نئے پاکستان کے نئے وزیراعظم کا پہلا دن

August 22, 2018

عمران احمد خان نیازی صاحب کا وزیراعظم بننا کوئی انہونا کام نہیں ۔ جس راستے سے وہ وزیراعظم بنے ہیں ، اس راستے سے محمد خان جونیجو صاحب بھی پاکستان کے وزیراعظم بنے تھے ، پہلی مرتبہ میاں نوازشریف صاحب بھی اسی طرح وزیراعظم بنے تھے، ظفراللہ جمالی صاحب بھی ، چوہدری شجاعت حسین بھی اور شوکت عزیز بھی ۔ لیکن جس طرح وزیراعظم عمران احمد خان نیازی صاحب یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جیسے پاکستان میں کوئی نیا اور انقلابی کام ہوگیاہے ، اسی طرح ان کے بعض ترجمان اور حمایتی آپے سے باہر ہورہے ہیں ۔ حالانکہ ہمارے لئے وہ بھی اسی طرح کے ایک وزیراعظم ہیں جس طرح مذکورہ بالا لوگ تھے اور ہم ان کو بھی اسی طرح لے رہے ہیں، جس طرح مذکورہ لوگوں کو لے رہے تھے ۔ سادگی، احتساب اور ریاست مدینہ کی مثالوں سے عوام کو بے وقوف بنانے کے ڈرامے ہم پہلے وزرائے اعظم کے بھی دیکھ چکے ہیں اور ان کا انجام بھی ملاحظہ کرچکے ہیں ۔ جوگزرگئے ان کے بارے میں بھی یہ دعا کیاکرتے تھے کہ وہ اپنے دعوئوں کو پورا کرنے کے قابل ہوجائیں اور موجودہ وزیراعظم کے بارے میں بھی یہی دعا کررہے ہیں کہ ہم غلط اور ان سے توقعات وابستہ کرنے والے درست ثابت ہوں ۔ تاہم جس طرح پہلے والے ان کے دعوئوں کے تناظر میں تولے جاتے تھے ، اسی طرح موجودہ وزیراعظم کو بھی ان کے دعوئوں کے تناظر میں ہی تولیں گے اور اسی لئے ان کے مشیروں سے ہی درخواست کرتے رہتے ہیں کہ وہ عمران احمد خان نیازی صاحب کو سمجھا دیں کہ اب وہ اپوزیشن لیڈر نہیں بلکہ وزیراعظم ہیں اور اب ایسے دعوے نہ کریں کہ جن پر عمل کرنا ممکن نہ ہو۔ لیکن قوم سے ان کے خطاب سے تو لگتا ہے کہ وزارت عظمیٰ کا خواب پورا کرنے کے بعد بھی وہ عوام کو جھوٹے خواب دکھانے کی روش سے باز نہیں آرہے تاہم عملاً کیا ہورہا ہے اور کیا ہوگا ، اس کا اندازہ آپ ان کی وزارت عظمیٰ کے پہلے دن کی کارگزاری سے لگالیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ عون چوہدری گزشتہ کئی سالوں سے عمران احمد خان نیازی صاحب کے دست راست اور خصوصی رازدان تھے ۔ دھرنے کے کنٹینر سے لے کر نکاح کی تقریبات تک میں وہ ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ۔جہانگیر ترین کا جہاز ہو یا پھر خیبر پختونخوا حکومت کا ہیلی کاپٹر ، ہر جگہ آپ کو تصویر میں عون چوہدری سائے کی طرح موجود نظر آئے گا۔ میں نے پی ٹی آئی کے بڑے بڑے رہنمائوں کو عون چوہدری کی قدم بوسی اور چاپلوسیاں کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ لیکن کچھ عرصہ سے یہ تاثر مل رہا تھا عمران احمد خان نیازی صاحب نے ان سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرلیا تھا تاہم وہ انتظار کررہے تھے کہ ان کی جگہ انہیں وزیراعظم کا اے ڈی سی مل جائے۔ہو سکتا ہے کہ انہیں پنجاب بھیج کر اپنے سے دور کر دیا جائے۔ عجیب تماشہ یہ تھا کہ جب ایوان صدر میں حلف برداری کی تقریب ہورہی تھی تو اس کے لئے لسٹ بنانے کی ساری ذمہ داری عون چوہدری کی تھی اور ایوان صدر کے اسٹاف کو نومنتخب وزیراعظم کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ صرف ان لوگوں کو کارڈز دئیے جائیں جن کے نام عون چوہدری فراہم کریں ۔ چنانچہ رات دو بجے تک پی ٹی آئی کے رہنما حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لئے کارڈ زکے حصول کی خاطر عون چوہدری کی منتیں کررہے تھے لیکن صبح حیرت انگیز طور پر وہ خود تقریب میں نظر نہیں آئے ۔ خاتون اول کے ساتھ خلاف توقع عون چوہدری کی بجائے زلفی بخاری نظر آئے ۔ بعدازاں معلوم ہوا کہ اپنے ملٹری سیکرٹری سے ملتے ہی نئے وزیراعظم صاحب نے پہلا آرڈر یہ جاری کیا تھا کہ عون چوہدری ایوان صدر یا وزیراعظم ہائوس کے قریب نظر نہ آئے ۔ یوں جو بندہ سب سے زیادہ ان کی وزارت عظمیٰ کا منتظر تھا ، ان کو نہ حلف برداری میں شرکت نصیب ہوئی اور نہ وہ حسب روایت گارڈ آف آنر کی تصویر بناسکے ۔ حالانکہ اس سے چند روز قبل نعیم الحق کے ساتھ مل کر عون چوہدری نے وزیراعظم ہائوس کا تفصیلی دورہ کیا تھا اور وہاں پر اپنے قائد کی رہائش کے انتظامات کے جائزے کے ساتھ ساتھ اپنی رہائش کے لئے بھی فلیٹس پسند فرمائے تھے ۔آخری اطلاعات کے مطابق عون چوہدری سفارشیں کروا کر اپنی سابقہ پوزیشن بحال کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ حلف برداری اور گارڈ آف آنرز کے موقع پر تو جو کچھ ہوا ، اسے پوری قوم ٹی وی پر دیکھ چکی لیکن جب وزیراعظم ہائوس کے اسٹاف کی طرف سے بریفنگ لینی شروع ہوئی تو نئے وزیراعظم صاحب نے پہلا حکم یہ صادر کیا کہ میاں نوازشریف کے دور میں وزیراعظم ہائوس کے اخراجات کا حساب لایا جائے ۔ جواب میں ان کو بتایا گیا کہ شاہد خاقان عباسی تو کبھی ایک دن کے لئے وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہے اور اپنے دور وزارت عظمیٰ میں وہ ذاتی گھر میں ہی قیام کرتے رہے جبکہ میاں نوازشریف نے بطور وزیراعظم اپنے اور خاندان کے خرچے کے سارے بل ادا کردئیے ہیں ۔ وزیراعظم صاحب کو یقین نہیں آرہا تھا لیکن جب ان کو میاں نوازشریف کی طرف سے سرکار کے خزانے میں جمع کردہ چیک بھی دکھائے گئے تو وہ حیرت زدہ اور خاموش ہوگئے ۔ دیگر مصروفیات کے علاوہ وہ اپنے لئے مختص بیڈ روم کی طرف گئے تو ان کو بیڈ پسند نہ آیا چنانچہ ان کی فرمائش پر اسی روز بازار سے نیا بیڈ منگوا کر لگا دیا گیا۔ اس روز شام کو یہ فیصلہ ہوا کہ اگلی رات کو اپنے پارٹی اور حامی ممبران اسمبلی کو وزیراعظم ہائوس میں عشائیہ دیا جائے گا چنانچہ ڈھائی سو مہمانوں کے سرکاری خزانے عشائیے کے اہتمام اور پھر نومنتخب وزیراعظم ہیلی کاپٹر میں وزیراعظم ہائوس سے بنی گالہ کے لئے روانہ ہوئے جبکہ اگلے روز بھی ہیلی کاپٹر ہی میں بنی گالہ سے وزیراعظم ہائوس تشریف لائے۔

قوم سے وزیراعظم کے خطاب کے بعد جیو نیوز پر اپنے تبصرے میں، میں نے سرسری طور پر میاں نواز شریف کی طرف سے اخراجات کی جیب سے ادائیگی کی خبر دی تو ایک طرف مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں اور کارکنوں نے اسے سوشل میڈیا پر پھیلانا شروع کردیا اور دوسری طرف پی ٹی آئی کے وزیراعظم کے سوشل میڈیا گروپ نے گالیاں شروع کردیں حالانکہ میں نے قطعاً یہ نہیں کہا تھا کہ میاں نوازشریف فرشتہ ہیں یا انہوں نے کوئی کرپشن نہیں کی۔ میں نے فقط ایک حقیقت کی نشاندہی کی تھی اور اس وقت عمران احمد خان نیازی کو بریفنگ میں جو بتایا گیا تھا، وہی رپورٹ کیا تھا۔ میں آج بھی اپنے خبر کے ایک لفظ لفظ کی صداقت پر قائم ہوںاور ہر فورم پر اپنے دعوے کو ثابت کرسکتا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ میاں نوازشریف کے دور میں شاہانہ اخراجات نہیںہوئے یا پھر یہ کہ انہوں نے کوئی کرپشن نہیں کی۔ اس کی مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ مجھ سے جب بھی کوئی عمران احمد خان نیازی صاحب کی ذاتی زندگی کے بارے میں سوال کرے گا تو میں وثوق سے کہوں گا کہ وہ نمازی ہیں لیکن ان کے نمازی ہونے کی میری گواہی کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ میں ان کو صادق اور امین بھی سمجھتا ہوں ۔ جو کام وہ کررہا ہے اس کا میں انکار نہیں کرسکتا لیکن اس کو رپورٹ کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ میں ان کو پارسا بھی سمجھتا ہوں ۔ اسی طرح میں نے میاں نوازشریف کے بارے میں ایک حقیقت رپورٹ کی تھی لیکن نہ جانے اس پر پارٹی اور میڈیا میں موجود نیازی صاحب کے حامیوں کو کیا تکلیف ہوئی کہ وہ گالم گلوچ اور کردارکشی پر اتر آئے ۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں گاڑی ، ہیلی کاپٹر اور گھر وغیرہ بڑی معمولی چیزیں ہیں ۔ یہ سرے سے پاکستان کے اصل ایشوز ہی نہیں ہیں ۔ وزیراعظم ہیلی کاپٹر ، جہاز اور بلٹ پروف استعمال نہ کرے تو اور کیا کرے ۔ یہ بہت فضول بحث ہے کہ جس میں ہم الجھ گئے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس فضول بحث میں ہمیں خود وزیراعظم عمران احمد خان نیازی صاحب نے الجھا دیا ہے۔

وہ اس ملک کو اچھا نظام دیں اور اس کے مسائل حل کریں تو اس سے بھی بڑا وزیراعظم ہائوس اپنے لئے بنالیں یا اپنے جہاز کو امریکی صدر کے ائیرفورس ون جیسا پرسہولت بنادیں ہم پھر بھی خوش ہوں گے۔ لیکن اگر ملک کی یہ حالت رہے تو وزیراعظم پھر محمد خان جونیجو جیسا فقیر اور شاہد خاقان عباسی جیسا کفایت شعار بھی ہو،تو ہم اس کا کیا کریں گے۔ اس لئے ہماری وزیراعظم عمران احمد خان نیازی صاحب سے التجا ہے کہ اب وہ سیاسی لحا ظ سے بڑے ہوجائیں ۔ اس بحث سے خود بھی نکلیں اور قوم کو بھی نکال دیں ۔ افراد کی بجائے ایشوز پر توجہ دینا شروع کردیں ۔ ریاست مدینہ اور اسلام کے الفاظ کا اس ملک میںپہلے بھی بہت استحصال ہوا ہے ۔ وہ مزید استحصال نہ کریں ۔ وہ حسب سابق ایاک نعبدوایاک نستعین سے گفتگو شروع کریں گے اور ریاست مدینہ کی مثالیں دیتے رہیں گے تو پھر ہم بھی ان کو کھرے معیارات کے مطابق پرکھیں گے اور یہ ان کے لئے بڑا مشکل ہوجائے گا۔ ریاست مدینہ جیسی ریاست کا تو سوال ہی پیدا نہیںہوتا ، وہ پاکستان کو موجودہ دور کا ترکی بھی بنادیں تو ہم ان کو قائداعظم ثانی کا مقام دینے ، کاندھوں پر بٹھانے اور ان سے معافی مانگنے میں دیر نہیں لگائیں گے ۔لیکن یہ کیا مذا ق ہے کہ خاتم النبین ﷺ کا لفظ صحیح ادا کرنہیں سکتے اور چلے ہیں امیرالمومنین بننے۔ تکرار ریاست مدینہ کی اور وزیرقانون الطاف حسین کے تربیت یافتہ اور جنرل پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم۔ دعوے انصاف کی فراہمی کے اور ہیومن رائٹس کی وزیرشیریں مزاری ۔ نعرے کفایت شعاری کے اور وزیراعظم ہائوس سے بنی گالہ تک دس منٹ کے راستے کیلئے سرکاری ہیلی کاپٹر کا استعمال۔ آخرکچھ تو خدا کا خوف کریں ۔