دنیائے اسلام میں جمہوریت کا تصو

November 25, 2012

”جمہوریت ہی معاشی ترقی اور خود مختار ریاست کی ضمانت ہے۔“ یہ اتفاق رائے ہے 8 بڑے اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا جو D-8 کے پلیٹ فارم پر یہ سوچنے کے لئے جمع ہوئے کہ ہم اقتصادی ترقی کیسے کریں؟ ہمیں سیاسی استحکام اور عوامی خوشحالی کیسے نصیب ہو اور ہم اپنی خود مختاری کو کیونکر تحفظ دے سکتے ہیں؟ ان کی سیاسی باہمی سوچ کا جواب آیا ہے ”جمہوریت“ جو اعلامیہ۔ اسلام آباد 2012 بن گیا ہے۔ ہم تو پہلے ہی ”اسلامی جمہوریہ“ ہیں۔ اب اور سات اسلامیوں، ترکی، ایران، مصر، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، نائیجریا اور ملائشیا کے ساتھ مل کربھی متذکرہ سوالوں کا جواب بھی جمہوریت ہی نکلا ہے تو پھر مکمل سنجیدگی سے سوچنا ضروری ہے کہ ہم جمہوریت سے کتنا قریب اور اس سے کتنا دور ہیں؟ فقط الیکشن کے ذریعے تشکیل و تبدیلی حکومت ہی جمہوریت ہے یا اس کے معاشرے میں نظر آنے والے کچھ اور بھی تقاضے ہیں۔ اسلام کی روح اور حقیقی فلسفے کو سمجھنے کی نیت سے قرآن اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو جمہوریت ہی بہترین نظام ریاست و حکومت معلوم دیتا ہے۔ خلافت اور جمہوریت کی کچھ ہم آہنگی بھی واضح ہے۔ عام شہری کی خلیفہ سے جواب طلبی حکمرانوں کا کڑا احتساب کے کسی استثناء کے بغیر خلیفہ کو عدالت میں طلب کرنے کا قاضی کا اختیار، اسلامی معاشرے میں کلمہ حق کی اہمیت اور آزادی، کنبہ پروری سے گریز، قانون کا یقینی اور سب پر یکساں اطلاق، اتجہاد و اجماع پر سب اسلامی فلسفہ زندگی اور معاشرے کی تشکیل کے وہ خدوخال اور ارفع اقدار ہیں جن پر قرآن اور بڑے بڑے مسلم دانشوروں نے بے حد زور دیا ہے۔ پھر مشاورت، مساوات اور عوام کی خلیفہ تک بآسانی پہنچ بھی اعلیٰ جمہوری اقدار نہیں؟ سوال یہ ہے کہ ان تعلیمات کی پریکٹس بھی اسلامی تاریخ میں شامل ہے یا نہیں؟ ہے تو کتنی؟ حقیقت یہ ہے کہ خال خال جو مسلمانوں کو اپنے نظریئے کی سچائی اور قابل عمل ثابت کرنے کے لئے مثال دینے کے کام آ جاتی ہیں۔ لیکن متذکرہ خدوخال پر غور فرمائیں تو واضح ہوتا ہے کہ فلسفے اور تعلیمات کی حد تک جمہوریت اسلام میں کوٹ کوٹ کر بھری اور اس کے ضمیر اور خمیر کا ناگزیر عنصر ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مختلف معروف مسلم ادوار اور سلطنتوں میں مسلم حکام نے قرآنی تعلیمات اور اسلامی فکر و فلسفہ کو نظام میں ڈھالنے اور ان پر ادارہ سازی پر کوئی توجہ نہیں دی۔ نتیجتاً مسلمان کوئی سیاسی و حکومتی نظام جاریہ تشکیل دینے میں ناکام رہے۔ یہی وجہ تھی کہ مسلم حکام چیک اینڈ بیلنس کے کسی فریم کے بغیر حکومتیں اور ریاستیں قائم کر کے حکومتیں کرتے رہے۔ اسلام سے عقیدت اور اسلامی معاشرے کا کچھ دباؤ ہی ان سے خال خال کسی نہ کسی اسلامی فلسفے یا اقدار کی عملداری بھی کراتا رہا جو ہمارے لئے بہت اچھے حوالے بن گئے۔ بڑے بڑے مسلم علماء اور اہل دانش اگر جمہوریت کی مخالفت کرتے کرتے بالآخر اس کے قائل ہو گئے ہیں تو اس کی حقیقت یہی رہی کہ مغرب نے ہی عوام کی اہمیت کو بتدریج آگے بڑھایا اور حکومت و حکمرانوں کو معاشرتی و اقتصادی استحکام اور قیام امن و سلامتی کے نظام کے کل پرزے کے طور پر لیا۔ ہمیں پوری ہمت و جرأت سے تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسلمان تہذیب انسانی کے ارتقاء میں اعلیٰ فکری سرمائے اور دانش کے بلند معیار پر پہنچنے اور اسلام کے متذکرہ فلسفے اور قرآنی تعلیمات کے حامل ہونے کے باوجود اس (فلسفے اور تعلیمات) کی عملداری کیلئے کوئی سیاسی و حکومتی نظام جاریہ (Sustainable Political Order)تشکیل دینے میں کامیاب نہیں رہے اور اہل مغرب کامیاب۔ اسی لئے تاریخ کے ایک مخصوص دورانیے میں جب بھی جمہوریت کو بطور سیاسی حکومت کو کسی مسلم معاشرے میں اختیار کرنے کی تجویز سامنے آئی، علماء وقت نے اس کی مخالفت یہ کہہ کر کی کہ یہ مغرب کا نظام ہے۔
مسلم دنیا میں جمہوریت کی قبولیت تب ہی بتدریج شروع ہوئی جب مغربی معاشرے کی تشکیل حکومت کے لئے ووٹ، الیکشن، پارلیمنٹ اور آئین کی عملداری کے ثمرات سے مستفید ہونے لگا۔ اان میں ہر فرد کی ایک یکساں اہمیت قائم ہو گئی، زندگی کے مختلف مواقع یکساں میسر آ گئے۔ قرآنی تعلیمات اور اسلامی فلسفے کے مطابق ایک مستحکم، متحد اور آزاد خوشحال معاشرے کے لئے قرآنی تعلیمات اور اسلامی معاشرے کا فلسفہ فکری و دانشورانہ اثاثہ ہے تو اس کو نظام اور ادارہ سازی میں مغرب کی کنٹریبیوشن کو بہرحال ہم یوں تسلیم کر رہے ہیں کہ اسی فریم میں رہ کر ہم نے پاکستان حاصل کیا۔ لیکن اس فریم (جمہوریت) کے بغیر ہی اسے چلانے کی کوشش کی ترکی نے سیکولر جرنیلی مافیا سے نجات حاصل کر کے اسے اختیار کر لیا تو وہ خوشحالی و استحکام کی پٹڑی پر چڑھ کر آج دنیا کی 18 ویں بڑی اقتصادی طاقت بن چکا ہے۔ ایران نے اسے بہت حد تک اختیار کر کے قومی استحکام اور بلند درجے کی خود مختاری حاصل کی۔
انڈونیشیا اور ملائشیا اگرچہ آزادی اظہار رائے کی اس نعمت سے محروم معاشرے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے مطابق پاکستانیوں کو حاصل ہے، لیکن یہ اور بہت سی تعلیمات (جن میں سب سے زیادہ ریاستی نظام کی حکام سے زیادہ رعایا کی فکر اور ان پر توجہ شامل ہے) کو اختیار کر کے خوشحالی اور استحکام کی طرف گامزن ہیں۔ اگرچہ بنگلہ دیش اپنے بڑے جمہوری ہمسائے بھارت (کے پہلے 50 سال کی طرح) اور آج کے پاکستان کی طرح خاندانی جمہوریت کے مرض میں بدستور مبتلا ہے، لیکن انتخابات کے تسلسل اور نظام کی اختیاریت نے اس کے عوام کی اہمیت کو بڑھاتے ہوئے خوشحالی کی طرف گامزن کیا ہے۔ نائیجریا اسی (جمہوریت) کی طرف آ کر بدترین کرپشن اور بدنظمی سے بالآخر نجات پا چکا ہے۔ مصری عوام اپنے طور پر ایک جمہوری انقلاب برپا کر کے بدترین آمریت کو دفن کر کے ایک نئے اعتماد سے ایک نیا اسلامی جمہوری معاشرہ تشکیل دینے کے لئے سرگرم اورپر اعتماد ہیں۔ پاکستان جو جمہوریت سے بن کر غیر جمہوری ہو گیا آج دہشت گردی، کرپشن اور خاندانی جمہوریت کے امراض میں مبتلا ہے۔ واضح رہے کہ مغرب کے تیل سونے اور کسی بڑے معدنی ذخیرے کے بغیر جن ممالک میں خوشحالی اور معیار زندگی بلند تر ہے وہ جمہوری ممالک ہی ہیں جو خاندانی اور گروہی سیاست سے یکسر آزاد خالصتاً جمہوری فلسفے پر بنے ہوئے حکومتی و ریاستی فریم میں حکومت و سیاست کر رہے ہیں۔ خاندانی اور مافیاز (لابیز) کے حکومتی نظام پر اثر کا اثر تو امریکہ جیسی جمہوری طاقت پر پڑا ہے اور وہاں غربت میں اضافہ اور معاشرتی استحکام میں کلی ہوئی ہے۔ وال سٹریٹ موومنٹ اس کا واضح عندیہ ہے۔ پاکستان میں جمہوری اقدار و مزاج کے عوض ملک کو بہت کچھ حاصل بھی ہوا اور جمہوریت کو پامال کرنے پر ہم نے بہت کچھ کھویا بھی۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ ہماری جمہوریت خاندانوں، برادریوں، علاقوں اور چند پاور فل انرمٹ گروپس تک محدود ہو گئی ہے۔ آنے والے یہ بت ٹوٹتے نہیں لگتے حالانکہ اعلامیہ اسلام آباد میں 8 بڑے ترقی پذیر اسلامی ممالک نے جمہوریت کو ملکی استحکام، خود مختاری اور عوامی خوشحالی کا ضامن تسلیم کر لیا ہے۔ سوچنا ہے کہ یہ بت کیسے توڑے جائیں؟