امتحان ہی امتحان

August 29, 2018

حمیرا اشرف

بچپن سے پڑھا، سال میں چار موسم ہوتے ہیں، سردی، گرمی، خزاں اور بہار، پھر زرا بڑے ہوئے تو پتا چلا کہ ایک موسم برسات بھی ہے،مزید بڑے ہونے پر، دل کا موسم ، پیار کا موسم ،غم کا موسم ، اداسی کا موسم، نیز حلوے کا موسم، حلیم کا موسم، بریانی کا موسم اور اس جیسے کئی موسم بھی سننے اور برتنے کو ملے (بلکہ کچھ لوگ تو یہ کہتے بھی پائے گئے ، کیا ،لڑکی ہوئی ہے؟ ارے آج کل تو لڑکوں کا موسم ہے ہمارے خاندان میں بھی سب کے ہاں لڑکے پیدا ہوئے ہیں) ۔ بہرحال، آج عمر کے اس موڑ پر جو موسم سب سے زیادہ حواس پر چھایا نظر آتا ہے وہ ہے، امتحان کا موسم۔ چلیں بات کو کچھ اور واضح کیے دیتے ہیں! امتحان کئی اقسام کے ہوتے ہیں، جیسے چھ آٹھ ماہ کی عمر میں بچے کوطوطے کی طرح رٹایاجارہا ہے، دس ماہ کا ہوکر چلنے کا امتحان۔۔۔ اماں ابا چلانے کی کوشش میں گھنٹوں تھکا رہے ہیں کیونکہ ہر آن سننے کو مل رہا ہے،ہمارا بچہ تو چھ ماہ میں چلنے لگا تھا، غرض کہ فخرومباہات اور بےچارے شیرخوار کی بچپن میں خواری۔ جوانی میں سسرالی امتحانات بھی کم نہیں لیکن سرِ دست ہم جس امتحان سے دوچار ہیں اور بہت زیادہ ہی دوچار، چھ، آٹھ،بلکہ گنتی ہی مک گئی ہے، وہ تعلیمی زمانے کے امتحان ہیں۔

عمر کے آغاز اور ابتدائی برسوں سے شروع ہونے والا یہ جان لیوا موسم پوری انسانی زندگی پر محیط نظر آتا ہے۔بچپن میں امتحان دیتے جوان ہوئے، شادی ہوئی دو چار سال گزرے اور اس کے بعد پھر امتحان لاحق، جہاں دیکھو امتحان ہی امتحان، (شاعر سے معذرت کے ساتھ) زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے، جس میں ہر گھڑی امتحان اور اس کے درد و الم کے پیوند لگے جاتے ہیں۔ پہلے امتحان دیتے تھے، رٹے لگاتے تھے، جان کھپاتے تھے، صلواتیں سنتے اور امتحان دیتے جاتےتھے، نتیجہ نکلنے کے بعد مزید صلواتیں سنتے اور اب، پھر یہی حال ہے۔ شادی میں کیوں نہ آئے؟ فنکشن میں کیوں شریک نہ ہوئے ؟بچے کا امتحان تھا،آفس سے چھٹی کیوں چاہیے ؟ بچے کو امتحان کی تیاری کروانا ہے،ہائپر ٹینشن کیوں ہو رہی ہو؟ کیا کروں بچوں کو خود پڑھاتا ہوں، بیگم کا بی پی لو رہنے لگا ہے، کیا کرے، بےچاری ساری رات بچوں کے لیےجاگتی ہے، بچے امتحان کی تیاری جو کر رہے ہیں۔ ارے تم یہ آج کل صبح دوپہر چائے پاپا کیوں کھاتے ہو، لنچ کیا کرو۔ کیا کروں یار بچت نہیں ہے نا! بچے کو امتحان کی تیاری کے لیےایک اور ٹیوشن لگوا کر دی ہے۔

بزرگوں سے سنا ہے پہلے کبھی اچھے وقتوں میں سال میں دو بار امتحان ہوتے تھے، پڑھ لیا تو پڑھ لیا نہیں پڑھا تو بھی کوئی بات نہیں اگلے سال پڑھ لے گا۔ ہمارے بڑے ماموں جان نے بلامبالغہ سولہ سال میں آٹھ جماعتیں پڑھیں،پھر بیچ میں شادی و دیگر مصروفیات آڑے آگئیں، کچھ امتحان دیا کچھ کام کیا اور بالآخر پچھلے سال اپنے بیٹے کے ساتھ بی اے پاس کر ہی لیا (ریٹائرمنٹ پر بیٹھےتھے اور ایک پروموشن ڈگری کی شرط پر برسوں سے رکی ہوئی تھی)۔ پہلے دس بچے ہوتے تھے اور سب کے ایک ساتھ دو امتحان۔ آج دو بچے ہیں اور دونوں کے دس دس امتحان، جبکہ بچوں کے ساتھ ساتھ ماں باپ کی تعلیمی قابلیت، حوصلے، ہمت، نیز جیب کا امتحان۔ اب تو تقریباً سارا سال ہی امتحان طاری رہتا ہے۔ماہانہ جانچ، دو ماہی، سہ ماہی، اور آخر میں حتمی جانچ، جس میں گذشتہ ساری جانچ پڑتال میں حاصل کردہ نمبر شامل کیے جاتے ہیں اسی وجہ سے بچے اور والدین بس کولہو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں گھومے چلے جاتے ہیں۔ بقول شاعر

رات آئی ہے بچوں کو پڑھانے میں لگا ہوں

خود جو نہ بنا ان کو بنانے میں لگا ہوں

بیٹا یہ کھلونوں سے کیوں کھیل رہے ہو؟ تمھارے امتحان ہیں تم کبھی پڑھتے بھی نظر آیا کرو، پتا ہے نا امتحان ہیں ،بس آج سے رشتے داروں کو فون کر دو کوئی ہمارے گھر نہ آئے، امتحانات کی ڈیٹ شیٹ آگئی ہے۔ بچے کو گرمی میں باہر نہ بھیجو، بیمار پڑ گیا تو۔آگے امتحان ہیں،آج سے گھر کا ٹی وی بند، ہر جگہ آنا جانا بند، زور سے ہنسنا بولنا بند، ٹھنڈا پانی پینا بند، چاکلیٹ، آئس کریم، چاٹ، سموسہ کھانا بند،امتحان جو ہونے والے ہیں۔یہ سب پابندیاں صرف بچوں پر ہی نہیں بڑوں پر بھی یکساں طور پر لگتی ہیں۔ ایک امتحان کے نرغے سے نکل کر سکھ کا سانس بھی نہیں لے پاتے کہ دوسرا امتحان سر پر آجاتا ہے۔ پہلے کبھی جنگ کے زمانے میں جب سائرن بجتا تھا تو ہر طرف گھپ اندھیرا کر دیا جاتا اور مکمل تاریکی و خاموشی ہوجاتی تھی، بالکل اسی طرح آج کل بچوں کے سونے کے بعد چوری چھپےانتہائی دھیمی آواز میں( اخلاقی پالیسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے) خبریں دیکھی جاتی ہیں، کیونکہ بچوں کے امتحان ہیں۔

امتحان سے قبل پورا خاندان ایک قسم کے غیر شعوری مقابلے کی دوڑ میں مشغول ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ نمبرز کا جنون والدین کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ بچے پر ہی نہیں خود پر بھی جا و بے جا پابندیاں لگائیں نتیجتاً بچہ بدحواس ہوکر بے نتھے بیل کی طرح امتحان ہی نہیں تعلیمی عمل سے بھی جان چھڑا کر بھاگنے لگتا ہے۔ اب آگے آگے بچہ اور پیچھے پیچھے پورا گھر دوڑ لگاتا ہے،کہیں ماں آنسو بہا رہی ہیں،جذباتی واسطے دے رہی ہے تو ابا جھڑکیاں اور دھمکیاں دے رہےہیں، دادی اس لاپروائی کا الزام ماں اور ننھیال پر لگاتی ہیں تو پھوپھیاں طعنے دینے میں کسی سے کم نہیں اور چچا اپنی نوجوانی کی تعلیمی کامیابیوں کے جھوٹے سچے قصیدے سنا رہے ہیں، جبکہ بڑے بہن بھائی ماضی قریب میں خود پر گزری اسی واردات کا بدلہ لینے کے لیے اسے مشقِ ستم بنائے بیٹھے ہیں۔ ایک رن کا سا سماں ہے ۔

احساس، لیکن یہ امتحانات وہ بلا ہیں، جنھیں ہم نے خود اپنے حواس پر طاری کر رکھا ہے۔ یہ وہ ڈگڈگی ہے جو زیادہ تر نجی تعلیمی ادارے بجا رہے ہیں اور ہم سب حتی المقدور ناچے چلے جارہے ہیں۔