آئیے! نئی صبح کی بات کریں

September 05, 2018

قوموں کی زندگی میں اتار چڑھاو آتے رہتے ہیںجو ان کی تعمیر اور تخریب میں اہم کردار اداکرتے ہیں ۔ چھ ستمبر 1965پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا دن تھا۔اس روز اور اس کے بعد جنگ کے تمام ایّام میں ہمارے عوام اور خواص نے جس عملی جذبے کا مظاہرہ کیا اسے پوری دنیا نے دیکھا۔اس کے بعد بھی بعض مواقعے پر ہمارے عوام اور خواص نے بہت عمدہ جذبات کا مظاہرہ کیا،لیکن بدقسمتی سے ہمارے راہ نماوں نے یہ مواقعے عقل مندی سے استعمال نہ کرکےباقاعدہ طورپر قوم کی تشکیل کی اور نہ قومی ریاست کی۔لہذا پاکستان طویل عرصے سے دنیا بھر میں بعض خرابیوں کی وجہ سے بُری طرح بدنام ریاست بنا ہوا ہے۔ یہ خرابیاں کثیرالجہتی ہیں۔ تاہم ان میں سے زیادہ تر کی وجوہ سیاسی فیصلہ سازی کے نقائص، بدانتظامی، بدعنوانیاں اور ریاست کے معاملات چلانے والوں میں اخلاص کی کمی بتائی جاتی ہیں۔ لہٰذا بعض حلقے پاکستان کو ایک طویل عرصے سے ایک ناکام ریاست کے طور سے یاد کرتے ہیں۔ ان حالات میں بعض حلقے جب یہ کہتے ہیں کہ ہمیں سیاست نہیں بلکہ ریاست بچانے اور اسے قومی ریاست بنانے کی فکر کرنی چاہیے تو بہت سے پاکستانیوں کے ذہنوں میں متعدد سوالات جنم لیتے ہیں، مثلاً:

(1) ریاست کیا ہوتی ہے، کس طرح وجوہ میں آتی ہے اور اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہوتے ہیں؟

(2) ریاستوں کی کتنی اقسام ہوتی ہیں اور پاکستان کس قسم کی ریاست ہے؟

(3) قومی ریاست کیا ہوتی ہے اور اس کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں؟

(4) ریاست کے معاملات میں عوام کا کیا اور کیسے عمل دخل ہوتا ہے؟

(5) ناکام ریاست کیا ہوتی ہے اور کون سے عوامل اسے ناکام بناتے ہیں؟

یہ اور اس طرح کے دیگر سوالات کے جواب جاننے سے قبل ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ کسی ریاست کا انتظام چلانے کے ضمن میں اس ریاست کے کرتا دھرتائوں کی فکر، اہلیت اور اخلاص کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔وہ ریاست جس خطّے میں واقع ہوتی ہے اس کی جغرافیائی۔سیاسی حیثیت اور ریاست سے باہر کے عوامل بھی اس ضمن میں بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، لیکن ریاست کے اندرونی حالات اور اس کے عوام کی حالت ان دونوں عوامل کو بھی اپنے حق میں استعمال کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ریاست کے معاملات چلانے کی حکمت عملی تیار کرنے کے ہر شعبے میں کبھی ملکی اور کبھی غیر ملکی سیاسی اور اقتصادی عوامل بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان مسائل کے ایسے عملی اور جامع حل تلاش کرنا جو ملکی اور غیر ملکی سیاسی اور اقتصادی عناصر کو مطمئن کرسکیں بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ ایسے فیصلے کرنے کے مراحل میں سیاسی یا ملکی قیادت کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ جن ریاستوں میں یہ مراحل درج بالا معیار کے مطابق طے کرلیے جاتے ہیں، وہ خوش حال اور نیک نام ہوتی ہیں، ان کے عوام پُرسکون زندگی گزارتے ہیں، وہاں ترقی ہوتی ہے، عوام کو اپنے حکم رانوں پر اعتماد ہوتا ہے، ’’وہاں سیاست نہیں، ریاست بچائو‘‘ جیسے نعرے نہیں لگتے، عوام اپنی مشترک قومی شناخت پر فخر کرتے ہیں اور حکومت انہیں اقتدار میں شریک ہونے کا احساس فراہم کرتی ہے۔ نظریاتی طور پر ایسی ہی ریاستیں قومی ریاست کی تعریف پر پوری اترتی ہیں۔اب ملک میں نئی حکومت آچکی ہےاور’’نیا پا کستا ن ‘ ‘ بننے کے مرحلے میں ہے۔ایسے میں قومی ریاست کی تشکیل پر بھی توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔

قومی ریاست کی تعریف

قومی ریاست کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے: ’’ایسی ریاست جو خود مختار جغرافیائی وجود رکھتی ہو، اپنی راہوں کا تعین خود کرتی ہو اور اس کے سیاسی وجود کو اپنے عوام کی خودمختاری کے ساتھ خدمت کرنے سے طاقت ملتی ہو۔‘‘ واضح رہے کہ جب ہم کسی ریاست کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد دنیا کے نقشے پر ایک ایسی ارضی اکائی ہوتی ہے جس کی سیاسی اور جغرافیائی۔ سیاسی بنیادیں ہوتی ہیں اور جب کسی قوم کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد ایک ثقافتی اور یا لسانی معاشرتی اکائی ہوتی ہے۔ یہ ریاست ہوتی ہے جو کسی ایک یا مختلف ثقافتی اور یا لسانی اکائیوں کو ایک لڑی میں پروکر انہیں قوم بناتی ہے۔ لیکن یہ عمل کافی طویل اور پُرپیچ ہوتا ہے۔ قومی ریاست کی اصطلاح اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب جغرافیائی طور پر مذکورہ تعریف پر پورے اترنے والے دونوں عوامل (یعنی ’’ریاست‘‘ اور ’’قوم‘‘) وجود رکھتے ہوں۔ آج کی دنیا میں ریاستوں کا نظام چلانے کی یہ غالب شکل ہے۔ قومی ریاست کے تصور اور اس کی حقیقت کا موازنہ کثیرالقومی ریاست،شہری ریاست،سلطنت،کنفیڈریشن اور ریاستو ں کی دیگر اشکال سے کیا جاسکتا ہے۔ قومی ریاست اور مذکورہ دیگر ریاستوں میں بنیادوں فرق ایسے عوام ہوتے ہیں جو کسی مخصوص شکل کی حکومت کے تحت منظم ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا اسی وقت ہوسکتاہے جب ریاست کے معاملات عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق آزادانہ اور خود مختارانہ انداز میں چلائے جائیں۔

آغاز اور تاریخ

قومی ریاست کے آغاز اور اس کی تاریخ کے بارے میں متضاد آراء ملتی ہیں۔ علاوہ ازیں قومی ریاست کے بارے میں جو نظریاتی مباحث زیادہ اہمیت کے حامل گردانے جاتے ہیں اور جو اس اصطلاح کے وجود میں آنے کے بعد سے آج تک جاری ہیں ان میں اس نظریاتی نکتے کو بہت اہمیت حاصل ہے کہ ریاست اور قوم میں سے کون پہلے آتا ہے۔ یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے،سے تعلق رکھنے والے پروفیسر اسٹیون ویبر اس مفروضے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ قومی ریاست دراصل پندرہویں صدی میں نقشے بنانے کی ٹیکنالوجیز میں ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے بغیر کسی توجہ کے وجود میں آنے والی ذیلی مصنوع ہے۔ قوم پرستی پر یقین رکھنے والے مورخین ریاست پہلے یا قوم؟ کے سوال کا یہ جواب دیتے ہیں کہ قوم پہلے آتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں قوم پرست حلقےقوموں کی خود مختاری پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں اور اس مقصد کے لیے متعدد ممالک میں قوم پرستی کی تحریکیں چلائی گئیں اور آج بھی چل رہی ہیں۔ ان کا یہ مطالبہ قومی ریاستیں ہی پورا کرتی ہیں یا کر سکتی ہیں۔ قوم پرستی کے بارے میں بعض جدید نظریات کے مطابق کسی قوم کی شناخت وسیع تناظر میں دراصل پہلے سے موجود کسی ریاست کی حکومت کی جانب سے قوم اور ریاست کو متحد کرنے اور اسے جدید بنانے کی حکمت عملی سے بنتی ہے۔ زیادہ تر مغربی نظریات کے مطابق قومی ریاست انیسویں صدی کے یورپ کا ایک مظہر (Phenomenon) ہے جسے آگے بڑھانے میں وسیع پیمانے پر تعلیم عام ہونے اور ابتدائی دور کے ذرایع ابلاغ نے اہم کردار ادا کیا۔ تاہم بہت سے مورخین جمہوریہ پرتگال اور ہالینڈ میں نسبتاً متحد اور ایک مشترک شناخت کے ابتدائی ابھار کو اس ضمن میں پہلا پتھر قرار دیتے ہیں۔ فرانسیسی مورخ ایرک ہوبس بام کہتے ہیں کہ یہ فرانسیسی ریاست تھی جس نے فرانسیسی قوم بنانے میں پہل کی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں ریاست نے قوم بنائی، قومیت نہیں، جو انیسویں صدی کے اواخر میں ابھری۔ 1789ء میں فرانس کے انقلاب کے وقت اس ملک کی صرف نصف آبادی فرانسیسی زبان بولتی تھی، جس میں سے صرف بارہ، تیرہ فی صد اسے واضح انداز میں بول سکتےتھے۔ اٹلی کے اتحاد کے وقت اطالوی زبان بولنے والوں کی شرح اس سے بھی کم تھی۔ فرانس کی ریاست نے اپنی حدود میں بولی جانے والی مختلف بولیوں اور زبانوں کو فرانسیسی زبان کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ اس کے علاوہ ریاست نے جبری بھرتی کا آغاز کیا، 1880ء کی دہائی میں تیسرے ری پبلک قوانین عوام کے لیے متعارف کرائے اور قوم بنانے کے نظریے کے تحت قومی شناخت بنانے میں عوام کی مدد کی۔

بنیادی اسباب

مغربی مفکر بینیڈکٹ اینڈرسن کہتا ہے کہ اقوام دراصل ’’خیالی برادریاں‘‘ ہوتی ہیں اور قومیت اور خیالی برادریاں تخلیق کرنے کے بنیادی اسباب کسی خاص مدوّن زبان (اسکرپٹ لینگویج) تک مراعات یافتہ پہنچ کو کم کرنا (مثلاً لاطینی زبان) الہامی اقتدار اور ملوکیت کو ختم کرنے و الی تحریکیں پیدا کرنا اور چھاپہ خانے کے فروغ تھے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہوا ۔ خیالی برادریوں سے اس کی مراد افراد کے ایسے گروہ ہیں جن کے اراکین ممکنہ طور پر ایک دوسرے کو نہ جان سکتے ہوں۔ قومی ریاست کے بارے میں ریاستوں کی سرپرستی میں جو نظریات پروان چڑھے وہ بعض مخصوص ریاستوں کا بہ طور خاص ذکر کرتے ہیں، مثلاً انگلستان اور اس کی حریف ریاست فرانس۔ یہ ریاستیں اپنے وجود والے خطوں سے پھیلنا شروع ہوئیں اور انہوں نے قومی شعور اور قومی شناخت کا شعور پیدا کیا یعنی انگریزی اور فرانسیسی ہونے کا شعور اور شناخت۔ یہ دونوں اپنے ارد گرد کی اقوام کو ہڑپ کر گئیں۔ مثلاً ویلز، کورنوبیا، بریٹینی، اوسی ٹینیا، وغیرہ۔ انیسویں صدی میں یہ خطّے قومی ثقافت میں لوگوں کی دل چسپی دوبارہ پیدا ہونے کے تجربات سے گزرے جس نے بیسویں صدی میں خود مختاری کی تحریکوںکو جنم دیا۔

قوم پرستی کی تحریکوں کا کردار

بعض قومی ریاستیں انیسویں صدی میں قوم پرستوں کی جانب سے چلائی جانے والی سیاسی تحریکوں کے کسی حد تک نتیجے کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھریں، مثلاً جرمنی یا اٹلی۔ ان دونوں معاملات میں یہ خطّہ پہلے دیگر ر یاستوں میں تقسیم تھا جن میں سے بعض بہت چھوٹی تھیں۔ ابتداء میں مشترک شناخت کا احساس ایک ثقافتی تحریک تھی۔ مثلاً ان ریاستوں میں جہاں جرمن زبان بولی جاتی تھی ابتداء میں وولکِش تحریک چلی تھی جس نے بعد میں سیاسی اہمیت حاصل کرلی تھی۔ ان دونوں صورتوں میں قوم پرستی کے جذبات اور قوم پرستی کی تحریکوں نے واضح طور پر جرمنی اور اٹلی کی ریاستوں کے متحد ہونے کی راہ ہم وار کی۔

ریاست اور قوم میں تعلّق

نسل پرستی اور لسانی قوم پرستی کے درمیان تعلق کو بیسویں صدی عیسوی میں فاشزم اور نازی ازم نے عروج پر پہنچایا۔ ریاست اور قوم (عوام) کے درمیان جو مخصوص تعلق ہوتا ہے اس کی ابتدائی نظیر 1935ء کے نیورمبرگ کے قوانین کے نفاذ کی صورت میں ملتی ہے جس کے نتیجے میں فاشسٹ ریاستیں وجود میں آئیں۔ آج قومی ریاستیں جب یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ اپنی سرحدوں میں مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہیں تو بعض حلقے اس پر سخت اعتراضات کرتے ہیں۔ ان کے بہ قول ایک ایسی دنیا میں جہاں کا عالمی سیاسی نظام عالمی معاہدوں اور ملکی قاعدوں اور قوانین سے بالاترعلاقائی بلاکس پر انحصار کرتا ہو اسے جنگ عظیم کے بعد کے دور کی دنیا کے طور پر شناخت کرنا چاہیے۔ غیر ریاستی عناصر، مثلاً کثیرالقومی ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں وسیع پیمانے پر قومی ریاستوں کی اقتصادی اور سیاسی حکمت عملیوں پر غلبہ حاصل کرتی نظر آتی ہیں اور ان عناصر میں اتنی طاقت ہے کہ وہ بالآخر ریاستوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیتی ہیں یا مٹا سکتی ہیں۔

مفادات کا کھیل

قومی ریاستوں کے قیام سے قبل براعظم یورپ اور ایشیاء میں بھی کثیراللسانی لوگ (یا اقوام) بستے تھے اور ان پر ریاستی مشنری کی سرپرستی میں چلنے والی بادشاہت یا سلطنت حکومت کرتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے کے اقتصادی نظریات، سیاسی اور سماجی نظریات اور تجربات سے نہ صرف گہرا تعلق رکھتے تھے بلکہ وہ نفع بخش انداز میں تیزی سے فروغ پارہے تھے۔ پھر لبرل نظریے اور سرمایہ دارانہ اقتصادیات نے گٹھ جوڑ کیا اور سیاسی نظریات کا تعلق اقتصادی تجربات سے جوڑ دیا گیا۔ اس گٹھ جوڑ کے نتیجے میں بدعنوانیوں کی نت نئی اقسام سامنے آئیں اور ریاست کے بہترین مفادات کو تجارتی مفادات سے نتھی کردیا گیا۔ عوام کے مفاد میں حکومتوں نے مالیات، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں زرِ تلافی دینے کی حکمت عملی کی روز افزوں حمایت کرنا شروع کی۔ تاہم آج قانونی حیثیت رکھنے والی ایسی ریاستیں جو موثر اور کثیرالجہتی صنعتی اقتصادیات کا نظام چلا رہی ہوں ان کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ جدید قومی ریاستوں کی خصوصیات رکھتی ہیں۔

خصوصیات

ہر قومی ریاست کی بعض اپنی خصوصیات ہوتی ہیں، لیکن ان میں بہت سی خصوصیات مشترک ہوتی ہیں۔ تاہم بادشاہت یا سلطنت سے ان کی خصوصیات یک سر مختلف ہوتی ہیں۔ ان کی خاص بات یہ ہے کہ ان کی سرحدوں پر پابندیاں کم ہوتی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ریاست خود کو قومی اتحاد، اقتصادیات، سماجیات اور ثقافت کے فروغ کے ضمن میں کسی حد تک استعمال کرتی ہے۔ قومی ریاست اقتصادی برابری کو فروغ دیتی ہے اور اس مقصد کے حصول کی راہ میںرکاوٹ بننے والی اندرونی روایات اور عوامل کو ختم کرتی ہے۔ ریاست نقل و حمل کے لیے قومی پالیسی تشکیل دیتی اور اس پر عمل درآمد کراتی ہے اورتجارت اور نقل وحمل کے شعبوں کو فروغ دیتی ہے۔ان بنیادی شعبوں پر توجہ دینے کے نتیجے میں معاشرے سے اقتصادی بے چینی ختم یا بہت حد تک کم ہوجاتی ہے، تجارت اور نقل و حمل کے شعبوں کے فروغ سے لوگوں کو آسانی سے روزگار کمانے اور ایک دوسرے سے ملنے کے زیادہ سے زیادہ مواقعے ملتے ہیں جس کے نتیجے میں ان میں ایک قوم ہونے اور مل جل کر کام کرنے کا جذبہ فروغ پاتا ہے۔

’’عظیم غلطی‘‘

ایسی ریاست میں زیادہ مرکزیت والی اور یکساں عوامی انتظامیہ ہوتی ہے۔ سلطنتوں کے مقابلے میں یہ نسبتاً چھوٹی ہوتی ہیں اور ان کی آبادی میں زیادہ تنوّع نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس سلطنتِ عثمانیہ اور برطانوی سلطنت کئی براعظموں تک پھیلی ہوئی تھیں اور ان کی آبادی میں بہت تنوّع تھا۔ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ متنوّع آبادی والا پاکستان (جس میں کثیراللسانی اکائیاں بستی ہیں) قومی ریاست کی خصوصیات نہیں رکھتا۔ کیوں کہ اس کے قیام کی واضح سیاسی، ثقافتی، سماجی اور اقتصادی وجوہات تھیں اور دنیا کے نظام میں اس کا واضح سیاسی، سماجی اور ثقافتی کردار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے اپنی ملکی حکمت عملیوں کی وجہ سے خود کو ایک منظم قوم نہیں بنایا۔ دراصل ہمارے حکم رانوں نے (ابتدائی دوچار افراد کے علاوہ) بنیادی غلطی یہ کی کہ پاکستان کو روایتی ریاست سے جدید ریاست بنانےپر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ مختلف حلقے اس کی مختلف وجوہ بیان کرتے ہیں، لیکن کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرتا کہ ہم نے یہ غلطی کی اور آج تک کر رہے ہیں۔ اس ’’عظیم غلطی‘‘ کے نتیجے میں ریاست کا اوّل تو کوئی واضح اور مستحکم ڈھانچا نہیں بن سکا، دوم اقتدار میں عوام کے شریک ہونے کا تصوربہت حد تک دھندلا گیا۔ پھر بدانتظامی، بدعنوانی اور نا اہلی کے سبب اور اخلاص اور دوراندیشی کے فقدان کی وجہ سے ریاست کی ر ہی سہی مشنری یا نظام سڑنے گلنے لگا اور اب اس میں سے اٹھتا ہوا تعفن سرحدود کے پار بھی واضح طورپر محسوس کیا جاتا ہے۔

تشدّد کا عنصر

ممتاز مغربی مفکر انتھونی گِڈنز اپنی کتاب ’’وار اینڈ نیشن اسٹیٹ اِن سوشل تھیوری‘‘ میں لکھتا ہے کہ جدید قومی ریاستوں کی ترقی میں عسکری اداروں اور ٹیکنالوجیز کی واضح مدد اور تعاون رہا جس کے نتیجے میںتشدّد کی اجارہ داری قائم ہوئی۔ لیکن آج کی قومی ریاستوں نے خود کو سرحدوںمیں قید طاقت رکھنے والے عوامل کے طور پر اپنے معاشروں پر گہری نگاہ رکھنے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت حاصل کی اور آج وہ اس قابل ہیں کہ اپنے معاشروں سے تشدد کو ختم کرسکیں یا اسے بہت معمولی سطح تک لے جاسکیں۔ اس کے باوجود آج کی بعض قومی ریاستوں میں خانہ جنگی کی کیفیت ملتی ہے۔لیکن روایتی ریاستوں اور معاشروں میں اندرونی مسلح جدوجہد کے مقابلے میں اس کی مثالیں کم ملتی ہیں۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جو ہمیں خاص طور سے غور و فکر کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ کیوں کہ ایک جانب ہم خود کو قومی ریاست کہتے ہیں اور دوسری جانب ریاست کے معاملات اشرافیہ کا طبقہ چلاتا ہے جو عوام کے مسائل اور حالات سے لاتعلق ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں ملک میں جگہ جگہ پُرتشدد واقعات رونما ہوتے نظر آتے ہیں۔

نیا سماجی نظریہ

انتھونی گڈنز کے بہ قول سماجیات اور بین الاقوامی تعلقات میں جو نیا اور نازک رشتہ استوار ہے اس کے عروج پر آج پر ریاستوں کی بقاء کا سوال پیدا ہوچکا ہے۔ ریاست کے بارے میں نیا سماجی نظریہ 1980ء کی دہانی میں پروان چڑھا جس نے ریاست کو ریاست کے نظام کے تناظر میں رکھا اور یوں عالمی نظریے کے ساتھ مکالمہ شروع ہوا۔ بین الاقوامی تعلقات میں سماجی پہلو آج نمایاں کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ ہالی وڈ اور بالی وڈ کے عالمی اثرات اس کی واضح مثالیں ہیں۔ لیکن ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نے سماجیات کے شعبے میں بھی معکوس ترقی کی ہے۔ ہم نے عالمی سطح پر اپنا یہ تشخص بھی دھندلا دیا ہے کہ پاکستانی نرم خُو، پُروقار اور جیو اور جینے دوکے اصول پرکار فرما رہنے والی قوم ہے۔ ہماری سرحدوں میں رہنے والوں نے چند برسوں میں لوگوں کو قتل کرتے ہوئے دکھائی جانے والی وڈیوز انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرکے ہمارا سماجی چہرہ بھی بُری طرح مسخ کردیا ہے۔ہماری سرحدوں سے جانے اور آنے والوں نے دنیا کے مختلف مقامات پر دہشت گردی کی وارداتیں کرکے پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت یا سرپرستی کرنے والی ریاست کا بدنما اور بھیانک لیبل لگا دیا ہے۔

ہمارا مسخ چہرہ

لیکن یہ سب کچھ ایک روز میں یا ایک حکومت کے دور میں نہیں ہوا ۔ ہم نے یہ ’’نیک نامی‘‘ کمانے کے لیے برسوں ’’منظم جدوجہد‘‘ کی جس میں بدقسمتی سے بعض ریاستی عناصر بھی شامل تھے۔ ہمارے بعض اداروں اور کرتا دھرتائوں نے قومی سلامتی کے نام پر جب چاہا اور جو چاہا فیصلہ کیا اور عوام،حتیٰ کہ وقت کے منتخب وزرائے اعظم کو بھی اس نام پر بعض اہم فیصلوں اور معاملات سے دور رکھا۔ ہم نے اپنے ہاتھوں سے بہت منظم انداز میں اپنے لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے پورے پورے انتخابات انجینئرڈ کیے، سیاسی جماعتوں کو خریدا اور اسمبلیز کے اراکین کی منڈیاں لگائیں۔ ایسے حالات میں قوم ایک طرف اور ریاست دوسری طرف کھڑی نظر آتی ہے۔ ہم نے اپنی مذموم حرکتوں کی وجہ سے قوم کو ریاست اور سیاست کے معاملات سے بہت دور دھکیل دیا ہے۔ یہ کوئی کہی سنی بات نہیں ہے بلکہ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ عام انتخابات میں کتنے فی صد پاکستانی رائے دہندگان اپنی رائے کا اظہارکرتے ہیں اور کتنے اس سارے عمل کو ڈھونگ سمجھ کر اس سے برأت کا اعلان کرکے اس روز گھروں میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

فری یونی ورسٹی آف ایمسٹرڈم کے شعبے پولیٹیکل سائنس کی سوشل سائنسز فیکلٹی سے تعلق رکھنے والے عفران بدخشانی، ’’عالم گیریت: خود مختار ریاستوں کا اختتام‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے اپنے مقالے میں رقم طراز ہیں کہ عالم گیریت اور ورلڈ آرڈر کے شور میں دنیا کا نظام اور اس کی سیاست ایک نئے خطرے سے دوچار ہے اور خود مختار قومی ریاست کے بارے میں سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ موجودہ عالمی حالات میں ریاستیں کم زور ہو رہی ہیں اور دوسری جانب ان کا ایک دوسرے پر انحصار اور ایک دوسرے سے ربط ضبط بڑھتا جارہا ہے۔ مارٹن وولف کے بہ قول عالم گیریت ایک سفر ہے، لیکن ایسی منزل (عالم گیریت) کی جانب،جہاں تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ بعض سیاسی مبصرین اور ماہرینِ علم سیاسیات کہتے ہیں کہ دنیا کے موجودہ نظام میں کسی ریاست کے معاملات آزدانہ اور خود مختارانہ اندازمیں چلانا تقریباً ناممکن ہے، لیکن سیاست ناممکن کو ممکن بنانے اور کسی غیر نفع بخش اقدام کو اپنے یا ریاست کے حق میں نفع بخش انداز میں استعمال کرنے کا نام ہے۔ ان کے بہ قول اگر پاکستان کی ریاست چاہے تو اٹھارہ کروڑ کی آبادی ہی کو اقتصادی اعتبار سے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے بہت سے عالمی اقتصادی فوائد حاصل کرسکتی ہے۔ اگر ہم حکم رانی کی طرز پچاس فی صد تک بھی تبدیل کردیں تو ملک میں انقلاب برپا ہوجائے۔ دھندلی راہوں پر سفر کرتے کرتے ہم نے سات دہائیاں بِتا دیں، آدھا ملک گنوا دیا، دہشت گردی کا عالمی لیبل خود پر لگوا لیا، ساری دنیا میں کاسۂ گدائی لیے پھرتے ہیں اور بار بار کوئے ملامت کو جاتے ہیں پھر بھی ہمیں احساسِِ زیاں نہیں ہوتا۔ لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ ان راہوں پر تھوڑی دیرکے لیے رُکیں اور سُود و زیاں کا حساب کرکے اپنی منزل کا تعین کریں۔ ایک قومی ریاست کے طور پر، ایک آزاد قوم کی حیثیت سے۔سوال یہ ہے کہ کیا ’’نئے پاکستان‘‘میں ایسا ہوسکے گا؟ اس کا جواب وقت ہی دے سکتاہے۔