؤں کی کاربند

مرجائے ایک کوّا تو سب بولیں کائیں کائیں

مل جائیں آدمی تو انہیں جیتے جی جلائیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر چھاپہ مارنے کی ہوئی عام تربیت

انسان اور گوریلوں میں ہے اشتراکیت

اس کی ’’گھرائو‘‘ اور جلائو کی تھی نیت

اب ناطقۂ ہے سر بہ گریبانِ عافیت

شیخ الجبال جس نے کہ برپا کیا فساد

کہتا ہے اب شہید مہاجر سے زندہ باد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مزدور اور کسانوں کا اتنا کیا خیال

تقریر کی کہ سوڈے کی بوتل کا تھا اُبال

جب دیکھا اقتدار کا ہوتا ہے انتقال

اُس گھر میں جا پڑا جسے کہتے ہیں اسپتال

بہروپیے نے رُوپ نرالا سنبھالا ہے

اس سامری کو گائے کے بچھڑوں نے پالا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نعرے لگانا کام ہے جن کا وہ پیشہ ور

چلتے ہیں اپنے کاندھے پہ بوڑھے کو لاد کر

اس پیرِ تسمہ پا سے نہیںہے کوئی مفر

ڈرتے ہیں اس کے سائے سے حیوان اور بشر

ڈرتے ہیں جانور کہ وہ لیڈر گزرتا ہے

اپنے سے جو بڑا ہو، ہر اک اُس سے ڈرتا ہے