مشکل اقتصادی صورتحال

August 26, 2018

28 ہزار ارب روپے کے غیر ملکی قرضوں تلے دبی قومی معیشت جس طرح مزید ابتری کی طرف جا رہی ہے اسے فوری طور پر روکنا اور اس مشکل سے چھٹکارا حاصل کرنا نئی حکومت کے ایجنڈے کا پہلا زینہ ہے اگرچہ اس قسم کے حالات گذشتہ حکومتوں کو بھی درپیش رہے ہیں لیکن صورتحال اب اس نہج کو پہنچ چکی ہے کہ اس سے نکل کر ہی توانائی اور پانی کے مستقبل کے تناظر میں مسئلے کا پائیدار حل تلاش کیا جا سکتا ہے جمعہ کے روز وفاقی کابینہ کے پہلے باضابطہ اجلاس میں اگرچہ سرکاری اخراجات کنٹرول کرنے کیلئے بعض ٹھوس فیصلے کئے گئے لیکن یہ اقدامات ایسے نتائج نہیں دے سکتے کہ اس مالیاتی ایمرجنسی کی سی کیفیت سے نکلا جا سکے ۔ سابقہ حکومتیں ایسے مواقع پر مزید غیر ملکی قرضے لیتی رہی ہیں یہی باتیں اس وقت بھی زیر گردش ہیں لیکن اب یہ واضح ہو جانا چاہیئے کہ ایسے اقدامات مسائل کا حل نہیں۔ عالمی ادارے موڈیز کا پاکستان میں مہنگائی کے خدشات ظاہر کرنا، پیٹرولیم کے وفاقی وزیر غلام سرور خان کا ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتیں ایک سطح پر لانے کا عندیہ اور پاور سیکٹر کے قرضے1155ارب تک پہنچ جانا یہ سب ملک میں مہنگائی کا ایک اور طوفان لانے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے تاہم وزیر پیٹرولیم کی یہ وضاحت کہ قیمتوں کو برابری کی سطح پر لانے کیلئے ڈیزل کی قیمت کو کم کیا جائیگا، اچھی بات ہے حالات کا تقاضا ہے کہ قیمتوں میں استحکام آنا چاہیئے اسی طرح گردشی قرضوں کا بوجھ بجلی کے بلوں کے ذریعے عوام پرڈال دینے سے گریز کیا جانا چاہیئے کیونکہ قیمتوں میں استحکام ہی عوام کی قوت خرید، اشیا کی پیداواری لاگت اور اس کی ترسیل میں بہتری لا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر کا یہ کہنا کہ آئندہ پیٹرولیم کی قیمتوں میں بین الاقوامی مارکیٹ کے لحاظ سے ردوبدل کیا جائیگا اچھی بات ہے اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ پی ٹی آئی نے انتخابی مہم میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں50فیصد کم کرنے کا عوام سے وعدہ کر رکھا ہے جسے پورا کرنا اس کی ساکھ برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998